رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اس امت پر اللہ تعالٰی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک احسان یہ بھی ہے، کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمت مُحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں درجہِ شہادت پر صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ دیگر کو بھی اِس درجہ پر فائز فرمایا گیا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِی
تُم لوگ اپنے مرنے والوں میں سے کِسے شہید سمجھتے ہو؟ قالوا یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیلٌ
اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے صحابہ نے عرض کِیا؛ فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟
اے اللہ کے رسول تو پھر شہید اور کون ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا.
(1) جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے.
(2) جو اللہ کی راہ میں ( نکلا اور معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا ) اور مر گیا وہ بھی شہید ہے.
(3) جو طاعون(کی بیماری )سے مرگیا وہ بھی شہید ہے۔
(4) جو پیٹ (کی بیماری ) سے مر گیا وہ بھی شہید ہے۔
(5) وَالْغَرِیق ُ شَہِیدٌ (ڈوب کر مرنے والا) بھی شہید ہے
(صحیح مُسلم / کتاب الامارۃ /باب 51 بیان الشُّھداء)
امام ابن حَجر العسقلانی نے المطعون کے بہت سے معنی مختلف عُلماء کی شرح کے حوالے سے ذِکر کیے ہیں، جِس کا خلاصہ یہ ہے کہ المطعون طاعون کے مریض کو بھی کہا جا سکتا ہے، کِسی تیز دھار آلے سے زخمی ہونے والے اور جِنّات کے حملے سے اندرونی طور پر زخمی ہونے والے کو بھی کہا جا سکتا ہے۔
(فتح الباری / کتاب الطب / با ب مایذکر فی الطاعون)
راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کی عیادت (بیمار پُرسی) کے لیے تشریف لائے تو فرمایا
اَتَعلَمُونَ مَن الشَّھِیدُ مِن اُمتِی
کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ میری اُمت کے شہید کون کون ہیں؟ عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسول (اللہ کی راہ میں مصیبت پر) صبر کرنے اور اجر و ثواب کا یقین رکھنے والا۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا؛اِس طرح تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے
(1) اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے۔
(2) مرض طاعون (کی موت ) شہادت ہے۔
(3) ڈوبنا (یعنی پانی میں ڈوبنے سے موت واقع ہونا شہادت ہے۔
(4) پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے۔
(5) ولادت کے وقت یا نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کو اُس کی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مر گئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ کر لے جائے گی۔
(6) جلنے کی وجہ سے موت ہونا۔
(7) سل کی بیماری کی وجہ سے موت ہونا شہادت ہے۔ (سل کی بھی مختلف شرح ملتی ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ سل پھیپھڑوں کی بیماری ہے)
( مُسند احمد / حدیث راشد بن حبیش، مُسند الطیالیسی، حدیث 582 )
حضرت عبد اللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ
جِسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے۔ اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا؛وہ بھی شہید ہے اور جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا؛وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہو وہ بھی شہید ہے
(سنن النسائی،حدیث 4106 صحیح البخاری حدیث 2348 صحیح مُسلم حدیث 141)
اس وقت پاکستان پر جو مشکل حالات ہیں اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اسے حل فرمائیں، چاروں صوبوں میں جو سیلابی آفت ہے، باشندگان پاکستان کی حفاظت فرمائیں۔ اور شہداء کو بلند مراتب پر فائز فرمائے۔ آمین یا رب العالمین