جب "میرے بھی صنم خانے” چھپا تو ایک دھماکہ ہوا ۔ یہ ناول روایتی ڈکشن سے ایک طرح کا انحراف تھا ۔اس میں روایتی اردو، علاقائی محاورہ کے علاؤہ کانوینٹ کا اردو_انگریزی تڑکا بھی تھا جس کے نتیجے میں کرشن چندر نےقرۃ العین حیدر کو "پوم پوم ڈارلنگ” کہا۔ اس آغاز کے بعد قرۃالعین حیدر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
قرۃالعین حیدر کے فکشن کی پر تاثیر ہونے میں اس کی زبان کے ساتھ مختلف علوم پر اس کی دسترس بھی شامل ہے۔ وہ ایک گرتی ہوئی تہذیب کا نمائندہ تھی اور اور اس کے ہاں اس تہذیب کا المیہ جا بجا بکھرا ہوا ہے ۔ قرۃالعین حیدر نے جس طرح فکشن کو ایک وسعت دی وہیں اس نے اسے ایک خاص طبقے تک محدود رکھا ؛ بعض اوقات محسوس ہوتا کہ وہ اس کی نمائندگی کر رہی ہے جب کہ فکشن نگار طبقاتی اور جینڈر کے complexes سے کہیں بلند مقام پر فائض ہوتا ہے ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس کا تخلیقی سفر صرف انہی الجھنوں تک محدود تھا ۔ اس نے اردو فکشن کو ایک نئی سمت دی جس پر آج بھی لکھاری طبع آزمائی کر رہے ہیں ۔ جو اس نے لکھا وہ کسی بھی طرح غیر معیاری نہیں تھا لیکن اس میں ہمیں ایک عام آدمی کے مسائل کم نظر آتے ہیں: بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان سے بالاتر تھی یا انھیں سمجھ نہیں پائی ۔ ادب ہمیشہ ہر طبقے اور جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے ۔
قرۃالعین حیدر کو تاریخ سے خصوصی دلچسپی تھی ۔ فکشن اور تاریخ الگ نہیں کیے جا سکتے ۔ مورخ ہمیشہ ریاست اور اشرافیہ کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ اصل مورخ فکشن نگار ہوتا ہے جو مخصوص دور کے تاریخی ، سماجی ، سیاسی اور معاشی حالات صحیح تناظر میں اپنے قاری کے سامنے پیش کرتا ہے ؛ ان میں کہیں بھی تعصب یا جانب داری نہیں ہوتی۔ قرۃالعین حیدر نے دیگر موضوعات کے علاوہ تاریخ کو اپنا موضوع بنایا ۔ اس نے فکشن میں تاریخ لکھی نہ کہ چند معروف مقبول عام فکشن نگاروں کی طرح تاریخ میں فکشن لکھا ۔ فکشن میں تاریخ لکھنے کے لیے تخلیقی ہنر وری کے ساتھ اس دور کی تاریخ پر عبور بھی چاہیے جو قرۃالعین حیدر کو حاصل تھا ۔
وہ ایک روشن خیال شخصیت ہونے کے ساتھ کسی حد تک ماضی پرست بھی تھی ۔ ماضی پرست ہوئے میں کوئی عیب ہر گز نہیں ہے لیکن کیا فکشن کی بنیاد ماضی پرستی پر ہی یونی چاہیے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر سوچا جانا چاہیے ۔ قرۃالعین حیدر کے فکشن میں جہاں ماضی پرستی ہے وہ وہاں اپنے حال سے اتنی مطمئن محسوس نہیں ہوتی اور حال سے غیر مطمئن ہونا ہی مستقبل کی طرف پیش قدمی ہے۔ وہ مستقبل پر ضرور نظر رکھے ہوئے ہے لیکن ماضی کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ۔