ویسے تو میں سوانح حیات (memoir) پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن آج سے تین سال پہلے میں نے ایک نوجوان ڈاکٹر پول کلھانتی کی سوانح حیات “وین بریتھ بیکمس ایئر” (When Breath Becomes Air) کو نہ صرف پڑھا بلکہ میں کتاب کے اختتام پر جذباتی ہوکر رونے بھی لگی۔ پول جو کہ ایک نوجوان ڈاکٹر ہے جس نے ادب، فلسفہ، بیالوجی، ہسٹری، میڈیسن پڑھا ہے اور وہ ایک نیورو سرجن بننے جا رہا ہے اور ساتھ ہی وہ نیوروسائنس سے متعلق کچھ بہترین ریسرچ بھی کررہا ہوتا ہے، (اتنی کم عمر میں اتنا سب کچھ حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں)، پول کے آگے ایک بہترین مستقبل اسکا انتظار کررہا ہے اور اس دوران اسے معلوم ہوتا ہے اسے کینسر ہے اور اس کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ ایک لڑکا جو اتنی محنت کرکے اس مقام تک پہنچتا ہے اور جسکا کیرئیر ابھی شروع ہوا ہے وہ موت کا حقدار نہیں۔ ایک عجیب سی آزردگی آئی دل میں کہ ایسا کیوں ہوا اس کے ساتھ اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا یا شاید کتاب لکھنے والے کا لہجہ ہی ناراضگی سے بھر پور تھا!!
ایسے ہی ایک مرتبہ ایک نوجوان لڑکے کا اِن باکس میں میسج آیا اور اس نے کہا کہ “میڈم میں نے بہت محنت کی ہے زندگی میں اور اب مجھے اسکا انعام (reward) چاہیے اور مجھے میری محنت کے حساب سے انعام موصول نہیں ہورہا”۔ اور اسکی وجہ سے وہ کافی آزردہ (resentful) بھی تھا، معاشرے اور فطرت/قسمت سے ناراض……
ایسی آزردگی میں نے اپنے لیے بھی محسوس کی ہے جب مجھے لگتا تھا کہ کچھ لوگوں کے رویوں کی وجہ سے میں وہ سب نہیں کرسکی جسکا مجھ میں ٹیلنٹ ہے (بیشک ہر انسان کو اپنا آپ بہت ٹیلنٹڈ لگتا ہے اور اسے آپ میری خوش فہمی یا غلط فہمی کہہ سکتے ہیں)۔ معاشرے یا فطرت کی ناانصافیوں پر انگلی اٹھانا ضروری ہے، ضرورت پڑنے پر شور مچانا اور احتجاج کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر آپ اس آزردگی سے بھر ے جذبات سے نمٹتے (process) نہیں تو پھر آپ کے احتجاج سے ‘منطق’ (logic) نہیں بلکہ صرف ‘آزردگی’ چھلکتی ہے۔ اور ایسی ہی آزردگی جو کبھی میرے احتجاج میں تھی جب میں لوگوں کو اپنے دکھڑے سنا کر بور کرتی یا انہیں بتاتی کہ میں ان سے زیادہ لائق (deserving) ہوں، وہی آزردگی میں نے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے احتجاج میں بھی دیکھی جب وہ ایک پوڈکاسٹ میں کچھ سیاست دانوں کے بچوں کے امریکہ میں لائف اسٹائل پر تبصرہ کررہے تھے۔ انکا تبصرہ درست تھا لیکن ان کے تبصرے میں “احتجاج” سے زیادہ “آزردگی” تھی جس سے وہ شاید نمٹ (process) نہیں سکے آج تک (ہوسکتا ہے میرا اندازہ غلط ہو)۔
ہم سب اس سسٹم کی نا انصافیوں سے واقف ہیں۔ اس سسٹم میں کچھ لوگوں کو کم تو کچھ کو بلکل بھی نہیں اور اکثر کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، اور کبھی کبھار تو محنت کا صلہ بھی نہیں ملتا۔ ہم سماجی مخلوق ہیں اور برابری کے لیے آواز اٹھانا ہماری بیالوجی میں شامل ہے، لیکن اس آواز میں آزردگی، بیچارگی اور ناراضگی نہیں بلکہ “منطق” ، “حقیقت پسندی” اور “پختگی” ہونی چاہیے۔ پرویز ہودبھائی کو سیاست دانوں کے بچوں کی نسبت زیادہ محنت کرنی پڑی ہوگی، ان بچوں کے لیے یقیناً بہت سی آسانیاں رہی ہونگی، ان بچوں کی چاپلوسی کرنے والے بھی بہت رہے ہونگے، لیکن ان میں سے کئی بچے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں، اور کئی پہنچیں گے۔ بیشک ہر انسان اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
ہم سب کو بھی اپنی زندگی میں اپنے رشتوں سے اور قسمت/فطرت سے اکثر گلے رہتے ہیں اور یقیناً وہ گلے بجا ہوتے ہیں لیکن اگر آپ ان گلوں سے صحیح طور سے نمٹیں (process) نہیں تو یہ آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ آزردگی کی لپیٹ میں رہنے والا دماغ آگے بڑھنے سے روکتا ہے، یہ آپکو اپنے حال میں موجود نعمتوں کو دیکھنے اور لمحوں کو جینے سے روکتا ہے، یہ آپ کو منطق کی راہ سے بھٹکاتا ہے۔ فلسفی سدھارت گوتم کہتا ہے “کسی کے لیے دل میں آزردگی رکھنا یوں ہے جیسے زہر کا پیالہ خود پی لیں اور امید رکھیں کہ سامنے والا مر جائے” ۔ میں خود اس کیفیت سے گزری ہوں۔
اسٹائک فلاسفر ایپکٹیٹس (Epictetus) کا ایک قول ہے جسے میرے ذہن اور انا کے لیے سمجھنا اور قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اختتام اسی پر کروں گی:
“کیا آپ قدرتی طور پر ایک ‘اچھے والد’ کے حقدار ہیں؟
نہیں! آپ صرف ‘والد’ کے حقدار ہیں۔” (ایپکٹیٹس)
Nida Ishaque