fbpx
ادبی کالم

سُندر بالا کی معصوم نظمیں / پروین طاہر

شخصی خاکہ

 

دوستو نجمہ منصور نثری نظم کی بہت سینئر شاعرہ ہیں. جس تسلسل اور سنجیدگی سے اس نے اس صنف کو وقار بخشا وہ سراہے جانے کے لائق ہے انکی سالگرہ پرلکھا ہوا ایک مختصر مضمون قارئین کی نذر ۔۔۔

 

سُندر بالا کی معصوم نظمیں

نجمہ منصور سے بہت پرانی ادبی رفاقت ہے کہ ہم اوراق میں ایک ساتھ چھپتے تھے مگر ملاقات کا موقع تین چار سال قبل نثری نظم کے ایک مذاکرے میں ملا جتنی اُس کی نظم سُندر تھی ملاقات پر اسکی من موہنی صورت اور دوستانہ لہجے نےسر شارکیا وہ اپنی نظموں کی طرح اوریجنل سادہ اور پر وقار ہے۔نجمہ منصور نثری نظم قبیلے کی وہ منفرد ہستی ہے جو اس زمانے سے نثری نظم لکھ رہی ہے جب اس صنف کوابھی اپنی شناخت کامسئلہ درپیش تھا اس خوبصورت شاعرہ کی آواز دھیمی, لہجہ ندی کے پانی جیسا نرمل, الفاظ گلاب کی پتیوں جیسے خوشبو دار اور نظم بے حد کومل ہوتی ہے. وہ سر تا پا شاعرہ ہیں .نجمہ کی نظموں کے موضوعات محبت انسان ,انسان دوستی نیچر اور نیچریت ہیں ان کی نظم کی سطریں سادہ ہوتی ہیں مگرزیر سطر انسانی دکھوں کا بہتا سمندر ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا مگر اس کی تہہ میں چھپے جذبات ک تلاطم اور پانیوں کے شورکو محسوس کیا جاسکتا ہے … میں جب کبھی بھی نجمہ کی نظم کی قرات کے تجربے سے گزری ہوں تو مجھے اس کی نظم ایک لڑکی کی نظم لگتی پاکیزہ, ان چھوئی محبت کی چوٹ کو دل میں سنبھالے دھیمے دھیمے سلگتی ہوئی, یادوں کو تصویرتی شاعرہ بہت دلپذیر محسوس ہوتی ہے… مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی شاعری میں سماجی سیاسی یاعمرانی شعور موجودنہیں ۔ یہ تمام عناصراس کی شاعری میں پائے جاتےہیں مگران مسائل کے ساتھ اس کا تعامل بہر حال معصومانہ ہے وہ منظر کو نظر انداز نہیں کرتی بلکہ غور سے دیکھتی ہے اور پھر رضا و تسلیم کی کیفیت سے گزرتے ہوئے آگے بڑ ھ جاتی ہے .نجمہ منصور کے اسلوب کا سب سے سے مضبوط نقطہ امیجری ہے جو اس کی شاعری کا forte بھی ہے اور اس کے جداگانہ اسلوب کی نمائندگی بھی کرتا ہے ملا حظہ کیجیے

چوگا چنتی چڑیا کے دکھ

چوگا چنتی چڑیا تیری پلکوں پر اُگنے والے
خوابوں کے انکھوئے
کون چُن سکتا ہے!
تو تو یہ بھی نہیں جانتی
جانے کب کوئی میلی نظروں کا جال تجھ پر پھینکے
اور تو بے نور آنکھوں کے پنجرے میں قید ہوکر
تمام عمر کے لیے
چہکنا بھول جائے
چڑیا تو تو پگلی ہے
چوگا چنتی خواب دیکھتی ہے
تجھے کیا معلوم ہے؟
کبھی کبھی خوابوں کی مانگ بھرنے کے لیے
آنکھوں کی ویران کھڑکیوں سے
ٹھٹھرے ہوئے رت جگے
بوند بوند دل کی زمین پر ٹپکتے ہیں تو
وہاں دور دور تک اُداسی بھرا جنگل
اُگ آتا ہے
جس پر سوائے دُکھ درد کے کوئی پھل نہیں لگتا
مگر بھولی چڑیا
تُو یہ سب نہیں جانتی
شاید کبھی جان بھی نہیں سکتی!!

مندرجہ بالا نظم میں تمام مناظر قاری بخوبی دیکھ سکتاہے, visualize کر سکتا ہے اور اس ایک نظم میں امیجری کے ساتھ ساتھ محبت کے خواب, خوابوں سے وابستہ دُکھ اور man lead سوسائٹی میں محبت کے خواب دیکھنے والی معصوم لڑکیوں کی ایکسپلائیٹیشن کا مکمل شعور موجود ہے لیکن وہ ان معاملات کو ایک سمجھدار سکھی سہیلی کی آنکھ سےدیکھتی ہے کسی ماں کی طرح نہیں اس کی وہ سہیلی شاید وہ خود ہے یا اسکی ہمزاد ہے جو خدشات کے باوجود محبت کے خواب سے دست بردار نہیں ہوسکتی کیونکہ شاعرہ کے باطن میں ایک معصوم سندر لڑکی بسیرا کئے ہوئے ہے جو خوابوں کے زندہ رہنے پر اصرار کرتی ہے مجھے بھی اس بات پر اصرار ہے کہ نجمہ کی نظمیں معصوم فطرت طرز نگارش کی شاہکار نظمیں ہیں. ان نظموں کی سندرتا کے چند نمونے زیل میں درج ہیں

میں تمہیں پورا یقین دلاتی ہوں
کسی کو نہیں بتاؤں گی
جدائی سے ذرا پہلے
ہم دونوں میں کیا ہوا
میں پوری کوشش کروں گی
میری آنکھیں جھوٹ بولیں
ہونٹ چپ رہیں
اور
کسی کو علم نہ ہو
کہ ہماری محبت کی سرحدوں کے بیچ
ایک نئی ریاست قائم ہو چکی ہے!
(نظم کسی کو نہیں بتاؤں گی)
یہ تہذیب ہے نجمہ کی شاعری کی کہ وہ بچھڑنے سے پہلے گلے لگ کر رونے یا الوداعی بوسے کا ذکر کرتی ہے مگر شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی

تمہیں یاد ہے/میری آنکھیں تمہیں بہت پسند تھیں /اور مجھے/ مجھے تو تمہارے ہاتھ اچھے لگتے تھے/ بچھڑنے سے ذراپہلے/ میں نے / اپنی آنکھیں تمہارے پاس گروی رکھ دیں /اور بدلے میں تم نے اپنے ہاتھ مجھے بخش دیے/سُرخ چیری کے پھولوں سے سجی ہاتھ/ میرے سینے سے لگے رہتے ہیں /اور میں ان سے/تمہارے نام خوبصورت نظمیں لکھتی ہوں
(نظم تمہیں یاد ہے)
اس نظم میں شاعرہ ہجر کو بھی خوش دلی سے گلے لگاتی ہے اور یادوں کو cherish کرتی ہے یہی یادیں اصل میں اُس کی نظموں کا محرک ہیں محبت اس کی نظموں کا نیو کلیس ہے. یادیں انسان کو ناسٹیلجک بنا دیتی ہیں جبکہ ناسٹلجیا دنیا کے بڑے اور اثر انگیز ادب کی روح بنتا ہے
اگر نجمہ کی شاعری کا فنی جائزہ لیں تو نجمہ اس کڑے معیار پر پورا اترتی ہے جس کا سامنا نثری نظم والوں کو کرنا پڑتا ہے نثری نظم کو ایک طاقت ور نظم بنانے کے لئے جن عوامل کی ضرورت ہے وہ ان کا پورا اہتمام کرتی ہے اس کی نظمیں شعریت سے بھر پور فالتو پن سے دور ایک کرسپ فارم میں ہوتی ہیں . مثال کے طور پر اس کی مندرجہ ذیل نظم کو دیکھیے
اگر نظموں کے پر ہوتے
تو میں
ہر روز ایک نظم لکھتی
اور تمہاری جانب روانہ کر دیتی
وہ نظم آسمانوں پر اڑتی
بدلیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی
جب تمہارے کمرے کی اکیلی کھڑکی میں اترتی
تو پوری طرح بھیگ چکی ہوتی
تب وہ نظم
اپنے گیلے پروں کو سکھاتی دھند میں لپٹی یادوں کی پوٹلی
. تمہارے سامنے کھول دیتی یادیں باتیں کرنے لگتیں
کبھی ہنستی کبھی روتیں
اور پھر تم یادوں کی بارش میں بھیگ جاتے
کبھی تم نے سوچا ہے بولو
اگر نظموں کے پر ہوتے!

حالانکہ وہ یادوں کے عذاب سے بھی آگاہی رکھتی ہے اور جانتی ہے کہ اس دوران کس دکھ کس تکلیف سے گزرناپڑتا ہے یہ نظم دیکھیے

محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا!

کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا
تمہیں معلوم نہیں ہے
محبت یاد بن جائے تو
لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند
بدن کے گرد
یوں لپٹ جاتی ہیں کہ سانسیں
رُک رُک کر آتی ہیں
ایک لمحہ کو
یوں لگتا ہے جیسے
زندگی اور موت کے بیچ خانہ جنگی میں
زندگی ہارجائے گی
مگر محبت کی سسکیاں
کچھ دیر سہم کر
چُپ اوڑھ لیتی ہیں
اور پھر اُس ایک لمحے کی موت
کئی صدیوں پر بھاری ہوجاتی ہے
سنو!
بس اُس ایک لمحے کی سیاہی
رگوں میں گھلنے سے پہلے
یہ جان لو
محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا!!

نجمہ ایک محبت کرنے والی انسان ہے اس کی پہلی محبت نظم اور دوسری نظم نگار ہیں اپنے نظم نگار دوستوں ہم عصروں اور سینئرز کے لئے ایک پوری کتاب ” نظم کی بارگاہ میں ” مرتب کر رکھی ہے ان نظموں کا معیار بہت بلند اس لئے ہے کہ وہ ٹھہر کر نظم نگار کی شخصیت کا جائزہ لیتی ہے نظموں سے اس کے شعری وجود کو تلاش کرتی ہے شاعری کے تحرک کا سراغ لگاتی ہے اورپھر کہیں جاکر وہ نظم تخلیق کرتی ہے ملاحظہ کیجیے چند نظموں کے اقتباسات جو اس نے اپنے ہم عصروں کے لئے لکھے
نصیر احمد ناصر کے لیے
لکھی نظم کا اقتباس ملاحظہ کیجیے


میں تمہارے لیے
لکھنا چاہتی ہوں
ایک زندہ نظم
لیکن وہ نظم کاغذ پر نہیں اترتی
وہ نظم
میرے ذہن کے گلدان میں
کسی سجی سنوری لڑکی کی طرح
کاسنی پھولوں میں لپٹی
کھل کھل جاتی ہے
اور سلیٹی نیند اوڑھے
بے خوابی کی آکاس بیل پر
آنکھیں جھپکاتی مجھ پر
ہنستی ہے

اسطرح علی محمد فرشی کے لئے اس کی ذات اور نظموں کے حوالے سے نظم ترتیب دیتی ہے

علی!
تم ٹھیک ہی کہتے ہو
’’زندگی خودکشی کا مقدمہ نہیں‘‘
پھر بھی ہم اپنی اپنی صلیبیں
اپنے کندھوں پر اٹھائے
موت کا استقبال کرنے کے لیے جمع ہیں
سال ہا سال سے روزانہ
اُجلی چادر میں لپٹی صبح
شام کے سرمئی دھندلکے کا ہاتھ تھام کر
رات کی قبر میں اُتر جاتی ہے
۔
علی!
تمھیں معلوم ہے
’’ زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی‘‘
لیکن یہ علم نہیں کہ
زندگی تو شروع دن سے
موت کی مِلکیت ہے
اُس نے تو پیدا ہوتے ہی
موت کا دودھ پینا شروع کر دیا تھا

ایک نظم اس نے راقم الحروف کے لئے بھی لکھی تھی جویہاں اس لئے درج کر رہی ہوں کہ میں اپنی مزاج شناس ہوں اور نجمہ کی تخلیقی سچائی کی گواہی اس نظم کے ذریعے دے سکتی ہوں۔

پروین طاہر تم بھی عجیب ہو

سائنس اور منطق کے سیاروں میں گھومتی
حیات و ممات کی گتھیاں سلجھاتی
یکدم لفظوں کی گرہیں کھولنے لگی
لفظوں کے آہنگ سے کھیلتی
تمھاری انگلیاں
اب نظم کتھا لکھتی ہیں
اور تم بیچ ترنجن بیٹھی
درد کی دھونی رماتی ہو تو
نیند کے پاس رکھے
تمھارے سرمئی خواب
جاگ جاتے ہیں
تم، سرمئی خواب اور
تمھاری کالی آنکھیں مل کر
نظم کی بارہ دری میں پھر سے
میٹھے تیکھے لفظوں کے آلاؤ
روشن کر کے
درد،خوشی، خدا اور محبت سے مکالمہ کرتے ہیں.

نجمہ کی کلیات وصول کرتے وقت میں نے کہا تھا کہ یہ کلیات نہیں کیونکہ تم نے ابھی بہت لکھنا ہے کیونکہ لفظوں اور نظموں سے نجمہ منصور کا عشق سچا ہے نظمیں بھی نجمہ سے پیار کرتی ہیں اور اپنے پر پھیلا کر نجمہ کے آنگن میں آہستگی اور شائستگی سے اترآتی ہیں اور سدا اترتی رہیں گی ۔

 

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے