fbpx
شخصیت و فن

مرے شمس وقمر تو دیکھو/ نصرت نسیم

عالمی شہرت یافتہ مصور، خطاط محترم لیاقت علی خان سے ملاقات ہوئی۔تو ان کی زرہ نوازی کہ ان کے سنہرے ہاتھ سے کتاب” سنہرے ہاتھ "کا بیش قیمت تحفہ وصول کیا۔اس مادہ پرست اور بے بضاعت دور میں "سنہرے ہاتھ "محبت اور خلوص کی ایک ایسی مہک لئے ہوئے ہے۔جو نہ صرف سنہرے ہاتھ بلکہ سنہرے دلوں پر دلالت کرتی ہے۔شجاعت علی راہی صاحب کا اپنا شعر ہے۔

149 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میں نے جلد ہی پڑھ ڈالی۔اور اس پر تبصرہ لکھنے کا ارادہ کیا تو دانتوں پسینہ آگیا۔اس مختصر سی کتاب کا طرز نگارش، تشبیہات، محاکات، مترنم الفاظ، مصوری کی تاریخ اوراسرار ورموز اور محبت وخلوص کے شفاف پاکیزہ جھرنے ،میں کس کس کو بیان کروں۔میں کوئی باقاعدہ نقاد یا تبصرہ نگار نہیں۔مگر خلوص سے دی گئ اس کتاب کی ایک ایک سطر کو بغور اور محبت سے پڑھا ہے۔اور اس پر لکھنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہوں کیونکہ یہ کتاب بیک وقت میرے شہر کوہاٹ کے دوبڑے عظیم انسانوں کے فن کی گواہ ہے۔


مصنف شجاعت علی راہی صاحب علمی وادبی دنیا کا ایک اہم نام اوربےشمار کتابوں کے خالق ہیں ۔شاعر، ماہر تعلیم اور ادب اطفال پر ان کے گراں قدر کام کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔کہ ایک بلند پایہ ادیب اور شاعر بچوں کے لیے کیسے آسان زبان وبیان میں نصیحت آموز کتابیں تخلیق کر رہے ہیں۔ادب اطفال پر ان کا کام بلا شبہ قابل تحسین وقابل ستائش ہے۔اپنی سوانح حیات” بلیک باکس "کے نام سے تحریر کر چکے ہیں۔جو ان کی جہد مسلسل، علم و ادب سے محبت، با اصول اور کھرے انسان ہونے کی عکاس ہے۔
زیر تبصرہ کتاب "سنہرے ہاتھ "دل نشیں ودلربا نثر، دل آویز اسلوب اور پیار کے خالص جذبے سے گندھی تحریر کی وجہ سے اباسین ادبی ایوارڈ پاچکی ہے۔
"سنہرے ہاتھ "میں شجاعت علی راہی نے ان کے فن مصوری، خطاطی اور دیار غیر میں ان کی پذیرائی کوبیان کیا ہے۔مصور لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے اور پشاور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فائن آرٹس سے کمرشل آرٹس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔آغاز میں انہوں نے فلموں کے اشتہار اور اداکاروں کے قد آدم پورٹریٹ بنائے۔اور شبانہ روز دیوانہ وار کام کیا۔جس نے آگے جاکر انہیں ایک منفرد مصور کی حثیت سے شہرت بخشی۔
30 برس بلدیہ ابوظہبی کے ساتھ وابستہ رہے۔جہاں ان کے فن کو جلا اور کام کرنے کے سنہری مواقع ہاتھ آئے۔انہوں نے  1999 میں صدر شیخ زاید بن سلطان النہیان کی 512 سکوئر میٹر تصویر بنا کر عالمی شہرت پائی۔شیخ زاید بن سلطان النہیان نے انہیں اپنے محل میں ملاقات کے لئے 20 منٹ کاوقت دیا۔مگر وہ اس مرد درویش کے استغنا اور باتوں سے اتنے متاثر اور خوش ہوئے۔کہ ملاقات دوگھنٹے جاری رہی۔ان کے اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے یہاں آکر کیا سیکھا۔لیاقت علی خان نے جواب دیا۔کہ محنت اور رزق حلال کمانے کا درس سیکھا ہے۔شیخ زاید بن سلطان النہیان کو ان کاکچھ نہ مانگنا اور خودداری پسند آئی۔اور انہوں نے اپنے بیٹے منصور سے کہا کہ اس شخص پر کبھی اپنے گھر کے دروازے بند مت کرنا۔

مصور لیاقت علی خان کے فن پر مقامی اخبارات کے علاوہ سعودی اخبار اورسی این این نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔اور انہیں” سنہرے ہاتھ "سے موسوم کیا۔سنہرے ہاتھ والے مصور یہ نام ان کے نام کا حصہ بن گیا۔لیاقت علی خان کو برق رفتاری سے کام کرتے دیکھ کر ایک جرمن آرٹسٹ حیران رہ گیا۔اوربولا کہ میں نے اتنی برق رفتاری سے کام کرنے والا آرٹسٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔مصور اعظم نے مسکرا کر جواب دیا۔آپ نے میری پختہ سالی کے دور کا کام دیکھا ہے۔عہد جوانی کا کام نہیں دیکھا۔محترم شجاعت علی راہی صاحب نے بہت محبت سے لیاقت علی خان کے سنہرے ہاتھ کے شاہکاروں کاتذکرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔کہ میورل بنانے کا جوملکہ صادقین کو حاصل تھا۔وہ لیاقت علی خان کو بھی حاصل ہے۔ایسے فنکار سے ایسا کام لینا چاہیے۔جیسا مائیکل اینجلو اور صادقین سے لیا گیا۔
یہ الفاظ مصنف نے یونہی نہیں لکھ دیئے۔وہ مصوری اور اس کے رموز ونکات کو سمجھتے ہیں۔

1973 میں جب ٹی وی کے پروڈیوسر بنے تو صادقین سے ملاقات رہی۔اور ان کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔بقول مصنف انہیں صادقین کی ٹیڑھی میڑھی انگلیوں(کام کر کر کے) اور ان کی دلربا شخصیت سے پیار ہوگیا تھا۔بحیثیت پروڈیوسر ان کے کئ مصوروں، خطاطوں اور ڈیزائنر کے ساتھ روابط رہے۔نیشنل کالج آف آرٹس کے اساتذہ سے گاہے گاہے ملاقاتیں رہیں۔

اس کتاب میں "پاکستان کے مصور طائرانہ جائزہ "یہ باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔زبان وبیان کی خوبیوں کے علاوہ مغل حکمرانوں، عبدالرحمن چغتائی کے دور سے لے کر عہد حاضر کے مصوروں کے فن اورفن پاروں کا جس علمیت، چابک دستی، فنی مہارت اورخوش اسلوبی سے جائزہ لیا گیا ہے۔وہ مصنف کی فن مصوری اور خطاطی سےگہری وابستگی کا غماز ہے۔اس فن کے اسرار و رموز جتنے دل کش، دلربا اور آسان پیرائے میں بیان کئے ہیں۔یہ انہی کا خاصہ ہے۔لیاقت علی خان صاحب کی پینٹگز اور خطاطی کا بھی مصنف نے جس باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔اور تشریح کی ہے۔یہ دو ابواب بھی خاصے کی چیز ہیں۔

جذبہ حب الوطنی اور قائد اعظم سے عقیدت اور محبت نے مجبور کیا۔ وہ قائد اعظم کی پورٹریٹ بنائیں جو دنیا کی سب سے بڑی پورٹریٹ کہلائی جا سکے ۔اس پورٹریٹ کے لئے 4×4کے 200 ٹکڑوں پر کام شروع کیا۔اپنی نوکری سے آکررات گئے تک اس پر کام کرتے۔یوں سات ماہ کی ان تھک محنت کے بعد پورٹریٹ تیار ہوا ۔

مشرف جب  1999 میں ابوظہبی گئے تو انہوں نے 23 مارچ کو اس کی تنصیب کا حکم جاری کر دیا۔تب انہوں نے  8مارچ 2001 کو یہ پوٹریٹ پاکستان بھجوا دی۔مگر 23 مارچ کو اس لئے نہ لگ سکی کہ صدر مشرف نے کہا  یہ بہت قیمتی تصویر ہے ایک دن کے لیے لگانے اور اتارنے میں خراب ہوجائے گی۔لہذا اس کو مستقل طور پر لگانے کے لئے کنونشن سنٹر کے باہر جگہ منتخب کی گئ۔اس لئے تصویر کو سی ڈی اے کے حوالے کیا گیا۔اس وقت اس تصویر کی مالیت دو کڑوڑ تھی  جو تاحال سرد خانے میں پڑی ہے۔میں جب مصور اعظم سے ملی تو انہوں نے جہاں ساری داستان  جوش وجذبے سے سنائی ۔وہیں ان کے لہجے میں گہرے دکھ کی آمیزش تھی۔یہ کہتے ہوئے کہ جانے سی ڈی اے کے گودام میں پڑے پڑے اب اس کی کیاحالت ہوگئی ہوگی ۔2001 میں لگنے والی تصویر 2021 تک بھی نہیں لگ سکی۔یہ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے۔
محترم شجاعت علی راہی صاحب نے خوبصورت تشبیہات، نادر تراکیب اور نغمگی لئے ہوئےالفاظ میں لیاقت علی خان کے فن اور شخصیت کو بیان کیا ہے۔
ابوظہبی سے مصور اعظم واپس اپنے وطن آئے تو لطف اللہ کاکاخیل جو ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کوہاٹ یونیورسٹی میں ان کی تصویروں کی نمائش کااہتمام کیا۔اور دل کھول کر ان کی تعریف وتوصیف کی۔اور اعلان کیا۔کہ اب اس کو کہیں جانے نہ دینا۔اپنے وطن کی مٹی کا قرض بھی چکائے اور فرزندان کوہاٹ طلبا اور طالبات کو تربیت دے۔یہاں شجاعت علی راہی اور مصور کے درمیان رشتہ ءمودت اورمحبت استوار ہوا۔راہی صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
میں نے اس بے پناہ محبت کرنے والے انسان سے بہت کچھ سیکھا۔پہلے جب میں یونیورسٹی میں داخل ہوتا تو سیکورٹی والوں پر ایک چھیچھلتی ہوئی نظر ڈال کر اپنے آفس کی جانب بگٹٹ بھاگتا۔مگر چند بارجب لیاقت علی خان کے ہمراہ داخل ہونے کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ کروفر والے بادشاہوں، وزیراعظموں اور عظیم ہستیوں سے ملنے اور ان کی محبتیں سمیٹنے والا یہ بالا قد شخص سیکورٹی والوں کے پاس رک کر مسکراہٹوں کی ایک بوچھاڑ کر دیتا ہے۔لیاقت علی خان کے اس شیتل روپ نے مجھ میں بھی کسی حد تک یہ تبدیلی پیدا کردی۔کہ گیٹ پر کھڑے لوگوں سے مصافحہ کرکے ہی اندر کا رخ کرتا ہوں۔
مصنف ایک اور جگہ اس بالا قد شخصیت کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔میرے دل میں شاید یہ صلاحیت نہیں کہ ہر شخص کی داخلی وخارجی خوبصورتی کا اثر قبول کر سکے۔پھر بھی چند لوگوں نے بڑا متاثر کیا۔مثلا”ایک احمد ندیم قاسمی مرحوم، سجاد بابر اور ایک لیاقت علی خان۔
ان کی جو بھی بات ہے۔قند ہے نبات ہے۔
لگتا ہے۔ہم نے زندگی میں کچھ اچھے کام بھی کئے ہوں گے۔جس کاصلہ لیاقت علی خان جیسی شخصیت کی رفاقت کی صورت میں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئ۔

 ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
"لیاقت علی خان انٹلکچول نہیں۔لیکن ان کی شخصیت کا ایک اپنا رس ہے۔ایک شیتل روپ ہے۔ان کی ایک شیریں مسکراہٹ سے محفل روشن ہوجاتی ہے۔ان کے اندر سے شیرینی، محبت اور انسانیت کی خوشبو مسلسل پھوٹتی رہتی ہے۔”
"لیاقت علی خان کی تصویر دیکھنا گویا اپنے ذوق نظر کی تربیت کرنا ہے۔
سنہرے ہاتھوں والا یہ فنکار آبشار نیاگرا جیسے بلند مصور وخطاط ہے۔انہوں نے ریاضت کی دہکتی کٹھالی سے گزر کر نقاشی کی ہے۔اور کوہ بے ستوں کاٹ کر مصوری کی رسیلی نہر جاری کی ہے۔”
لیاقت علی خان کے فن کو اندرون ملک اور بیرون ملک سراہا گیا۔ان کے فن پاروں کی نمائش جگہ جگہ ہوئی اور داد وتحسین سمیٹی۔ان کا دفتر انعامی شیلڈز اور اعزازات سے بھرا پڑا ہے۔مگر میں سمجھتی ہوں۔کہ محترم شجاعت علی راہی صاحب نے ان کے فن اور بالا قد شخصیت کو اجاگر کیا ہے۔وہ لازوال ہے۔کہ لکھے ہوئے لفظ میں بڑی طاقت ہے۔وہ زندہ رہتے ہیں۔رستم کیانی اور احمد فراز کے اس شہر کوہاٹ کے دو نامور فرزندان "سنہرے ہاتھ "میں زندہ وتابندہ رہیں گے۔
شجاعت علی راہی صاحب لکھتے ہیں۔کہ اج تک اندرون ملک یابیرون ملک کسی مصور نےاتنی عظیم الجثہ پورٹریٹ نہیں بنائی۔جتنی لیاقت علی خان نے اپنے عظیم قائد کی بنائی ہے۔آٹھ ہزار مربع فٹ اس پورٹریٹ نے اس منفرد اور باہمت مصور کا قد کاٹھ بڑھایا ہے۔اور انہوں نے فن مصوری میں اپنانام پکی روشنائی سے لکھوالیا ہے۔
یہ سب پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں۔کہ یہ لیاقت علی خان کی خوش قسمتی ہے۔کہ ان کے سنہرے ہاتھ کی تعریف وتوصیف کے لئے ایک کھرے اور سونے کے دل جیسا انسان میسر آیا۔جس نے اپنے قلم کو محبت وخلوص کی شیرینی اور پیار کی روشنائی میں ڈبو کر لیاقت علی خان کا منفرد پورٹریٹ بناڈالا۔ایک ایسا خاکہ جس کے مدھر، مترنم اور دلربا الفاظ جگمگ جگمگ کرتے رہیں۔گے۔۔
میں ہوں کوہاٹ، مرے شمس وقمر تو دیکھو
مرے خدا مجھے لمحے نہ دے زمانے دے

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے