نصیر احمد ناصر ایک خاکہ, اعترافات اورنظم
صاحبان علم و دانش عنوان کے پہلے حصے پر چونکیے گا مت کیونکہ یہ خطاب میرا دیا ہوا نہیں بس شروع میں کُچھ لوگ نصیر احمد ناصر کو مغرور سمجھ لیتے ہیں ایسی باتیں سُن کر میں صرف مسکرا دیتی ہوں کیونکہ میں جس نصیر احمد ناصر کو جانتی ہوں اُس سے زیادہ نرم خُو, رحم دل, مہربان , معصوم اور "پینڈو” مجھے کوئی دوسرا نہیں ملا.
میرے لئے شاید وہ باپ جیسے ہیں ؟ مگر وہ میرے باپ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ عمر میں مجھ سے صرف چار پانچ سال بڑے ہیں
پھربھی اُنہوں نے اس رشتے کی تمام فیوض و برکات سے مجھے نوازے رکھا. اُن کا سلوک میرے ساتھ ہمیشہ شفقت بھرا رہا. انہوں نے ذاتی اور ادبی سطح پر میرا بھلا چاہا. جب میں نے اردو نظم لکھنا شروع کی اور پہلی پانچ چھ نظمیں ڈرتےڈرتے انہیں مطالعے کی غرض سے یاپھر چھپوانے کی نیت سے میر پور بھجوائیں تو کئی دن انتظار کرتی رہی جواب نہ آیا سمجھ گئی کہ انہیں پسند نہیں آئیں.. ایک شام ان کا ٹیلی فون آگیا.کہنے لگے نظمیں بہت اچھی ہیں ایک نظم "دھوپ کی ٹھوکر” کی بہت تعریف کی اس نظم کے اندر دو لائنیں تھیں
اودے پھول شٹالے کے/بیر بیوٹی ساون کی
آن سطور کی انہوں نے تعریف کرتے ہوئے کہا "یہ تو میری لائنیں تھیں آپ نے لکھ ڈالیں” میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ریا
نصیر صاحب نے میری نظموں کی پہلی ہی لاٹ کو اعتبار بخشا میری تجزیاتی صلاحیتوں کو سراہا انہوں نے یہ نظمیں اور جناب انوار فطرت کی ایک فلسفیانہ نظم "چیخ اری او مہا سنکھ کی چیخ” پر میرے ایک تجزیاتی مطالعے کو سپیشل گوشے کی شکل میں اپنے زیرادارت رسالےتسطیر میں شائع کیا اُن کا دیا ہوا اعتبار میرے ادبی مستقبل کا ضامن بنا….
نصیر احمد ناصر ایک شفیق, اور بے حد شریف النفس انسان ہیں…ہماری فیملیز کی آپس میں گہری دوستی ہے ہمارےگھر میں انہیں ایک بزرگ (معنوی اعتبار سے ) کی سی حیثیت حاصل ہے میں, میرےمیاں طاہر راٹھور اور میرے بچے, سب کے ساتھ اُن کا علیحدہ علیحدہ تعلق ہے وہ ایک ہنس مکھ شگفتہ خوش گفتار اور بذلہ سنج انسان ہیں .
اُن کے ساتھ دل کا اور احترام کا رشتہ ہے. میں نے ان سے کبھی نگاہ اونچی کر کے بات نہیں کی کبھی نظر بھر کر اُنہیں نہیں دیکھا کیوں کہ وہ اسی احترام کے قابل ہیں.
میں نے ان کی ذات میں احترام کے سارے مقدس رشتوں کو تلاش کیا
اور ان رشتوں کی خوشبو کو پایا.
کبھی کبھار تو وہ مجھے اُن بھائیوں جیسے لگتے ہیں جن کے پیچھے بہنیں اپنی ردا اوڑھے, قدموں کی آواز دھیمی کر کے چلتی ہیں اور ان کی لاج رکھنے کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر سکتی ہیں.
اور کبھی کبھار وہ بالکل بچے بن جاتے ہیں. بات بے بات غصہ کر جاتے ہیں, روٹھ جاتے ہیں, مان کے نہیں دیتے. ایسی صورت حال میں اُن پر ہمیشہ ایک ممتا بھری نگاہ ڈالتی ہوں ایکسکیوز کرلیتی ہوں کبھی رفیعہ(مسز نصیر جو کہ علیحدہ سے میری بہت اچھی دوست اور بہنوں جیسی ہیں) یا پھرطاہر کی سفارش ڈلوا کر صلح کر لیتی ہوں. میرا قصور نہ بھی ہو تو صلح میں نے ہی کرنی ہوتی ہے کیونکہ میرا دل اُنکی ناراضی کابوجھ افورڈ نہیں کر سکتا….
ہمارے رشتے میں دوستی کا عنصر بھی اپنے تمام (pros and cons ) کے ساتھ موجود ہے. اس رشتے کے سارے قدرتی شیڈز دُکھ سُکھ, رازداری, طرف داری, مخالفت مسابقت
ہمارے درمیان چلتے رہتے ہیں مگر یہ طے ہے کہ ہم سچے دوست ہیں.
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میری فیملی کے بعد ادبی رفقائے کار میں سے اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو سب سے زیادہ نصیر احمد ناصر کاہے یہ حق خود ان کی انسان دوستی نے انہیں دلوایا ہے. میرے بیٹے کی وفات کے سانحے کے بعد طاہر کو , میرے بچوں کو اور مجھے انہوں نے بہت وقت دیا ہمیں بحال ہونے میں کئی سال لگ گئے مگر وہ تسلسل اور صبر کے ساتھ فردا فردا ہم سب کی نفسیاتی اور اخلاقی کونسلنگ کرتے رہے ہم نے ان کے اندر انسانیت کا وہ اعلیٰ روپ دیکھا جو ہمارے دائمی تعلق کی بنیاد ہے میں
اپنے بیٹے کی جدائی کے دنوں میں تخلیقی اعتبار سے خشک بنجر زمین جیسی ہوتی جا رہی اُن دنوں کلیات میر اورشمس الرحمان فاروقی کی کتاب ” شعر شور انگیز” (جومیں نصیرصاحب کی لائبریری سےبغیر اجازت اٹھا لائی تھی) میرےزیر مطالعہ تھیں میری غزل میں دلچسپی دیکھ کر اور دل جوئی کی خاطر ہر روز ایک نئی بحر اُٹھا لاتے
کہ اس بحر میں غزل لکھو حالانکہ ہم دونوں جانتے تھے کہ میرا فطری رجحان نظم کی طرف ہے پھر بھی وہ میرا دھیان بٹانے کی خاطر غزل لکھنے کا کہتے اور میں بھی انکا دل رکھنے کے لیے غزلیں ٹرائی کرتی رہتی بظاہر تو مجھے یہ مشق ایک (futile exercise ) لگتی تھی مگر بعد میں مجھے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا عروض و اوزان کی باریکیوں کا پتہ چلا مجھے کُچھ بحروں سے پیار ہو گیا خاص طور پر بحر ہزج, بحرخفیف, بحر کامل اور بحر متقارب سے .میں ان بحروں کی خوبصورتی اور آہنگ میں کھوئی رہتی اور وقت کا پتہ بھی نہ چلتا . بحرخفیف میں بعد ازاں میں نےاپنی نظم”کسیلا ” لکھی اور کئی معری نظمیں بحر متقارب میں
لکھیں…. دوستو فرشتے صرف آسمانوں پر ہی نہیں زمیں پر بھی مل جاتے ہیں.
جہاں تک میری نظم کا تعلق ہے وہ میری نظم کو شروع دن سے ہی پسند کرتے ہیں میری اپروچ, بنیادی فلسفے,اور نظم کے قضیے کو فورا سمجھ جاتے. نظم ہمیشہ میں نے انٹرنل ردھم پر لکھی کبھی کسی لفظ کو غلط pronounce کرنے کی وجہ سے اور غلط باندھنے کی وجہ عروضی سقم پیدا ہو جاتا تو بس اشارہ کردیتے کوئی لفظ خود سے تجویز یا تبدیل کرنے کے حق میں کبھی نہیں رہے یہ بات انکی مدیرانہ اخلاقیات کا پتہ دیتی ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وہ تخلیق کار کی تخلیقی انا کا کس قدر خیال رکھتے ہیں انہیں میری نظم پر بھروسہ تھا اور اب بھی ہے
ہم جب بھی نظم پر بات کرتے ہیں تو میرے ساتھ ان کا ڈسکورس برابری کی سطح پر ہوتا ہے .وہ ایک ایسے دانشور اور soulmate ہیں جن کے intellect پر فخر کیا جا سکتا ہے.
اب اس ذکر خیر کے تیسرے حصے کی طرف آتے ہیں یعنی نصیر احمد ناصر کی نظم کی طرف…. ناصر صاحب جدید نظم کے اہم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے خوابوں کی مسلسل تکرار سے جدید نظم میں خواب کی اہمیت کو داخل کیا. انہوں نے حقیقت کے بر عکس نہیں حقیقت کے متوازی خواب کی ایک دنیا تعمیر کی اس دُنیا کی ایک اپنی رہتل ہے اپنا سبھاؤ اپنے کاروبار ہیں بستیاں اورہستیاں ہیں ذہنی منطقے اور آدرش ہیں خواب سلسلے کی کچھ نظموں کے اقتباسات
اجنبی,کس خواب کی دنیا سے آئے ہو
تھکے لگتے ہو
آنکھوں میں کئی صدیوں کی نیندیں جاگتی ہیں
فاصلوں کی گرد پلکوں پر جمی ہے
اجنبی! کیسی مسافت سے گزر کر آ رہے ہو
کونسے دیسوں کے قصے
درد کی خا موش لے میں گا رہے ہو
دور سے نزدیک آتے جس رہے ہو
رات
میرے گرد
گھیرا تنگ کرتی جا رہی ہے
اور میں تنہا
فصیل خواب کے اندر
سمٹتا جا رہا ہوں ……!
خواب دیکھنے سے پہلے
میں نے پنجرے میں قید
پرندوں کو آزاد کر دیا تھا
اس جرم کی پاداش میں
میرے گھر کے سارے درخت کاٹ دیے گئے!
آنکھیں جب
خوابوں سے خالی ہوں،
تم لکھنا
میرا نام ہتھیلی پر
اور مٹا دینا !!
چلو اک خواب دیکھیں
خواب سچی دوستی کا
دُکھ میں بھیگی ست خوشی کا
روشنی کا, آگہی کا
اور دلوں کے درمیاں پھیلی
اذیت سے رہائی کا
ملن کا اور جدائی کا!
. نصیر صاحب کی شاعری کی سات کتا بیں ہیں جن پر لکھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی سطح کا مقالہ درکار ہےلہذا آج ہم اُن کی نظم کی چند ایک خصوصیات کا جائزہ ہی لے پائیں گے .
انکی پہلی خصوصیت جوکہ ایک جینئن شاعر کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے وہ پیش بینی ہے. . پیش بینی کے اس شعور کو الہامی شعور کا درجہ حاصل ہے ان کی یہ نظم دیکھئے درِ ناواپسی (The Door Of No Return)
یہاں سے وہ گزرتے تھے
سیہ جسموں میں صدیوں کا
چلن ڈھالے ہوئے حبشی
سمندر کی طرف کھلتا یہ دروازہ
(درِ ناواپسی گویا)
غلامی کے جہانِ نو کا رستہ تھا
جہاں سے واپسی
آبی جہازوں میں لدے ڈھانچوں
کی آنکھوں میں
فقط اک خواب کی صورت چمکتی تھی
سرِ ساحل یہ دروازہ
یہاں سے اب
عقیدت سے گزرتے ہیں سفید آقا
خود اپنے جبر کا دورِ عقوبت یاد کرتے ہیں
مگر یہ بھول جاتے ہیں
کہ افریقہ
"نئی دنیا” کا سورج بن کے ابھرے گا!
"یہ نظم غالباً 1994/95 ء میں لکھی گئی تھی۔ جب اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا تو امریکہ اور افریقہ کے کچھ شاعروں ادیبوں اور قارئین نے اسے ایک بلیک امریکی صدر کی پیشین گوئی کہا جو بعد میں پہلے بلیک امریکی صدر بارک اوباما کی صورت میں سچ ثابت ہوئی”.
نصیر ناصر کی نظمیں زماں و مکاں سے اکثر ورا ہوتی ہیں اور اچھی نظم کی یہ خوبی
ان کی تقریباً ہردوسری نظم میں موجودہے گزرنے والے کل کی اکثر نظمیں امروز و فردا کا منظر نامہ پیش کرتی ہیں ان کی ایک خوبصورت نظم
ہوا پھر رخصتی کے گیت گاتی ہے
مجھے کس رات کا سایہ ڈراتا ہے/مجھے کس خواب کی نیندیں جگاتی ہیں /مجھے کس دیس کی مٹی بلاتی یے مجھے کس یاد کس چہرہ رلاتا ہے/مری آنکھوں کے رستوں میں /نہ جانے کون سے لمبے سفر کی دھول اڑتی ہے / مجھے کس دیس کی مٹی بلاتی ہے
ایک اور نظم ملاحظہ کیجئے حس میں موجودہ پینا ڈیمک کی طرف اشارہ ہے
میں نےکہا تھا/ راستے ویران ہوجائیں گے/ اورتم نہیں مانتے تھے / میں نے کہا تھا/ دروازے بند ہو جائیں گے/اور تم نہیں مانتے تھے….
میں نے کہا تھا/محبت اور اناج کے/ذخیرے کم پڑھائیں گے/ اور تم. نہیں مانتے تھے
میں نے کہا تھا/ لوگ جنگوں سے نہیں/ان دیکھی وبا/ اور تنہائی سے مر جائیں گے/ اور تم نہیں مانتے تھے..
نصیر احمد ناصر کی جمالیات روایت سے بہت مختلف, منفرد مگر پر کشش ہیں نمونےکے طورپر انکی نظم پانچواں مفرد سے ایک اقتباس
الوہی موسموں میں/ جب ستاروں کے پھول کھل رہے ہوں گے/ اور سورج کی آگ پر تتلیاں منڈلائیں گی/ تو تمہارے چہرے کا چاند /شام ابد کی شاخوں سے طلوع ہوگا / اگر تم میں انتظار کی شکتی ہوئی/ تو میں عناصر کی نئی ترکیب کے ہمراہ/ تمہیں ملنےآؤں گا.
ایک اور نظم "روشنی تیرے جنم یُگ پر ایک نظم ” سے اقتباس ملاحظہ کیجیے
تیری اقلیم محبت میں رکا ہے
اک مسافر نے ارادہ, بےمجال
تجھ کو چھو کر
اصل ہونے کی تمنا میں نڈھال
خواب کے اندر بکھرتے خواب کا زخمی ملال
نصیر احمد ناصر اور کلاسیکی خیالات سے وابستہ ہونے کے باوجود ماڈرن sensibility کا ادراک بھی رکھتے یہی وجہ ہے کہ آج کے مسائل, آج کی جمالیات اور نئے زمانے کے شعری وسیلوں سے مستفید ہوتے ہیں یوں آج کے شعری منظر نامے اور جدید جمالیاتی منطقے تخلیق کرتے رہتے ہیں ایک نظم ملاحظہ کیجئے
چائے خانہ میں ۔۔۔۔۔۔۔
چائے خانہ میں
ہم روز ملتے ہیں
اگلے دن پھر ملنے
اور جدا ہونے کے لیے
چائے خانہ میں
آملیٹی رغبت
ہماری لمسائی ہوئی زبانوں میں گدگدگی کرتی ہے
اور ہمارے چکنے دہن
انواع و اقسام کے
خاگینوں اور پراٹھوں کی لذت سے
کھچا کھچ بھر جاتے ہیں
چائے خانہ میں
ہمارے ہاتھ سفید مٹی کی پیالیوں کو چھوتے ہوئے
ایک دوسرے کو محسوس کرتے ہیں
اور ہمارے ہونٹوں پر
مسکراہٹ کی براؤن شوگر پھیل جاتی ہے
چائے خانہ میں
باہر سے گزرنے والوں کو
ہم خاموش فلموں کی طرح دکھائی دیتے ہیں
اور کسی کو سنائی دیے بغیر
بولتے رہتے ہیں
اور چھت میں لگے خفیہ کیمرے
ہماری حرکات و سکنات پہ نظر رکھتے ہیں
چائے خانہ میں
دنیا کے عظیم ترین مصنف
شاعر اور فلسفی
اور قدیم وقتوں کے گوتم اور پیغمبر
ہمارے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں
لیکن وہ ہمارے علاوہ
کسی کو نظر نہیں آتے
اور ارد گرد کی میزوں پہ بیٹھے لوگ
ان سے اور ہم سے لاتعلق
مَنی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ
ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں
چائے خانہ میں
ہماری مختصر شاموں کی
آدرشی محبت پروان چڑھتی ہے
اور طویل راتوں کی چسکوری تنہائی
چٹخارے لیتی ہے
اور آس پاس بیٹھے محبتی جوڑے
ہماری طرف دیکھے بغیر
سیلفیاں بناتے رہتے ہیں
اسی طرح ان کی ایک نظم گلوریا جینز میں ایک شام میں وہ جدید دنیا کی جمالیات فکریات معاشی اور کنزیومر اخلاقیات کو بیان کر نے ساتھ سی تاریخی اور جغرافیائی قدیم اشکال اور تبدیلیوں پر ایک فلسفیانہ اور عمرانی نگاہ بھی ڈالتے ہیں جب کہ نظم کی خوبصورتی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے
آج بہت دنوں بعد
گویا جینز میں کافی پیتے ہوئے
آخری سہ کے ساتھ
شام کو انڈیل لیا ہے منہ میں
معدہ چاکلیٹی تنہائی سے لبالب ہو گیا ہے
اور تم کاغذی مگ ہتھ میں پکڑے
ہمیشہ کی طرح منہ کھولے ساکت و صامت
ناگاہ ہونے والی اس ملاقات میں
میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی ہو
کہ آفرینش سے پہلے کا تھما ہوا وقت
گلوری جینز میں کیسے آ گیا ہے
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نصیر احمد ناصر کی نظموں کا سفر بہت طویل ہے اس مضمون میں ان کی شاعری کا جائزہ ممکن ہی نہیں. بس کچھ جھلکیاں ہی پیش کر پائی ہوں وہ بھی اپنی پسندیدہ نظموں کی.
اب آخر میں میری سب سے پسندیدہ نظم ” لائٹ ہاؤس آپکی بصارتوں کی نذر
ﻻﺋﭧ ﮨﺎﺅﺱ
ﺑﺘﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ کی
ازلوں میں ٹھہرے ہوئے ﻧﻢ!
ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻦ ﺯﻣﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﯿﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ
ﺧﺪﺍ ﺑﺎﺭﺷﯿﮟ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﻣِﺮﺍ
ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﺑﺘﺎ ﺳﺎﺣﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ !
ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻣِﺮﺍ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﮕﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺰﯾﺮﮦ ﮨﮯ، ﺩکھ ﺑﺎﺩﺑﺎﮞ ﮨﮯ
ﺑﺘﺎ ﻣجھ ﮐﻮ ﺍﺳﻢِ ﺭﮨﺎﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻢِ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺳﻨﮕﯿﮟ ﺳﺘﻮﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻗﻄﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﮞ ﮔﺎ
ﺍُﺳﮯ ﺑﺎﺯﻭﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﻮ ﮐﺮ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﮯ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ
ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﺍُﺳﮯ ﺳﻮﻧﭗ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ
ﺑﺘﺎ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﮞ!
ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼُﮭﭙﯽ ﺳﺮﺑﺮﯾﺪﮦ ﭼﭩﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﯽ ﺷﺒﯿﮩﯿﮟ
ﺍﺑﺪ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺳﻮﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺑﻮﮌﮬﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﺮﯾﺪ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯽ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﭼﭙﻮ ﭼﻼﺗﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﯽ
ﺑﮯ ﻋﮑﺲ ﭼﯿﺨﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﺴﯿﻢ ﮨﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺣﺪ ﭘﮧ ﺍُﮌﺗﮯ ﻃﻠﺴﻤﯽ ﭘﺮﻧﺪﮮ!
ﺑﺘﺎ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ
ﺟﺴﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﻋﺘﯿﻘﯽ ﺻﺪﺍﺅﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺘﻮﻝ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺘﺎ ﺍﮮ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﺳﺘﺎﺭﮮ
ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺗِﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ
نصیر احمد جیسے شاعر trend setter ہوتے ہیں ایک پوری نسل ان سے مستفید و مستفیض ہے خصوصاً نئی نسل .کہ نصیر احمد ناصر نے قریبی دو نسلوں کی آزاد نظم اور نثری نظم میں ایک رجحان ساز تربیت کی ہے …. میں نے انکی وال پر نوجوان نسل کی محبت کے نمونے دیکھتی رہتی ہوں وہ صرف ماضی کے نہیں امروز و فردا کے شاعر بھی ہیں اور پورا یقین ہے کہ ان کی تخلیقیت کئی صدیوں میں سفر کرے گی کہ انکی شاعری شش ابعاد میں رواں دواں رہے گی
.
. آخر میں انکی سالگرہ پر اُن کے لئے لکھی گئی میری ایک نظم جو کسی طرح بھی میری نصیر احمد ناصر کے لئے محبت اور ان کی شعری و شخصی خوبیوں خوبیوں کا احاطہ نہیں کر سکتی مگر ایک نذرانہ ضرور ہے
قطاروں میں کھڑے ہیں استعارے
نصیر احمد !
ہمارے دل نشیں شاعر
حبیب حرف ناصر تم
کبھی ٹیرس کے پھولوں سے
نگاہیں تو ہٹاؤ
اور آ کر بالکونی سے
ذرا جھانکو
گلی میں گیٹ پر دیکھو
علامت تم سے ملنے کو
بڑی بےتاب بیٹھی ھے…
قطاروں میں کھڑے ہیں
استعارے۔۔۔۔۔۔
تمہاری شاعری سے
میل کرنے کو
تمہیں بانہوں میں بھرنے کو
جنم دن کی مبارک
پیش کرنے کو !!
پروین طاہر