ارشد معراج کو میں تب سے جانتی ہوں جب سے میں نے حلقہ ارباب غالب اور حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس اٹینڈ کرنا شروع کیےتھے حلقہ ارباب ذوق میں چند لڑکوں کا گروپ ادبی طور پر بہت کمٹڈ اور فعال تھا جن میں ارشد معراج, عابد سیال, سعید احمد داؤد رضوان روش ندیم وغیرہ شامل تھے ذہنی قربت, ادب سے لگاؤ اور نظموں غزلوں پر طرح طرح کے مباحث, حلقے کے بعد آف دی ریکارڈ گفتگوؤں کی وجہ سے ان سے بہت دوستی ہوگئی .یہ سب دوست اس وقت زندگی کی جدوجہد کےدور سے گزر رہےتھے نوکریاں کر تےہوئے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے شاعری اورادبی ایکٹیویٹیز آن کا اوڑھنا بچھونا تھا.. ہمارے سب کے درمیان ایک باہمی احترام کا رشتہ تھا محبت تھی اور ساتھ ساتھ ادبی ڈسکورس بھی قائم تھا اس وقت حلقے کا ماحول بہت پوٹنٹ تھا ہر کوئی اپنی تخلیقی شناخت بنانے کے عمل سے گزر رہا تھا
ارشد کی شاعری کی ابتدا اور ارتقاء کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا دل سے خوش ہوئی اور آج تمام حواس سمیت اس کو ایک مکمل اور بھر پور شاعر کی حیثیت سے پنپتے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں اور اس پر فخر بھی کرتی ہوں……
ارشد معراج کو دیہاتی اور شہری ماحول اورکلچر سے سابقہ پڑا. یوں اس کی شاعری culturely rich ہے اس کی شاعری کے رنگوں میں دیہات کی لوک دانش اور شہر کی نارسائی دوہری زندگی کےعذاب دونوں پائے جاتے ہیں دیہات نے اسے شاعری کی اوریجنیلٹی اور شہر نے زندگی پر ناقدانہ نگاہ دوڑانے کی صلاحیت بخشی….
ارشد معراج کی نظم مختلف النوع رنگوں اور ذائقوں سے سجی ہوئی ہے .مضامین کی نیرنگی ,جذبات کی سادگی , مزاج کی انکساری او سچائی نے ارشدکو اپنےڈکشن کاایک مضبوط شاعر بنادیا ہے ہم سب ہی اس لحاظ سے خوش قسمت رہےکہ راول پنڈی اسلام آبادمیں نظم کا ایک خاص ماحول رہا ہے جہاں ہم سے قدرےسینئر نسل میں آفتاب اقبال شمیم احسان اکبر ڈاکٹر سرورکامران اور پھران کے بعد والی نسل کے معاصر شاعر یہاں موجود تھے چاروں طرف عمدہ نظم سُننے کوملتی ڈاکٹراحسان اکبرکی نظم دابی پور کمادکی جناب سرور کامران کی نظم بستی میں آخری شام اورآفتاب اقبال شمیم کی نظم ستمبر کا شہر نے دھوم مچا رکھی تھی جہاں ایک طرف رہنمائی کے مواقع میسر تھے وہاں یہ مشکل بھی در پیش تھی کہ نظم کی اس مجموعی صورت حال سے اپنے دامن اسلوب کو کیسے بچا کر نکلنا ہے اور اپنی انفرادی شناخت کیسے قائم کرنی ہے. آج یہ بات فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ راولپنڈی اسلام آباد میں ایک طرف جہاں مجموعی نظمیہ مزاج کی ترویج ہوئی وہاں نوے کی دہائی میں لکھنے والے نظم کے تمام شعراء نے اپنے اپنے سٹائل اور رنگ کا لوہا منوایا فی الحال تو بات ہو رہی ہے ارشد معراج کی شاعری کی….
ویسے تو کوئی بھی شاعر ہمارے صوفی شعرا کے طرز سُخن اور طرز احساس سے مستفید نہ ہونے کا دعویٰ کرے تو یہ یکسر جھوٹ ہوگا بر صغیر کی دھرتی پیروں ولیوں صوفیوں اور بھگتوں کی سر زمیں ہے ان صوفیا میں سے اکثر شعرا بھی تھے انکی شاعری, اسلوب, طرز فکر, ذات کی نفی submission اور تحلیل نفسی ہماری ادبی سائیکی کا ورثہ ہیں . ہر شاعر نے کہیں نہ کہیں ان سے استفادہ ضرور کیا ہے پنجاب ہمیشہ سے اس شعری ورثے اور صوفیانہ طرز فکر میں بہت ثروت مند رہا ہے ارشد نے پورے وقار اور فخر سے اس فکری اثاثے کو اپنایا اور سُخن کیا…. ارشد کی شاعری کی پہلی قرات میں جس خوبی کا ادراک ہوتا ہے وہ ہے صوفیانہ شاعری سے بالواسطہ اور بلا واسطہ انسلاک و استفادہ ….
نمونے کے طور پر انکی نظموں کے چند اقتباسات پیش ہیں جن میں کافی اورلوک دانش کا essence پایا جاتا ہے.
اندر سنگ سر کھنا سائیں
سائیں سائیں سائیں سائیں
دائیں بائیں کائیں کائیں
خلقت اپنے اندر خالی
لوبھ کا دامن ہرا بھرا ہے
نیلا پانی ایک کتھا بن
اپنے آپ میں اتر رہا ہے
باقی اُلجھا بول رہا ہے
(نظم آنکھیں روشن دان)
حرف سمندر نیل و نیل
باہر خشک میل و میل
حرف نمانے کوئی نہ جانے
حرفوں کی اپنی بپتا ہے
ورقہ ورق ہخون کے چھینٹے صدیاں چاٹیں
نیل گگن کے دھاگے کاٹیں
(نظم حرف جلے)
چہرے روپ بدل جاتے ہیں
کچے رنگ تعلق والے
داغی جُثہ کرجاتے ہیں
رہ جاتے ہیں وا ورولے
پتے, مٹی, دھول اور کاغذ
ہر کاغذ پر سو سو سطریں
آن سطروں میں نئی کہانی
(وہی پرانی)
(نظم کچے رنگ تعلق والے) ایک اور اقتباس
میں میرا ہوں
میرے پگ گھنگرو اوتاروں کے
میں ناچوں گی
میں تیرے لئے سُکھ مانگوں گی بھگوانوں سے
(نظم آتما سے مکالمہ)
قارئین ایک دفعہ جس نے نگاہ صوف دنیا کے دکھوں, مقدرات, ذات کے خالی پن اور انسان کے بنیادی عناصرترکیبی پردوڑائی پھروہ تہی دامن کیسے رہ سکتا ہے اسی نظر کی گہرائی نے ارشد معراج کو خوبصورت نظم کی سوغات بخشی
ارشد معراج کی شاعری کا دوسرا رنگ ہے وجودی کرب کا احساس.. یہ احساس آج کے شاعر کے مجموعی مزاج میں اپنے اپنے رنگ سے موجود ہے اس احساس نے ارشد معراج سے بہت سی اہم اور دلکش نظمیں تخلیق کروائیں وجودی کرب کاپہلا رنگروز مرہکی بےفائدہ , غیرتخلیقی مجبوراور لگی بندھی زندگی سے بیزاری کا اظہار ہے.
اور گھڑی کی چیخ پر بوجھل بدن ہلنے لگیں / کھاٹ کی کھائی سے اُٹھی پھیپھڑوں کو پھر بھریں/ سانس کی لمبی قطاریں بل ادا کرتے ہوئے/ صبح کی دہلیز سےپھسلیں گریں پاتال میں
دفتروں سے گھر کو واپس رینگتی بے گانگی/ اپنے اپنے روزمرہ کے بھنور میں ڈوبتی/ایک ٹھک ٹھک, گرد, میزیں, فائلوں کے دیو داس
( نظم راستوں کی اوک)
وقت کاندھوں پہ دھرے
غم کی زنبیل لئے
شام سےشام تلک کیسے اسے ڈھویا ہے/پشت پر داغ چبھے خار کی ضرورت ابھرا/ ہونٹ حیراں ہیں زباں گُنگ ہوئی جاتی ہے/ خواہشیں ٹوٹتی ہیں, ڈوبتی ہیں, پھوٹتی ہیں
(نظم عکس دھندلاتا ہے)
اسی طرح ایک اور حساس نظم کا بند ملاحظہ کریں کہ کس طرح یہ زمانی بے حسی ,مجبوری اور بے ضمیری انسانی کی حس جمال تک کو متاثر کر جاتی ہے
ٹھہرے ہوئے بدن میں کنکر ہزار پھینکے/خلیوں میں خون دوڑا لیکن تہی ہے دامن/ سو چھید چھلنیوں سے ہیں جسم و جاں کے اندر/ پانی وصال کا پھر کیسے وہاں ٹھہرتا / کب جنتی کھجوریں اتریں ہماری خاطر/ سانسیں اڑھائی فیصد خیرات میں ملی ہیں / یہ زندگی نہیں ہے
ارشد معراج ایک صاحب مطالعہ شخص ہے وہ مختلف علوم و فنون کے بارے میں پڑھتا رہتا ہے اس شعوری فعل کو جب وہ اپنے لا شعور میں ضم کرتا ہے تو آمیز و آمیخت کرنے سے منفرد ذائقے کی نظمیں تخلیق ہوتی ہیں اسکے پسندیدہ موضوع متھ تاریخ اور موسیقی ہیں متھ اور تاریخ کے مختلف کرداروں اورراگ راگنیوں کے زیر اثر علامتی اوراستعاراتی نظمیں تخلیق کرتا ہے. چند اقتباسات قارئین کے لئے …..
یہودہ!
سُن!
کپل وستورگ و پے میں اترتا ہے/تو پلکوں پر جمی خوش فہمیوں کی گرد ہٹتی ہے/ زمانی وردیاں تبدیل کرتا ہے
نظم کے اتنے چھوٹے سے اقتباس میں دو کرداروں جنہوں نے تاریخ اور زمانے کا رخ بدل دیا سے متعارف کروایا گیا ہے ایک تو بدھ مذہب کےبانی کپل وستو کے راجکمار گوتم بدھ اور دوسرے میرے قیاس کے مطابق علی اظہر بن یہودہ جس نے عبرانی زبان کو معدوم ہونےسے بچانےکے لئے شمارمحنت اور کوشش کی. دونوں ہستیاں فرسودہ سماج اور متروک زبان میں انقلاب کا باعث بنیں
اسی طرح اس کی ایک نظم "پرومیتھیس نے خود کشی کر لی” بھی علامتی انداز میں بنی گئی… پرو میتھیس ایک یونانی دیوتایے جو ظلم اور جبر کے خلاف جرات بہادری اور ہمدردی کی علامت ہے اس کی خود کشی سے یقیناً مراد معاشرے سے اچھی اقدار کا آٹھ جانا یا اچھی لیڈر شپ کا ختم ہو جانا ہے چند اور اقباس ملاحظہ کیجئے
خیالوں کی پری نے یہ بتایا تھا
"ابابیلیں اڑیں گی ہاتھیوں والے جہنم میں جلیں گے”
سلیمان سر بزانو ہے/پکارے جا رہا ہے وہ/ کوئی آواز سُنتا ہے/ کنویں کی تیل سے کب پیاس بجھتی ہے. (نظم دھواں ہوتا جیون)
میں میرا ہوں/ مرے پگ گھنگرو اوتاروں کے/ میں ناچوں گی
میں سیتا ہوں/ہو راون لاکھ بُرا لیکن/مجھے اگنی پرکھشا دینی ہے
(نظم آتما سے مکالمہ)
اسی طرح موسیقی سے دلچسپی کا اظہار کے نمونےاس کی نظم جیون راگ سے چند سطور
خواہش کی سیما سے آگے سُر سرگم کے دربار لگیں /اور "درباری” کی لے کے اندر کچھ دھیمے سے کُچھ اونچے سے
خو گیت لبوں پر پھول بنیں وہ خوشبو خوشبو مہکائیں
ایمن کے راگ فضاؤں میں اک وصل خوشی کی آہٹ ہر
وہ دیبک لمبی تانوں کا پھیلے تو راتیں روشن ہوں
جب دور سلگتے صحرا میں "پیلو” جو ہجر سمیٹے تو / میرا کے ترسے ہونٹوں پر گیتوں کی پٹری جم جائے
باگیشری برہا کے اندر ہلچل سی ایک بپا کردے
زوال قدر کے ساتھ ساتھ زوال عمر بھی شاعر کے لئے سوہان روح ثابت ہوتا ہے اس کرب کی کئی نظمیں ہیں مگر ایک اقتباس پیش کئے دیتی ہوں
سفر کے آغاز میں تو کتنے ہی کوہ قافوں کی پریاں اتریں
مگر یہ اب کن رتوں نے ڈیرے لگا لیے ہیں
اداسیاں چار سو اگی ہیں
سو خواب گاہوں میں جھینگروں کی صدائیں چپ کو نگل رہی ہیں
جبیں سے تنہائیاں چپک کر
گزرتے لمحوں کی دھول آنکھوں میں بھر رہی ہیں
۔..
تو دوستو ارشد معراج نے اپنی نظموں کا رزق گاؤں, شہروں, گیتوں, داستانوں, باب علم, دہلیز جسم و جاں ,در دوستی اور وجودی قضیوں کے کرب سے سمیٹا اور یوں اہنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہرا وہ محبت کرنے والا اور محبت کا پرچارک انسان ہے اس کی ایک پوری کتاب دوستوں کے لئے نظموں پر مشتمل ہے مگر اس کتاب کا ذکر پھر کسی وقت پراٹھا رکھتے ہیں ان مضامین کا مقصد نظم نگاروں کے انفرادی رنگ کو تلاش کرنا ہے. پوری امید ہے کہ شاعری میں ارشد کی نظموں کا ارتقاء ارتفاع کی منزل پر پہنچے گا اور وہ اپنے اسلوب کو مزید نکھارنے میں کامیاب ہو گا ڈھیروں پیار اور دعا کے ساتھ۔