fbpx
ادبی کالم

روشن خیال فلسفی شاعر / کالم نگار : پروین طاہر

شخصی خاکہ : آفتاب اقبال شمیم

 

آفتاب اقبال شہر نظم کا وہ باکمال شاعر ہے جس نے نہ صرف راولپنڈی اسلام آباد میں نظم لکھنے والوں کےدرمیان استعارہ سازی اورعلامتی نظم کے رجحان کو ترویج دی بلکہ بحیثیت مجموعی سخن عالیہ میں گراں قدر اضافوں کاباعث بنا اُس کاانفراد صرف علامتی نظم ہی نہیں بلکہ وہ سکول آف تھاٹ ہے جس نے آفتاب اقبال کو روشن خیالی, بلند آدرش اور جرات اظہار سے روشناس کروایا وہ اپنے تخلیقی وفکری وجود اور وجود کے باہر کی طبیعیاتی دنیا کاتعارف یوں کرواتےہیں ہیں

"میرا وجدان اور شعور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک نا آفریدہ دنیا میں پیدا ہوا ہوں ایک نامکمل منظر کی نامکمل شناخت کرنے کے لیے میری روشنی کے علاقے میرے وجود کے اندر باہراور آس کے مضافات میں کہیں کہیں واقع ہیں”
آفتاب اقبال شمیم اظہار مدعا کے لئے ہر گز آسان راستہ یا directness کا غیر ضروری استعمال نہیں کرتا وہ ہمیشہ بات کو رمزیہ اندازمیں میں بیان کرتا ہے اور اس مقصد کےلئے اکثر تلمیح,اساطیر اورتاریخ یا دوسری poetic devices کاستمال کرتا ہے لفظوں کے برتاؤ میں شعری معیار اور زیبائش اظہار پر سمجھوتہ نہیں کرتا .اُسکی نظم کی بنت اور بلوغت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آ غا نے اس کےبارے کہا تھا کہ "بہت اہم شاعر جہاں اپنے ادبی سفر کا اختتام کرتے ہیں آفتاب اقبال شمیم نے وہاں سے آغاز کیا ہے”
آفتاب اقبال شمیم نے فنی و فکری محاسن پر بات کرنا کوئی آسان بات نہیں مگر آپ قارئین کے ساتھ مل کر ہم کسی قدر اُن کے شعری باطن میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُس کےفکری جہان میں داخل ہوتے ہیں

فکری پہلوؤں کی بات آئے تو اس کی فکر کا سب سے نمایاں پہلو انسان دوستی ہے کسی بڑی شخصیت کی روشن خیالی کا پتہ اسکے تصور زن اورطبقاتی شعور کی اظہاریت سے چلتاہے آفتاب اقبال کامخاطب جبرکا شکار حقیقی دنیا کی عورتیں ہیں جنہیں مجبورأ ناپسندیدہ روپ اختیار کرنا پڑا مگر شاعر انہیں ایک ایسا مکمل وجود سمجھ کر مخاطب ہوتا ہے جو فحاشی پر مجبور تو کر دی گئیں مگر جن کی روح مرتی نہیں بلکہ کلام کرتی, چیختی , اپنی انسانی حیثیت اور مختلف instincts پر اصرار کرتی ہے وہ عورت کےمساوی انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے اوراس کاپرچار بھی کرتا ہے
اس کی ایک ایک نظم "پابند شہر کی تین آوارہ لڑکیوں سے اقتباس ” درج ہے جو عورت کے جنسی اور تخلیقی حق پر دلالت کرتا ہے

"نامردی کی حالت میں
یہ سارے رہس دھاری ہیں ڈرامے کی مثلث کے
ہماری مائیں کہتی ہیں
وہاں پورب کے امبر سے کوئی اوتار اُترا تھا
چٹانیں بن گئیں تھیں
دودھ دیتی گائیں جس کے لمس کرنے سے
اسی کے شبد کی تاثیر نے
مجھ کو بنا ڈالا ہے گائے بھی گوالن بھی
یہ کیسا روگ ہے ہنسنے میں رونے کا/میں دھرتی ہوں
میں سب بھوکیں بھگت لیتی ہوں/لیکن سانولے ساون کی باہوں میں سمٹ کر پھیلنے کی پیاس/کیسے فرش کے نیچے
مرے آئے ہوئے اعضا مٹائیں گے

اسی طرح ان ایک اور نظم ایک تبسم ایک آنسو سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں اس نظم میں شاعر منٹو کی طرح ان فاحشہ عورتوں کی حمایت کرتا اور ان کو الفت اور ہمدردی کا حق دار ٹھہراتا ہے

"مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ/یہ تو وہ ہیں جن کے آگے میں ہمیشہ/نیم سجدے میں رہا/میرے سپنوں کو بنفشی شال کی مانند جو بنُتی رہیں/جس کے لمسِ گرم کو کندھوں سے لپٹائے ہوئے
کاٹ لی ہے میں نے یہ سرما کی لمبی رات جیسی زندگی/
جن کی آنکھوں کی تپش اور روشنی سے عمر بھر/”میرے صحراؤں میں ہریالی رہی
مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ
"برتر و بالا ہو جو چاہو کہو
میں تو رو دوں فاحشہ کو فاحشہ کہتے ہوئے”
ایک اقتباس اور نظم” الوداع اے داشتہ” سے
اس سے کہے کہ کون ہو تم، میں تمہیں پہچانتا نہیں
انکار تین بار/بازارِ دشمنان کی شئۓ زر خرید سے/کیا واسطہ مرا
آفتاب اقبال شمیم جیسا شاعر حیرت کے مقام پر ہر گز نہیں وہ حیرتی سوالوں سے بہت آگے کی منزل پر ہے یہ منزل شعور ,آگہی اور انکشاف کی منزل ہے اس منزل پر جگہ جگہ عدم تکمیلت اور انسانی فہم میں gaps ہیں اسی مقام پر اس کی شاعری کے مختلف وجودی شیڈز ابھرتے ہیں.

اُسکی شاعری کا دوسرا اہم ترین پہلو تقدیری جبر ,بےاختیاری اور انسانی نارسائی ہے جو اکثر اوقات شاعر کوفلسفیانہ جھنجھلاہٹ کا شکار کر دیتی وہ انسان اور خالق کے درمیان رازوں کی سر بستگی کو انسان کے مقام اشرف کے لئے ایک چیلنج محسوس کرتا ہے اور عقل رسا کی نارسائی اس کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے اسی نارسائی کا اظہار اس کی ایک نظم "اے ہمیشہ کے زندانیو” میں شدت سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ کیجیے ایک اقتباس

"اک جہاں گیر لمحے کی یلغار میں /راز کے سب حصاروں کو تسخیر کرتے ہوئے/اپنے دل میں اترتے ہوئے/پنجہءِدست سے نوچ لوں /وہ جڑیں جن سے اگتا ہے میری حدوں کا شجر/.۔۔۔ منظرِکرب میں
آ ذرا دیکھ زنداں کی زنجیر کو حالتِ ضرب میں/سُرمگیں آنکھ سے/غصہءِبے بسی کے شرارے نچڑتے ہوئے/اور آہن کے ہونٹوں پہ محشر بپا
جھنجھلائی ہوئی چیخ کا
اور پھر پوچھ خود سے کہ
پاؤں کی جولانیوں کی حدیں ہیں کہاں ”

وہ آج کے انسان, اسکی ذہانت اور اُس کے امکانات سے مایوس نہیں لیکن وہ انہیں وقت کا قیدی تصور کرتا ہے جبھی تو اس کا مکالمہ آج کے انسان سے کم اور فردا نژاد یعنی آنے والی کل کے انسان سے زیادہ ہے

تختہ اُلٹا آمر کا
میناروں سے قدآور دہقانوں نے
آنکھوں کے ، صبحوں کے پرچم کھولے ہیں/وقت اُڑاتا پھرتا ہے
محنت کی خوشبوئیں دن کے معبد میں/کاہن ہے۔۔۔۔ چھ یونگ کوے جس معبد کا
ہر چوٹی پر، ہر گھاٹی میں
سنکھ کدالوں کے بجتے ہیں
اور عقیدت قطرہ قطرہ
گرم ارادے کے ماتھے سے گرتی ہے/دیکھونا ! بینائی کے اس روزن سے/احمق بوڑھے کے بیٹوں نے/کیا تصویر بنائی ہے
نظم لکھی ہے ہریالی کے رنگوں سے/جو ہم عصر ہے فردا کی

"پیاسوں کے لئے ایک نظم” سے اسی فردا نژادسے سےمکالمے کی ایک مثال
اے دل والو!
کچھ چھینٹے شوقِ تغیر کے ہم پر ڈالو/دھڑ پتھر کے متحرک ہوں/ہم وارث تختِ تمنا کے
سانسوں کی حبس حویلی میں، جینا اپنا معمول کریں
آتہمتِ کفر قبول کریں
آبرسیں ٹوٹ کے آنکھوں سے
مرجھائے وقت کی ظلمت کو، سیراب کریں
پھر نشوونما کا شجر اُگے
اِمکان کے فردا زاروں میں
پھر موسم کے میخانے کا در کھل جائے

مذاہب سےآفتاب اقبال شمیم کا بس اتنا سا اختلاف ہےکہ ومذہب میں سوال کی عدم گنجائش کو انسانی فکر. ذہانت اور رسائی کے امکانات سے متصادم تصور کرتا ہے جو انسان کی تمنا کے”دوسرے قدم کی حدوں کے تعین میں نا انصافی کا باعث ہے یاپھر آسلیے کہ مذاہب کی عملی شکلوں نے انسان اور انسانیت پر سدا ستم ڈھائے ہیں چونکہ شاعر ایک نظریاتی انسان ہے وہ ایک طرح کے انسانوں اور دیگرانواع کے انسانوں کےمابین تو کیا انسانوں اور دیوتاؤں کے مابین طاقت اور ذہانت کی بندر بانٹ کے سخت خلاف ہے وہ اتنابہادر اورکلیئر مائنڈڈ ہے کہ دیویوں دیوتاؤں اورخداؤں سے براہ راست "متکا ” لگائے رکھتا ہے. اقتباس ملاحظہ کیجیے نظم ” بے انت کا سپنا” سے

اے خدا! تُو اکائی بھی، لاانتہا بھی، اکیلا بھی ہے اور
انبوہ بھی، زلزلے، آندھیاں، بے حسی۔۔ موت یا نیند
کی بے حسی۔۔ سب کے سب تیرے مظہر ہیں۔۔ تو کیا ہے
اے جاگتوں کے خدا! اے سلگتے اندھیروں کے آقا
تجھے کون سا نام دوں۔۔ تیرے اوراق پہ روشنائی کے
ساتوں سمندر ہیں پھیلے ہوئے
وہم کی روشنی اتنی کم ہے

اے خدا تیرے منشور و آیات کی خیر ہو
کیا یہی آخری جنگ ہے؟
ایک آواز: کھیسان کی سولی ٹوٹ چکی
اب شہر پناہوں کے باہر
چوبی لشکر پھر چوکس ہے
کیا مرکو سیاست کی قوت
پھر جیتے گی
ایک اور نظم "ادنیس….سفر کی قوس پر "اے اقتباس جہاں وہ برہما(جوکہ ایکدریا کانام بھی ہےاور ہندودیو مالا کا سب سے بڑا خدابھی) سے مخاطب ہے

اے برہما! ترےکھیت کےٹھنٹھ کیسےاُگیں / پیاس سے ہانپتا ہے کنواں/ سیپ اوندھا پڑا ہے تہی ہاتھ پر/ کوئی تعویز کا معجزہ / میرے اکڑے ہوئے جسم کو لوچ دے تو چلوں.

جہاں تک آفتاب اقبال کے تصور زماں کا تعلق ہے تو اس کے ہاں وقت کے تصور ایک ایسے مرکزے کی صورت ہے جہاں دائرہ در دائرہ سارے زمانے کائنات کی periphery سے آکر terminate بھی ہوتے ہیں اور originate بھی ہوتے ہیں اس کے ہاں ماضی کی متھ, حال کا ہمزاد اور آنے والی کل کا "فردا نژاد” وقت کی پر کار سے لگے وہ دائرے ہیں جہاں وہ جب جی چاہے جا سکتا ہے اور واپس آ سکتا ہے

یہ آفتاب اقبال شمیم کے فکری دھارے تھے جن سےہمارا گزر ہوا لیکن اگر اس کی نظم نگاری کا فنی جائزہ لینا چاہیں تواس کے لیے ایک کتاب, ایک علیحدہ مقالہ درکار ہے اس مضمون کی تحدید میں رہتےہوئے یہ شاید ممکن نہیں مگر نئی نسل کے لئے جنہوں نے آج تک آفتاب اقبال شمیم کو نہیں پڑھا ان کی دل چسپی کے لیےچند ایک باتیں درج کرنا ضروری ہیں
آفتاب اقبال شمیم خود اپنے تخلیقی عمل اور اپنی نظم نگاری کے ضمن میں کہتے ہیں

"لفظوں کو جوڑنے اور توڑنے کا عمل حرارت پیدا کرتا ہے لیکن اتنی کہ اس سے شب زار معنی میں شمع جلا سکیں ہمارے حواس ان کے اور یہ ہمارے حواس کے محتاج ہیں ہاں اس اعتبار سے قابل قدر ہیں کہ ان میں افکار کی جرآت بھی ہے اور اقرار کی توانائی بھی یہ سچ کی رو کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں یہ ہمارے اندر جڑوں کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور شاخ نطق سے پتیوں کی طرح پھوٹتے ہیں جن میں نصف سچائی کی ہریالی ہوتی ہے انہی لفظوں کی روشنائی سے میں نے یہ نظمیں لکھی ہیں ”
آفتاب اقبال کی نظم تہہ دار ہے اس تہہ داری کے لئے وہ تاریخ ,متھ اپنی اور لفظوں کی حسیات سے کام لیتا ہے وہ ایک مشکل پسند اسلوب اور معنوی کثیر جہتی کا قائل ہے

آس کے ہاں "ملٹی پلیکس” امیجز کی بہتات ہے یہ امیجز اس زمین پر پھیلے ہوئے عناصر فطرت ہیں وہ سمندروں درختوں ہواؤں, جنگلوں سویروں شاموں, دھوپ اور چھاؤں کا رسیا ہے. وہ ان مظاہر کی شعری تجسیم کر کے ان کو بلاغت کے ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہے. اپنی بات کو داستانی انداز سے بیان کرنے کے کے لیے تہذیب, تمدن ,تاریخ , قریبی جغرا فیہ اور دور دراز کی سر زمینوں سے اکتساب کرتے ہوئے قاری کےلیے ایک جہان حیرت تیار کرتا ہے جہاں سوالوں کے طلسم کدے ہیں نامعلوم زمانوں کی نارسائیاں ہیں اورآنے والی کل کے خواب , امید اورامکانات کی روشنیاں ہیں .

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے