کسی واقعے پر فوری تخلیقی رد عمل ادیب کی حساسیت کا غماز ہوتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ادیب برسوں بعد کسی واقعے کے بارے میں لکھے ۔ ہم ادیب کو مجبور نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ خارجی سطح پر ہونے والے تغیرات کو احاطہء تحریر میں لائے ۔ کبھی کبھی وہ صرف داخلی سطح پر نبرد آزما رہتا ہے اور خارج سے مکالمے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے ۔ یہ بھی خارج ازامکان نہیں ہے کہ صرف ہوا کا ایک جھونکا تخلیقی عمل کو مہمیز لگانے کا سبب بن جائے اور پہاڑ ٹوٹنے پر بھی لکھنے کے لیے آمادہ نہ ہو ۔ ہم ہرگز حق بجانب نہیں ہیں کہ وہ ہمارے طرز فکر ، پسندیدہ موضوع اور رد عمل سے مطابقت پیدا کرے ۔
بعض واقعات وسیع پیمانے پر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور ادباء کی بڑی تعداد تادیر ایسے واقعات پر خامہ فرسائی کرتی رہتی ہے۔ مثلاً بنگال کا قحط ، جلیانوالہ باغ کا سانحہ ، دوسری جنگ عظیم ، تقسیم ہندوستان اور ناءن الیون کے واقعات پر دنیا بھر بہت کچھ میں لکھا گیا ہے ۔ ان واقعات پر مختلف سطحوں پر مزید لکھا جاتا رہے گا کیوں کہ ان واقعات نے ہماری زندگیوں کو بے حد متاثر کیا ہے ۔
گزشتہ دو برسوں میں کووڈ نے دنیا بھر کے لٹریچر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اگرچہ رفتہ رفتہ یہ المیہ ذہن سے محو ہو رہا ہے اس کے باوجود گمان یہی ہے کہ اس پر مزید کئی دہائیوں تک لکھا جاتا رہے گا ۔ کسی کو اپنے عہد کے عظیم تغیرات سے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر کسی ادیب کی تخلیقات میں اپنے عہد کے بڑے واقعات کی عکاسی موجود نہیں ہے تو یہ کسی المیے سے کم نہیں ہے ۔ محققین کسی کو اس کے عہد سے منہا کر کے نہیں دیکھتے ہیں البتہ تخلیق سے ادیب منہا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بے توجہی غیر معمولی قرار دی جا سکتی ہے ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں انسانوں کی موت ادیب کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ بعض نقادوں کا موقف ہے کہ ہم ادیب کو کسی موضوع پر لکھنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے ہیں ۔ درست بات ہے مگر ادیب اپنے اردگرد ہونے والے تبدیلیاں دیکھنے سے قاصر کیوں ہے ؟ ادیب کے تعصبات بھی ہو سکتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کا عہد تقاضا کرتا ہے کہ اسے فراموش نہ کیا جائے ورنہ آئندہ عہد ادیب کو فراموش کر دے گا ۔ سماجی شعور کے بغیر بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ادیب سماج سے کٹ کر خیالی دنیا آباد کرنا چاہتا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔ اگر ادیب کا موضوع اور کردار اپنے عہد کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں تو وہ کہاں کھڑا ہے؟ اگر چہ ادیب کی ساری دانائی گزشتہ ادوار کی مرہون منت ہوتی ہے لیکن تخلیق میں اپنے عہد کو فراموش کرنے کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا ہے ۔
نئے ادباء کی تخلیقات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ اس دائرے کو توڑنا از حد ضروری ہے ورنہ امکانات معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ جب ذاتی غم کسی اجتماعی غم میں ڈھلتا ہے تو ادیب اپنی سطح سے بلند ہو کر سوچتا ہے ۔ یوں اس کی تخلیقات میں اپنے عہد کا عکس جھلکنے لگتا ہے ۔ ادب ہر نئے ادیب سے یہی تقاضا کرتا ہے ۔ادب مختلف ادوار کی ثقافتی ، مذہبی اور سماجی زندگی کا پرتو ہوتا ہے۔ کہیں کہیں سیاسی رجحانات بھی ملتے ہیں۔ یوں ہمارے سامنے کسی عہد کی تصویر بن جاتی ہے۔ تاریخ اپنی جگہ مقدم قرار دی جا سکتی ہے لیکن ادبی پیرایہء اظہار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ ماضی کے کئی ادوار بادشاہوں کے بجائے ادبا و شعرا سے منسوب ہیں ۔ یوں ہم کسی زمانے کو دیکھتے ہوئے نمائندہ ادبا کا حوالہ دیتے ہیں ۔ یہاں شیکسپیئر ، موپاساں ، چیخوف ، ٹالسٹائی ، میکسم گورکی ، میر ، غالب اور اقبال سمیت عظیم ادبا کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
جب کوئی عہد ادیب سے منسوب ہو جاتا ہے تو ادیب کی تخلیقات کے ذریعے اس عہد کے جائزے میں مدد ملتی ہے ۔ اس دوران میں ہونے والے عمومی اور خصوصی حالات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ نمائندہ ادیب غیر معمولی تخلیقی جوہر سے ادب کو تاریخ کا حصہ بنا دیتا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ مختلف ادوار میں نمائندہ ادبا کے ہاں اپنے عہد کی عکاسی ملتی ہے ۔ اردو ادب کے نو آبادیاتی دور میں بڑے اور قد آور ادبا کے درمیان اقبال سب سے زیادہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ دور سیاسی کشمکش سے عبارت ہے۔ اسی سیاست کے آئینے میں دیگر پہلوؤں کا عکس بھی ملتا ہے ۔ یہاں اقدار کا تحفظ ، مذہب کا احیا اور تعلیمی اصلاحات سمیت دیگر کئی پہلو قابل ذکر ہیں ۔ ملک آزاد ہو گیا اور آزاد ملک کو معاشی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی مسائل نے گھیر لیا ۔ آزادی کی اولین دہائی میں ان مسائل کی گونج دیر تک سنائی دیتی رہی ۔ اس عہد کے نمایاں اور نمائندہ ادیب فیض احمد فیض قرار دیے جا سکتے ہیں ۔ اگرچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے انھیں” انجماد کی ایک مثال” قرار دیا ہے پھر بھی عوام و خواص کے حلقوں میں فیض کی آواز توجہ سے سنی جاتی رہی ہے ۔ یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دوسرے شعرا ملکی معاملات سے لا تعلق تھے ۔ اپنی اپنی سطح پر دیگر ادبا کے ہاں تاریخ کے شواہد موجود ہیں ۔ یہاں صرف نمائندہ ادیب کا ذکر مقصود ہے ۔ فیض کی وفات اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے بعد نمائندہ ادیب دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ایسا نمائندہ ادیب جس کے بارے میں ڈیگال نے کہا تھا ” سارتر تو فرانس ہے ، کیا میں پورے فرانس کو گرفتار کر لوں” معیار کی اس سطح پر اردو ادیب کا پورا اترنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کیا گزشتہ تین چار دہائیوں میں کوئی ایسا ادیب دکھائی دیتا ہے جس سے اشرافیہ ، حکومت اور مقتدر حلقے خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ ادب کا عظیم مقصد فراموش کر دیا گیا ہے ۔ سیاسی انتشار ، معاشی تباہی ، غیر معمولی کرپشن ، غربت کی شرح میں اضافہ ، اخلاقی زوال اور سماجی پسماندگی سمیت دیگر عوامل کے باوجود نمائندہ ادیب منظر نامے پر کیوں نہیں ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا ادیب جزوقتی شہرت ، سطحی مفاد اور معمولی اعزازیے پر قناعت کر چکا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک صدی میں ایک ہی نمائندہ ادیب ہوتا ہے ۔ دو دہائیوں بعد سوچنا چاہیے کہ کیا یہ صدی بانجھ رہے گی اور اسے کوئی نمایندہ ادیب میسر نہیں آئے گا ؟ موجودہ ادبا کی بڑی تعداد پسندیدہ سیاسی جماعت کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ ادیب خیر کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ ابتدا میں وہ کسی ازم، عقیدے یا نظریے سے متاثر ہوتا ہےاور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی سیاسی پلیٹ فارم سے منسلک بھی ہو سکتا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ گروہ ، جماعت اور پارٹی سے الگ ہو جاتا ہے ۔ وہ استحصال کا شکار لوگوں کی آواز بن جاتا ہے اور اس باب میں وہ مفادات سے بالاتر ہو کر سوچتا ہے ۔ اُردو ادب اس صدی کے نمائندہ ادیب کی جستجو میں ہے ۔
شاہد اشرف