fbpx
بلاگ

ایک سفر جو سب کو درپیش ہے / سید عارف سعید بخاری

بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس میں اس کی اپنی مرضی و منشاء کا عمل دخل نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے تکمیل کائنات کے عمل کو وسعت دینے اور جاری و ساری رکھنے کیلئے جس ذی روح کو دنیا میں بھیجنا ہوتاہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت آنے سے روک نہیں سکتی۔ ہر بچہ اپنا نصیب ساتھ لے کر آتا ہے۔تقدیر کا لکھا ٹل نہیں سکتا اور مقدر میں لکھا ہر حالت میں ملنا ہے۔ زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے اس کا ایک ایک لمحہ،انسان کی ایک ایک سانس خوشی اور غم کے ہزاروں لاکھوں لمحات سے گذرتی ہے۔پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں۔اکثر لوگ انہیں اللہ کی آزمائش جان کر صبر و شکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ مایوس ہو کر بسا اوقات اپنی جان تک لے لیتے ہیں۔یا کسی دوسرے کی جان لے لیتے ہیں۔
زندگی کے جھملیوں میں ہر انسان کسی نہ کسی شکل میں الجھا ہے اور یہ سب کچھ انسانی روح کی بدولت ہے،جہاں روح قفس عنصری سے پرواز کرتی ہے۔سبھی کچھ فنا ہو جاتا ہے۔کفن بھی نصیب سے ملتا ہے،ورنہ انسانی جسم کے ٹکڑے اکٹھے کرنا دشوار ہوجاتے ہیں۔انسان کی زندگی رشتوں اور تعلق داروں سے جڑی ہے۔خونی رشتے ایسا جال ہے کہ جس سے چھٹکارا پانا محال ہے۔یہی رشتے ساری زندگی سکھ دینے کی بجائے ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا کئے رکھتے ہیں۔زندگی میں حقوق و فرائض سے بے نیاز لوگ بھی انسان کے مرنے کے بعد مرحوم کے خونی رشتوں کے لئے سوہان روح بن جاتے ہیں۔ایک اچھا مرد زندگی اپنی”شریک سفر“ کی رضا اور خوشنودی کیلئے وقف کردیتاہے لیکن ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو والدین،بیوی،بچوں اور بہن بھائیوں کے حقوق ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ایسا شوہر جوزندگی بھر اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا۔اس کی جسمانی ضرورت تک پوری کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔اس کی خوراک،لباس سمیت دیگر ضروریات تک پوری نہیں کرتا لیکن اسی بیوی، جسے تمام زندگی سکھ کا ایک لمحہ بھی جینے نہیں دیا، مرنے کے بعد اس کے ماں باپ (یعنی ساس سسر)کی جائیداد پر اپنا حق جتانے لگتا ہے۔محنت کرکے کھانا اور بیوی کے اخراجات پورے کرنا،والدین اور بہن بھائیوں کے حقوق ادا کرنامرد کی اولین ذمہ داری ہے۔لیکن وہ فرائض سے دور بھاگتا ہے۔اللہ تعالیٰ اسے اسلام میں بیان کردہ بیوی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نہیں دیتا۔ادھر بیوی مری،ادھر دوسری شادی میں بھی دیر نہیں لگاتا۔لیکن بیوی کے وراثتی حصے پر اپنا حق جتانا کار ثواب سمجھتا ہے۔
زمانہ بدل گیا۔نفسا نفسی کا دور ہے۔رشتوں کا تقدس مفقود ہوچکا۔ہر بندہ اپنے مفاد کی جنگ میں الجھا ہے۔جائیدادوں کے بٹوارے کئے جا تے ہیں۔خونی رشتوں کو تھانے کچہریوں میں رولا جاتا ہے۔اس پر ظلم یہ ہے کہ ایسے متنازعہ امور جن کا تصفیہ 10سے20منٹ میں  ممکن ہے۔وہ بھی سال ہا سال عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔اپنے حق کیلئے یہ لوگ خونی رشتوں کے ساتھ”بلاتکار“ کرتے ہیں۔بحیثیت مسلمان انہیں اسلامی تعلیمات سے کوئی آگاہی نہیں لیکن جہاں فائدے کی بات ہو وہاں انہیں فوراً اسلام یاد آنے لگتاہے۔اللہ رسول ؐ کے فرمان یاد آنے لگتے ہیں کہ اسلام تو حق وراثت دیتا ہے۔ بیوی پر ظلم ڈھانے والا شخص بھی ڈھٹائی سے مرحومہ کے والدین کی جائیداد سے حصہ مانگتا ہے۔خونی رشتوں کو خوار کرتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ساری زندگی کرب میں گذارکر ایک ہی فلسفہ ذہن میں آتا ہے۔کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ بیوی کے حقوق سے تو آگاہی نہیں یا دانستہ چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ لیکن اپنے سارے حق یاد ہوتے ہیں۔
انسانی فطرت کے حوالے سے ایک بزرگ سے گفتگو ہوئی تو وہ بولے کہ ”ہم نے بھی زندگی رشتوں کی ناز برداریوں پر ہی گذار دی۔کبھی یہ خیال دل میں نہ آیا کہ بظاہر ”میرا اپنا، میرا اپنا،۔۔۔ کا راگ الا پنے والوں کے دل و دماغ میں کس قدرمنافقت بھری ہے۔ دولت کالالچ انسان سے ہر اچھا بُرا کام کرواتا ہے اور ہم مجبوراً یا خوشی سے سب کچھ سہتے ہیں۔زندگی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔دل مایوس و مضطرب ہے۔انسان خونی رشتوں بیوی،بچوں،بہن،بھائیوں کیلئے دولت اکٹھی کرتا ہے،بڑے بڑے محلات اور فارم ہاؤسز بناتا ہے،بالآخردولت اور اثاثہ جات ایک فتنے کی صورت دنیا میں ہی چھوڑ کراپنے حقیقی سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔وہ مزید بولے ”جانا توایک دن سبھی نے ہے لیکن بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر دل اداس ہے“۔دولت جمع کرتے وقت یہ خیال تک نہ آیا کہ یہ سب تویہیں دنیا میں رہ جائے گا۔روز محشر تو اسی دولت کا حساب دینا ہوگا،وہاں اعمال کے بارے میں پوچھا جانا ہے، لیکن اب دم ِآخر پچھتاوے کے جو نشتر میرے دل و دماغ کو چھلنی کئے جاتے ہیں،اس کاکوئی علاج بھی ممکن نہیں۔“بزرگ کی زبان سے ادا ہونے والے یہ جملے ایک معاشرتی المیے کے عکاس ہیں اور اس صدی میں ہر گھر کی کہانی ہے۔جسے کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔
 ایسا وقت آ چکا کہ اولاد والدین سے ان الفاظ کے ساتھ بات کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی کہ ”بس! جناب محترم اب آپ کا کھیل ختم،قبر میں ٹانگیں لٹکائے آپ بیٹھے ہیں،ملک الموت آپ کا منتظرہے۔کریں ہمارے حوالے اپنا سب کچھ،کیونکہ باپ اور ماں کی جمع پونجی پر اولاد کا حق ہے“۔جب ماحول میں اس قسم کی شدت آتی ہے کہ انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب اولاد مزید والدین کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کررہی اور انسان کا دل اندر سے ایسا روتا،چیختا اور چلاتاہے کہ اگر انسان یہ سب سن سکے تو اُسے اندازہ ہو کہ والدین کے دل پر کیا بیت رہی ہے،سچ تو یہ ہے کہ یہ آوازیں باہر شریک سفر سمیت اولاد اور خونی رشتوں تک کو سنائی نہیں دیتیں یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنے کئے پر پشیمان ہوتا ہے اور اس کے اندر سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ؎
چل میلے نوں چلئیے۔۔۔۔یا پھر یہ کہ ؎
انشاء جی اٹھو! اب کوچ کرو،اس شہر میں جی کو لگانا کیا۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔۔۔  کے مصداق کرب و الم میں ڈوبا شخص دنیا سے رخصت ہونے کا تمنائی ہوتا ہے کہ  وہ چاہتا ہے کہ دنیا والے زندگی کے آخری لمحے تواسے سکون سے مرنے دیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہی وہ اپنے ہیں جو مرنے کے بعد تن سے کپڑے بھی اتارلیتے ہیں۔اور مرنے والے کاکل اثاثہ لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں کہ مرحوم کے زیر استعمال اشیاء گھر میں نحوست کا سبب بنتی ہیں۔واہ رے انسان! مرنے والی کی چیزیں تو ”نحوست“ کا سبب بنتی ہیں مگر اُس کا چھوڑا ہوا دیگر آثاثہ یعنی گھر اور دولت شایدکار ثواب کا سبب ہے۔جس سے انسان دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔یہ اپنے ہی ہیں جو انسان کو دو گز زمین میں دفن کرکے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔اور زندگی کے جھمیلوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ دوبارہ قبر پر آنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے