شاعری کے صنفی مطالعات بتاتے ہیں۔ کہ عورت کی نفسیاتی تشکیل میں لطیف کیفیت کو سمجھنے کی بے پنہ صلاحیت ہے۔ جو اسے ذات اور ورائے ذات مکالمہ میں آسانی دیتی ہے۔
یہ وجہ ہے کہ نسائی آرٹ فن اور شاعری لطافت جمالیات اور آہنگ میں محبت، امن اور خدا کی تقویم اور یوں تسلیم و رضا کی صف میں دکھائی دیتی ہے۔اسی نفسیاتی تناظر میں مدیحہ مغل کے شعری مزاج کو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ مدیحہ مغل تشکیک کی نہیں یقین کی شاعرہ ہیں۔ مدیحہ کے ہاں تصور خدا اسی یقین کے ساتھ تخلیق اور پھر زندگی میں ڈھلتا ہے۔ جس نے خدا کو صرف محبت کے روپ میں محسوس کیا وہی یوں کہہ سکتا ہے۔
،کیا تو صرف ان کو پکارے گا /جو عبادت میں کثرت کر گئے/ ایک کم متقی/ مگر زیادہ مطمئن کو/ کیوں نہیں؟/
میں خالی دامن /کچھ بھی تو نہیں رکھتی/ نہ شبوں کا گداز/نہ سحر خیزی کا اہتمام /بس اک سلیقہ ہے جو تیری ہی عطا ہے/میں نے تو عمر بھر اس یقین کی پرورش کی ہے کہ/مجھے بھی نفس مطمئنہ والوں میں بلایا جائے گا
میری جھولی میں محبت کے آبدار موتی ہیں/تو نے مجھ کمزور کو محبت کرنا سکھایا اور توانا کیا/میں وہ روح ہوں/جس نے میسر کو عطا اور فراواں جانا/اور اس کفایت پہ شکر کا پانی چھڑکا/
میرے خدا/میرے دل کی دھڑکنوں سے اٹھتی چیخوں کے واحد سامع/میرے دل میں تجھ سے زیادہ تو کسی کی/چاہت بھی نہیں ہے/اس کی بھی نہیں جو تیرے عطا کیئے زمانوں/میں مسندِ محبت پہ بیٹھا ہے
ان کی نظموں میں محبت کی ترجیحات تلاش کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ محبت ان کے ہاں امید برکت ہمت حوصلے اور توازن کا نام ہے۔ محبت ان کی تمنا کی قوت اور زندگی کا توشہء خاص ہے۔جو رہنما بھی ہے اور ہم زاد بھی۔ان کا شعری کلچر ترجیحات کی درستگی کے ساتھ ایک روشن شاہراہ ہے۔ صوفیانہ جذبہ اور خدا کی سمت سمٹتی محبت کبھی بوجھل نہیں کرتی۔ اس لیے کہ ایسی محبت لاشریک نسبت کی کسوٹی پر رہتی ہے۔ یوں اضافی پر کتر دیئے جاتے ہیں۔ خدا مدیحہ کے ہاں خوف نہیں مونس و غمخوار ہے.ان کی بہت سی نظمیں خدا سے مکالمہ ہیں ۔اس نسبت سے مدیحہ کی شاعری خدا، خود اور محب کے درمیاں گردش اور توازن کا سفر ہے۔شاعری میں صنفی تقسیم اضافی ہے۔درد دکھن چبھن تو ایک ہے۔ آنسو اور محبت ایک ہی چشمے سے پھوٹتے ہیں، یہی وجہ ہے مدیحہ کی تخلیقی پٹاری میں ہمیں صنفی کیفیات نسائیت کی نمائندگی کے ساتھ انسانی دکھوں اور عصری المیوں پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔
فرات سے دمشق تک ، لاریب ، حجر سیاہ ، خواب کا لمس ،محبت کا پرند، جب میں پکاری جاوں، وما تشاؤن ، کرم نوازی ، عورت ہوں یا حیرت ہوں، خواب زاد روحیں، صحرا ہوتا سمندر، تمہیں اگر فرصت ملے، چکنی مٹی،منم آں قطرہ ء شبنم ، یہ عنوان ہیں ، جو مدیحہ مغل کی شعری کائنات کے تنوع، فکری ثروت مندی اور زندگی کو الگ اور منفرد انداز سے دیکھنے سہنے اور گزارنے کی علامت ہیں، اس موضوعاتی تنوع کے ہوتے ہوئے محبت اور درد اس تخلیق کار کے تخلیقی سفر کا محور اور کل اثاثہ ہے۔ جو انسان کی تکریم جذبوں کی تہذیب اور محبت کی تعظیم کر تا چلا جاتا ہے۔مدیحہ کا اسلوب نثری ہے۔جہاں وہ حرفوں میں معنی پروتی کئی سمتوں اور معنوں کی روشنی ابھارتی چلی جاتی ہیں۔
ایک تخلیق کار تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے ایک خاص بہاؤ اور دھارے کے ساتھ رہتا ہے۔ یہ اس کی چوائس نہیں ہوتی یہ تخلیق کے مزاج کے ساتھ بندھا ہونے کی غیر اختیاری حالت ہے۔ روایتی اصناف کے برعکس نثری نظم میں یہ بہاؤ اپنے کمال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی قطرہ کبھی دریا کبھی سمندر کہیں دھند کہیں کہکشاں کہیں اندھی سرنگ کی سی کیفیت ۔شعور کی رو کے ساتھ یہ سفر صرف نثری نظم میں ممکن ہے۔ مدیحہ کی نظم سایہ اس کی بہترین مثال ہے۔
رخش عمر راکب سے بے خبر ،سرپٹ دوڑ رہا ہے۔راکب اور رخش کی اپنی دنیا لیکن منزلیں مشترک۔ اس کیفیت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے طلب کی شدت آتما کا ریزہ ریزہ ہونا،
لیکن طلب اور یقین کے روشن ہالہ نے دروازوں کو وااہ اور اپنے سائے کو برگد بنادیا ہے۔یہ برگد خود اس کی طلب اور یقین ہے جس کے سائے میں بیٹھنا اور ٹیک لگانا میسر ہے۔ سفر نروان کا ہے۔ مسافر کے ساتھ تو رخش بھی نہیں کہ۔ اس نے صرف اپنے راکب کو اٹھائے گردش میں رہنا ہے ۔ راکب تلاش کے اس سفر میں اپنی دنیا اور اپنا جہاں تشکیل کر رہا ہے ۔جہاں تجسیم کے امکان بڑھتے ہی عشق کے چراغ جلنے لگتے ہیں۔اور اعلان ہوتا ہے ۔عشق اپنا جہان نو پیدا کر رہا ہے،عشق بارآور ہو رہا ہے،
رخشِ عمر راکب سے بے نیاز ہے/سر پٹ دوڑ رہا ہے /راکب اپنے خیالوں میں گم ہے /ایک لگن ہے جو پسپا نہیں ہونے دیتی /ریزہ ریز ہوتی آتما/کسی معجزے کی منتظر ہے /طلب شدت اختیار کرتی ہے /تو بند دروازے کھلنے لگتے ہیں
یقین کا روشن ہالہ بکھرے ہوئے وجود کی /شیرازہ بندی کرنے لگتا ہے/سایوں کی تلاش میں بھٹکتا مسافر/اپنے روبرو آتا ہے /تو اسے اپنا سایہ برگد کے سایے جیسا لگتا ہے /وہ اس برگد کے تنے سے ٹیک لگا کر /نروان حاصل کرنے کی آرزو پالنے لگتا ہے/مسافر یہ تو نہیں جانتا کہ اسے نروان حاصل ہوا ہے یا نہیں /مگر اتنا ضرور جانتا ہے /کہ اسے اپنے سائے سے عشق ہو گیا ہے /تجسیم کے امکانات لو دینے لگے ہیں/سپردگی حدیں مٹانے لگی ہے /خلا بھرنے لگا ہے /عشق بار آور ہو رہا ہے
مدیحہ مغل کی نظموں میں تہذیبی شعور اور نسائی ادراک تاریخ اور سماج میں اجنبی بن کر نہیں بل کہ سماجی دھارے کا نباض دکھائی دیتا ہے۔غگ روایتیں، فرات سے دمشق تک تہذیبی شعور کی نمائندہ نظمیں ہیں۔
مدیحہ کی نظموں میں اس کی ذات اور اس کی صنف گہرے ادراک کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اپنے غموں کو شانے پہ اٹھائے نہ قدرت سے گلہ گزار ہے نہ زمانے سے بل کہ زمانے بھر کے دکھوں کو اپنا غم جان کر تخلیقی عمل سے وابستہ ہے۔یہ نظمیں اکثر بلاعنوان ہوتی ہیں۔لیکن جو چند نظموں عنوان کے ساتھ ملتی ہیں ان میں واصفا اور من تو شدم،
الگ سے مزاج کے ساتھ ٹائم لائن پہ ہیں۔ من تو شدم، ایک کہانی کے کئی باب اور پرت کھولتی نظم ہے۔ نظم کے مطالعہ کے دوران قاری فکر کی طویل شاہراہ پہ بہت دور تک بہت سے مناظر دیکھتا چلا جاتا ہے۔
نظم میں بہت سے چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ جن میں ایک چہرہ سیمی درانی کا بھی تھا۔ میری طرح بہت سے حساس دل اس شاعرہ کی مرگ ناگہآں پہ تڑپے میڈیا اور اس کے ورثا کے ساتھ قانون کی خاموشی پہ رنجیدہ خاطر بھی ہوئے یوں بہت سے شاعروں نے اس پہ لکھا۔۔ یقینا مدیحہ بھی اس رنج سے گزری ہیں۔ یہ نظم عنوان میں تو ذات کا دکھ لگتی ہے ۔لیکن انسان کے دکھ تنہا کب ہؤتے ہیں۔ ہر دکھ کسی دوسرے دکھ کا پیش خیمہ ہے۔ یوں انسان اپنے دکھوں کی پوٹلی میں زمانے بھر کے دکھ اپنے شانوں پر لادے پھرتا ہے۔
من تو شدم بھی ایک ایسی ہی تہ دار اور معنویت اور حساسیت سے بھرپور نظم ہے جس کا تناظر ذات و سماج دونوں ہیں۔ یہ کسی شاعر کی نگاہ وفکر کی وسعت اور گہرے احساس کی علامت ہے۔
من تو شدم
میں تمہیں جانتی ہوں /مجھے معلوم ہے/ تم کب سے تنہائی کے نشانے پر ہو /تم اُس کی عادی بن چکی تھی/ تم نے زندگی کو/ موت کے دائرے میں گھومتا دیکھ لیا تھا /تم نے دکھوں کی پوٹلی کھولی / سارے غم /زندگی کی اندھی سرنگ میں/ پھینک دیئے/اس سے پہلے تم نے /دوستی کے دعوؤں کا سارا زہر پی لیا /تمہاری مروت تمہارا مقدر نہ بنی/تم نے بالآخر/اس ریشمی ڈوری کو بھی آگ لگا دی/ جسے سنبھالتے سنبھالتے تم اپنے ہاتھ اور آنکھیں / زخمی کر چکی تھی تم نے امیّد ، خواب اور تعبیر کو /دریچوں سے جھانک کر /پلٹتے دیکھا اور/ دھیرے سے/ اپنی آنکھ میں چھپا /آخری خواب بھی / خلا میں گھومتے چرخ پر لٹکا دیا /خواب کی سسکی / اس اندھے چاک کی سیٹی میں گم ہوگئی/مجھے پتہ ہے/ تم اس سے پہلے ہی /سارے قرض اتار چکی تھی/تم نے آزادی حاصل کر لی /اب تمہیں ٹوٹنے بکھرنے سے ڈر نہیں لگتا/تم نے شانتی کی اجرک پہن لی ہے /مگر کس قیمت پر/کوئی نہیں جانتا/ فقط میں جانتی ہوں کہ/من تن شدم تو جاں شدی قناعت کے بطن میں چھپی طلب مرتی نہیں
یہ ان کی نظم واصفا کی ایک لائن ہے۔واصفا، کی ہر لائن ان کے تخلیقی شعور کی روانی اور بلندی کا اظہار ہے۔
واصفا، محبت کے چاک پر گھومتی ایک خاص کیفیت کی منفرد نظم ہے۔ جس کا عنوان جمالیاتی نفاست اور فکری لطافت کا خوبصورت اظہاریہ ہے۔
واصفا
میری گھٹن کے دنوں کے واحد رازداں
میرے غارت لمحوں میں امیّد کی پہلی کرن
میری پتلیوں پر جمی حیرتوں کو منکشف کرنے والے
میرے واصفا
کمزور لمحوں میں
میرے گمان کو یقین کا راستہ دکھاتے
اپنی ذات کی نفی کرتے
مجھے اثبات کے تخت پر جلوہ افروز کرتے
خواب ساعتوں کی کوری تختی پر
لکھے ایک لفظ سے
میری ہستی کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپی ان کہی کا
سراغ لگاتے
تم تھکتے نہیں ہو
کم میسؔر
یونہی راضی نہیں ہوتے
میں جانتی ہوں
قناعت کے بطن میں چھپی طلب مرتی نہیں
داد رسی کی امید لگائے
دستک کی منتظر رہتی ہے
مکالماتی نظموں میں تکرار ہنر مندی اور سلیقہ کے ساتھ جچتا ہے۔ مدیحہ کی مکالماتی نظمیں نئے دائروں اور نئے بھنور کی بنت میں کچھ ایسے انفراد سے طلوع ہوتی ہیں کہ قاری چونک جاتا ہے سرشاری اور حیرت میں چلا جاتا ہے۔ اپنی ذات اپنے دکھوں اور اپنے واصفا کے محور پر گھومتی اس شاعرہ نے یشودھا پر بھی ایک نظم لکھی۔
حجرِ سیاہ
یشودھا!!!
انتظار کرنا جانتی ہے
تو برگد سے،
نروان لے کے آ
اور
اپنی مسند پہ بیٹھ
دنیا
تیرے طواف
کے لیے بے تاب ہے۔۔۔
اور میں!
حجرِ سیاہ,
تیرے
پھیروں کی منتظر!!!
گوتم کی منتظرہ نے خود کو حجرِ سیاہ کہا۔۔
اور زمانے نے دیکھا گوتم اپنی گپھا سے اٹھا اور آپنی یشودھا کے پاس پہنچا۔ یہ نظم مختصر لیکن تاریخی شعور کے نسائی شعور پہ اطلاق میں بہت بڑی نظم ہے۔ اس تناظر میں،مدیحہ مغل نثری نظموں کی یشودھا ہیں۔ جو اپنے فراق نگر سے باہر جھانکتی ہے۔اور سب کچھ اس پہ منکشف بھی ہوجاتا ہے۔
تخلیقی عمل تہذیبی سانسوں سے قوتِ نمو پاتا ہے۔ کربلا تہذیب کے تخلیقی دھارے کی قوت محرکی ہے۔ جس نے عربی فارسی اور اردو ادب پر ہمہ گیر اثرات مرتب کیئے۔ منقبت نعت قصیدہ مرثیہ یہ اصناف اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ لیکن نثری نظم میں یہ تہذیبی روح ایک الگ انداز سے سانس لیتی ہے۔کربلا کا تمدنی کردار کثیر جہتی ہے
وہاں عون و محمد قاسم سکینہ اور زینب کے کردار ہیں، جو انسانی اور اسلامی تہذیب پر گہرا اثرات چھوڑتے جا رہے ہیں۔سیدہ زینب حسین کے بعد حیسنیت کی اصل نمائندہ اور نسائی مزاحمت کی درخشاں مثال ہیں۔ مدیحہ مغل کی نظم،فرات سے دمشق تک اسی کربلائی تہذیب کی نمائندگی ہے۔
فرات سے دمشق تک
امامِ عالی مقام کےغم میں روتے ہوئے زمانے سن
تو !
زینب کی صدا
اور سکینہ کی بُکا کو کیسے بھول سکتا ہے
زینب اس وقت کی گواہ ہے
جب لمحے گریہ کناں تھے
جب خیموں سے اٹھتا دھواں
سسکیاں بھر رہا تھا
جب خیمے لوٹتے لشکر کی
اڑائی گرد مرثیے کہہ رہی تھی
جب فرات شرمندگی سے منہ چھپا رہا تھا
زینب ان لمحوں میں نسائیت کے کردار کا
دیباچہ لکھ رہی تھیں
نظم، چکنی مٹی، ان کم یاب ادب پاروں میں شامل ہے جو نسائیت کی حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں، صرف نسائی احساس نہیں،نظم ادراک کی بلند سطح پہ ہے جہاں مٹی اپنے کوزہ گر کے لمس کو اپنے ہونے کا جواز کہتی ہے۔ چاک پہ کامل سپردگی،تجسیم ہوتی خواہشوں کے لمس کا حظ،
الماس صورت جگمگانا، بے چہرہ نہ رہنا، آپ اپنا حوالہ بننا۔۔ یہ منزل خود شناسی کی ہے۔ سادہ سی داستاں کس قدر پیچیدہ ہے، چاک پہ گھومتی روح کی جراءت دیکھیئے کہ خلاق ازل کے لمس سے گزرتے ہوئے اپنے ہونے کے ادراک کو یوں قبول کیا کہ اپنے ہونے کا احساس اور اپنی شناخت پہ اصرار کے ساتھ عمر بھر چاک پہ بھی رہنا کہ اپنے خالق و محبوب کے لمس سے جدائی نہ رہے۔
،،مجھے عمر بھر چاک پر رہنا ہے
مجھے اپنے صورت گر کی
انگلیوں کے لمس سے وابستہ رہنا ہے،،
میں چکنی مٹی ہوں
میری ذات میں متشکل ہونے کی خوبی رکھ دی گئی ہے
دھوپ کی تمازت اگر وقتی طور پر میری نمی چرا بھی لے تو
میں اپنی اصل سے دستبردار نہیں ہوتی
مجھے جب جب صورت گر کی نرم انگلیوں نے چھوا ہے
میں نے تجسیم ہوتی خواہشوں کے لمس کا حظ اٹھایا ہے
چاک پر گھومنا مجھے دیار وفا کا طواف کرنے جیسا لگتا ہے
تو خود کو طلب گاری کے سنگھاسن پر
الماس صورت جگمگاتا محسوس کرتی ہوں
مجھے یوں سرفراز ہونا پسند ہے
میں چکنی مٹی ہوں
میں مجسم وفا ہوں
مدیحہ کی مختصر نظمیں اور بعض نظموں کی چند لائنز بھی نئے دریچوں اور نئے امکان کی سیر گاہیں ہیں
اے خالق کون و مکاں !
ہم روحیں ہی نہیں ،
جسم بھی ہیں
ہم اپنی ساری کیفیات کو جھیلتے
اپنی اپنی صلیب اپنے کاندھوں پر اٹھائے
اپنے ہونے کو یقینی بنانےکے لیے
اپنی سانسوں کا رزق اکٹھا کرنے میں لگے ہیں
مالک !
ہم اپنے محبوب لمحوں کے خوابوں کو
اپنی آنکھوں میں مرتے اور بھیگی پلکوں سے پیہم گرتے ہوئے
کب تک دیکھتے رہیں گے
میں اک صحیفہ
کتابِ فطرت
خدا کا تحفہ
آدم زادی کے عنوان سے یہ نظم
آدم زادی ہوں میں ،
بنتِ حوا نہ کہے کوئی
صنفی کینوس میں وسیع تخلیقی عمل سے جڑنا ہے۔۔۔ حوا زادی ایک نسائی حوالہ ہے۔ آدم زادی اس سے ذرا آگے انسانی حوالہ ہے۔۔۔۔
یہ اپنی صنفی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلنا ہے، کہ ایک کمزور صنف سمجھ کر ہم پہ کوئی ترس نہ کھائے ہم انسان ہیں۔ اور اسی حثیت سے اپنے تخلیقی ادراک کے ساتھ آگے بڑھنے کی تمنا اور حوصلہ رکھتے ہیں ، ایک لکھنے والے کا اس احساس سے انسلاک اس کے تخلیقی ارتقاء کی نوید ہے ۔
جدید اور عالمگیریت میں سانس لیتا ادب ہمارے روایتی محاورے کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔ ہمارے نوجوان لکھاری روایتی ادبی منظر نامے کی گھٹن سے یوں ہی نہیں بھاگے، ایک شدید پیچیدہ نفسیاتی کیفیت کا یہ ایک فطری رد عمل ہے۔ مدیحہ مغل اور ان کا معاصر شاعر نظم اور نثری نظم کی سمت یوں ہی نہیں آیا اس کے پیچھے فکر وادراک سے بھی پہلے پیچیدگی اور اضطراب کی یہی لہریں ہیں۔
مدیحہ مغل کی نظمیں نسائی اور سماجی شعور کی نمائندہ اور نفیس جذباتی کیفیات کی عکاس ہیں، محبت وفا ہجر اور فراق کے جذبے ان کے ہاں خاص آہنگ اور لفظیات کے ساتھ موجود ہیں۔ کسی تخلیق کار کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہے کہ اہل علم اس کے تخلیقی کام کو اس کے متن میں جھانک کر زیر بحث لائیں۔۔۔ ان کی ٹائم لائن پہ ادب سے وابستہ معتبر شخصیات شاعر اور ادیب مدیحہ مغل کی نظموں پہ رائے دے کر ان کے تخلیقی کام کی توثیق کر چکے ہیں۔
مدیحہ مغل ادب گاہ میں اپنی تازہ کاری اور توانا آہنگ کے ساتھ خود کو منوا رہی ہیں۔۔اس کے شعر و فن اور زندگی کے لیے بہت سی دعائیں۔