fbpx
ادبی کالم

علینہ کی مناجات کرتا / پروین طاہر

شخصی خاکہ

علینہ کی مناجات کرتا

فرشی صاحب کی دیگر شاعری پر میں اکثر اوقات اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہوں مگر آج صرف علینہ پر بات کروں گی کیونکہ تہہ دل سے یہ بات جانتی ہوں کہ علینہ بلاشبہ اردو کی طویل نظموں کی تاریخ میں ایک اہم نظم شمار ہوگی…..
علی فرشی نے یہ نظم ایک تخلیقی ٹرانس میں لکھی اور انہیں اپنی یہ ٹرانس خود بھی بہت پسند تھی. نظم کے دیباچے میں لکھتے ہیں

مہک!
تم نے پوچھاہے
مجھ کو علینہ کے پیکر نے کیسا پرم رس پلایا
کہ میں اس کے خوابوں کے باغوں سے واپس نہ آیا.

پریمی کوی سے سے نہیں پوچھتے
وہ سوالات, جن کے جوابات لکھنے میں
لاکھوں برس بیت جانے کا خدشہ ہے
خوشبو کی رم جھم میں
بھیگی ہوئی زندگی کو
کہاں اتنی فرصت کہ لکھے
علینہ کے باغات کی خوبصورت کہانی
جہاں سانس روکے کھڑی ہے جوانی

دوستو نظم علینہ چار سوالات قائم کرتی ہے انہی چار سوالوں کی مدد سے ہم علی فرشی کی علینہ کو ڈھونڈیں گے
(1) کیا علینہ خدا کا نسوانی تصور ہے
(2) کیا علینہ کوئی muse ہے
( 3) علینہ کوئی حقیقی عورت یعنی شاعر کی محبوبہ ہے یا اُس کے باطن میں موجود تخلیقی آئیڈیل ہے
(4) کیا علینہ زندگی کی علامت ہے
آئیے ہم سب سے پہلے سوال کا جائزہ لیتے ہیں. اس نظم میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں علینہ کی دسترس,قدرت اور رسائی اور دیکھ کر قاری اس گمان اور یقین کے پنڈولم میں جھولتا کہ علینہ خدا ہی کا کوئی روپ ہے اور گماں و یقین کے اس harmonical سفرمیں تشکیک کا کوئی مقام کوئی پڑاؤ موجودہی نہیں زیل میں نظم کےاقتباسات دیکھیے.
علینہ!
دن کے نقشےپر
شہادت کی چمکتی نور اُنگلی کےاشارے سے
مجھے تُو نے بتایا تھا
زمانہ ایک دریا ہے
اور اس پر ” آج "کا پُل ہے
اسی پُل پر کھڑے ہوکر
کبھی تُو نے مجھے آواز دی تھی
اندھیری دھند سے باہر بلایا تھا
مجھے کُل کی سیاہی سے نکالا تھا
چمکتے” آج "کے پُل پر اجالا تھا

پیارے دوستو شہادت کی نور انگلی, آواز ( یعنی کُن), کُل کی سیاہی سے نکالنا اور آج کے پُل پر اجالنا کیا خصوصیات یہ انسانی دسترس اور قدرت کےضمن میں شمار ہو سکتی ہیں ؟ ظاہر ہے نہیں
ایک اور اقتباس دیکھیے
علینہ
تجلی بھری لاٹ کی
جھلملاتی تمازت میں
لپٹی ہوئی زندگی کی طرح
اپنے حجلے سے باہر قدم رکھ
زمانہ زمیں بوس ہو
اک جھلک دیکھنے کو تری کائناتیں جھکیں
گردشیں آسمانی رُکیں

اور یہ اقتباس
علینہ
تکونی محبت کی جس قید میں
دل نے چالیس برسوں تلک
خود کو تیری عبادت میں مصروف رکھا
صلہ اس کا کن آسمانوں پہ محفوظ ہے
تکونی محبت کا اشارہ بھی ہمارے پہلے نقطے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ تکون خدا, سچ اور انسان کی تکون ہے ازلی اور ابدی سوالات اپنےدامن میں سمیٹے یہ تکون صوفیا, فلسفیوں اور شاعروں کو facinste کرتی رہی ہے
آسمانوں پہ محفوظ صلے کا سوال تو بس خالق کائنات سے کیا جا سکتا ہے کسی انسان یا پتھر کے دیوتا سے نہیں. ہم اس نقطے کو آخری ورڈکٹ کے لئے یہیں رو کتے ہیں اور اگلے پوائنٹ کی طرف بڑھتے ہیں
(2) کیا علینہ کوئی muse ہے علینہ پڑھتے ہوئے ایک یہ روپ سب سے زیادہ نظر آیا .برصغیر کی متھ میں یہ muse سرسوتی دیوی ہے اور یونانی دیو مالا میں ایراتو Erato رومانٹک شاعری کی دیوی ہے.
علی محمد فرشی کو شاعری سے عشق تھا اوروہ اسی میدان میں اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے اور کمال فن کی سٹیج پر پہنچنا چاہتے تھے لہذا یہ نظم جگہ جگہ پر ایک مناجاتی کیفیت سے دوچار ہے . اور یہ کیفیت نظم کی ساری فضا پر حاوی ہے. ملاحظہ کیجیے درج زیل اقتباسات
علینہ!
کبھی اپنے ہونٹوں سے قُم کا
کوئی خُم مجھے بھی عطا کر
میں لفظوں کے ایسے کبوتر بناؤں
تری شش دری ممٹیوں پر
ہمیشہ ہمیشہ
جو اپنی مقدس غٹر غوں غٹر غوں جگاتے رہیں
میں رہوں نا رہوں
میرے معصوم ننھے پرندے
تری حمد گاتے رہیں

اسمیں لفظ قُم پرغور کیجیے
قُم وہ اسم تھا جو حضرت عیسی مردوں کو زندہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے فرشی ایسے ہی معجزے کے طلب گار ہیں اور مُردہ لفظوں کو نہ صرف ذندہ کرنے کے فن کوحاصل کرنےکے خواہاں ہیں بلکہ اپنی شاعری کی ابدیت کے خواہش مند بھی ہیں
ایک اور اقتباس دیکھیں
علینہ
مرے نقرئی آنسوؤں کی طرح جھلملاتے ہوئے
خوبصورت کتابوں کے الفاظ
تیری مناجات کرتے رہیں گے
مگر آگ جادوگروں کی لگائی ہوئی
ان سے کیسے بجھے گی

ایک اور مناجاتی ٹکرا ملاحظہ کیجئیے.
علینہ یہی ایک غم ہے
جہاں خاک نم ہے
ستارے وہاں دل نے بوئے ہوئےہیں
تری کہکشاؤں میں دردیلے دن میرے کھوئے ہوئے ہیں
نکلتا نہیں راستہ غم کی اندھی گھپاؤں سے
جہاں تیری صدیوں کی نوری محبت
گھنی نیند سوئی ہوئی ہے
علینہ!
تو کن آسمانوں میں کھوئی ہوئی ہے…..

پیارے قارئین اب ہم تیسرےنقطے کی طرف آتےہیں میںری ذاتی رائے میں تو صرف ایک حقیقی عورت اس نظم کے دیباچےمیں نظرآئی ہےجسے وہ مہک کہہ کر بلاتے ہیں جسکو وہ اپنی نظم کے تخلیقی لمحوں کی داستان سناتے ہیں اور اُس ٹرانس میں رہنے کی وجہ بیان کرتے ہیں. اس کے علاوہ نظم کے اندر علینہ کے ہی دو روپ اور نظر آتے ہیں علیزے اور دوسری جگہ علینا کی املا میں ہ کی جگہ ا استعمال ہوا ہے علی فرشی اتنے سخت کفایت لفظی اور کنکریٹ امیج کے حامی ہیں کہ کوئی لفظ
فالتو ان کی نظموں میں نہیں ہو سکتا …تو لفظ علینا کا نسوانی مطلب فارسی کی رو سے شہزادی ہےمگر اس نام کامردانہ روپ عربی اوریجن کے مطابق ہمارےعلی ہے .علیزے کا مطلب روشنی کا حُسن ضوفشاں یاچمکتی ہوئی ہےیہ تمام نام علی محمدفرشی کےشعری آئیڈیل کیطرف ہی جاتے ہیں یعنی ان کےباطن میں ایک ایسی عورت یا دیوی آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے جس میں شہزادیوں جیسی تمکنت روشنی جیسا جگمگاتا حُسن اور چمکتی دمکتی خصوصیات ہوں ….
علینہ!
مگر یہ جو پتھر کی سل ہے
کبھی اس پہ تیرے کبوتراُترتے
تو سل کے تلے کسمساتےہوئے
دل کو محسوس کرتے
دھڑکتی ہوئی زندگانی روانی میں آتی
"علینہ”! "علینا”! "علینہ”!علینا”!… کی دھک دھک میں
تھم تھم کے چلتی جوانی مقدس محبت کا دریا بناتی

اب نظم کے اس ردھم میں علینا کادوسرا مطلب "ہمارے علی” زیادہ موزوں لگتاہے جو کسی عاشق اور محبوب کی باہمی پکار ہے ایک پکارتا ہے علینہ تودوسرا ہمارے علی کہہ کر لپکتاہے نظم کا یہ مقام سب سے زیادہ خوبصورت ہے یہ علینہ نظم کا ستارواں منظر ہے جہاں دو انسان دھڑکتے سنائی دیتے ہیں اس کے علاوہ نظم کے اٹھارویں منظر میں میں نام علیزے استعمال ہوا ہے جس میں علی محمد فرشی علیزے کے روپ میں دوسری بار ایک انسانی محبوبہ کے ساتھ نمودار ہوتےہیں
علینہ!
علیزے نے تیرےکھلونوں کی الماریوں سے
چرائے ہوئے خوبصورت دنوں کو
برس ہا برس دل کے صندوقچے میں چھپا کر
زمانے کی نظروں سے محفوظ رکھا تھا… علینہ کے الوہی سروپ اور انسانی روپ دونوں ہی دلکش ہیں.

اب ہم اس نظم کی آخری اور سب سےزیادہ منطقی جہت کیطرف آتےہیں یعنی کیا علینہ زندگی کی علامت ہے ….نظم کا سفر چلتے چلتے بالکل زندگی کی طرح اینٹی کلائمیکس ہو جاتا ہے زندگی ایک ایسی محبوبہ ہے جو شدت سے اپنی جانب کھینچتی ہے مگر ہمیشہ انسان اورزندگی کےدرمیان ایک گریز پائی کا رشتہ استوار رہتا ہےآپ زندگی سے کتنا بھی پیار کرلیں یہ آپ پر اپنابھید نہیں کھولے گی.آپکو اپناپلہ نہیں پکڑائے گی انسان کو طرح طرح کے خوش گمانوں میں مبتلا کئے رکھے گی مگر زندگی کا انت آخرکار اینٹی کلائمکس ہوتا ہے کیا زندگی سے بڑی کوئیlabyrinth,کوئی گنجلگ موجودہے کیاجیون سےبڑا کوئی چیستان معرض وجود میں آ سکا؟ اس نظم کے آخری منظر سےکُچھ اقتباسات آپکی نذر جس میں میں” نہ” اور "لا "کے الفاظ اس نظم کو زندگی کی علامت ہے طور پر قبول کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں
علینہ!
علی نہ, علی نہ, علی نہ
کی تسبیح میں جھلملاتےہوئے "لا” کےموتی
الوہی الاؤ سے
لوسی ہوئی انگلیوں میں سنبھلتے نہیں
دن بدلتے نہیں
روز امروز کے خالی حجرے سے باہر نکلتا ہے/ ویران مٹی کے بنجر مقدر سے ملتا ہے/پیلو کے پکنے کا موسم / کہاں دل کے بیلے میں
کھلتا ہے …….

علینہ
یہی ایک غم ہے
جہاں خاک نم ہے
ستارے وہاں دل نے بوئے ہوئے ہیں
تری کہکشاؤں میں دردیلے دن
میرے کھولے ہوئے ہیں
نکلتا نہیں راستہ
غم کی اندھی گھپاؤں سے…..

زمینی صداقت کے سائے میں سر کو جھکائے ہوئے
ایلی آ ! ایلی آ! کی صدا
اپنے ہونٹوں کے پیچھے چھپائے ہوئے
تیری آواز کا منتظر ہوں
مجھے اپنی تصدیق کے گنجلک چیستانوں سے
بابر نکلنے کا رستہ بتا دے
علینا! علینا! علینا
کی رچنا رچا دے…

دوستو میں تو یہی کہوں گی کہ علی فرشی کی علینہ کو کہیں باہر نہیں خود شاعر کے باطن میں تلاش کریں جہاں حقیقت اور مجاز کی سرحدیں آپس میں یوں ملتی ہیں کہ صرف تحلیل نفسی کی عینک لگا کر ہی جھٹ پٹے اور خوبصورت سرمئی دھند کے پار علینہ کو دیکھا جا سکتا ہے اس عینک کے بغیر علینہ دکھائی دینا تودور اپنی جھلک تک نہیں دکھائےگی ان چار سوالوں کےجوابات آخری سوال کےجواب میں موجود ہیں جو کہ اپنی اپنی جگہ اہم اور منفرد ضرور ہیں مگر مابعدالطبیعاتی سطح پر باہم پیوست بھی ہیں .جیسے ایک ہائی انرجی لیول پر مادے کے سارے روپ ٹھوس مائع اور گیس ایک چوتھی حالت پلازما میں تبدیل ہو جاتے ہیں ویسے ہی علی فرشی کی علینہ شاعری کی پلازما سٹیج ہے جہاں خد,اعشق , muse اورزندگی کیsublimity میں تبدیل ہوجاتے ہیں …..

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے