fbpx
ادبی کالم

روایت شکن عصمت چغتائی / خالد فتح

بقول عصمت چغتائی وہ چند روایت پسند مسلمان خواتین کے ساتھ ملاقات کر رہی تھی ۔کھانے کے بعد اس نے اپنے بیگ میں سے سگریٹ کی ڈبیا نکال کر سگریٹ سلگایا تو ان خواتین نے گھونگھٹ نکال لیے۔
عصمت چغتائی کا تعلق ایک روایتی مسلم گھرانے سے تو تھا لیکن وہ روایت شکن تھی اور اپنے خاندان کی خواہشوں کے خلاف اس نے یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم مکمل کی۔ جس دور میں عصمت چغتائی نے لکھنا شروع کیا، خواتین فکشن نگار رومانی ادب تخلیق کر رہی تھیں اور عصمت نے اس روایت سے بغاوت کی ۔ وہ اپنے دور میں عورتوں کی سماجی اور جنسی گھٹن کا شعور رکھتی تھی اور یہی اس کے تخلیقی تخیل کا forte تھا ۔
اس کے ہم عصر وہ تخلیق کار تھے جن کا ابھی تک اردو فکشن میں نعم البدل نہیں مل سکا ۔ بطور تخلیق کار وہ کسی بھی طرح ان سے کم نہیں تھی اور اگر جرات اظہار کی بات کی جائے تو وہ شاید بہتیروں کو پیچھے چھوڑ گئی تھی ۔ اس کے ادب کی خصوصیت اس کی ز بان کی کاٹ ہے جو قاری کو بھی کاٹ کر رکھ دیتی تھی ۔ زبان اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے ، عصمت چغتائی نے اسے ہتھیار بنایا ۔
اسے جنس پر لکھتے ہوئے کوئی جھجک نہیں تھی جب کہ زیادہ تر مرد حضرات کے پر جلتے تھے ۔ اس کا ناول ” ٹیڑھی لکیر” اس کی مثال ہے۔ ہمارے ہاں عموماً مصنف کی زندگی سے ہلکی سی مشابہت رکھنے والے فکشن کو فوراً سوانحی کہہ کر اس کی تخلیقی اہمیت کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ویسے سوانحی فکشن کسی حد تک ایک مشکل تر تخلیقی عمل ہے۔ اچھا ادب وہ ہے جو وقت ا ور خلا کی بندشوں سے آزاد ہو۔ یہاں مثالیں دینا مقصود نہیں لیکن ہر دور میں ایسے ادب پارے لکھے گئے جو ہر وقت ہم عصریت رکھتے ہیں۔ عصمت چغتائی کا ” لحاف ” اپنے وقت کے ایک نمائندہ افسانہ تو تھا لیکن اگر آج جائزہ لیا جائے تو وہ ایک غیر اہم فکشن محسوس ہو گا کیوں کہ اس میں ایک طرح کی سطحیت کا سہارا لیا گیا ہے۔ ادب میں سطحی مشاہدات اور ایسے احساسات جو جذبات کو ابھارنے کے بجائے ایک سوالیہ نشان اٹھائیں کہ اس کے بیان کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا ؟
عصمت چغتائی اپنے دور میں ایک توانا تر آواز تھی جس نے استحصال کے زد پر لٹکی ہوئی عورتوں کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی محرومیاں اور مسائل کو قلم کیا۔ آج کا قاری ایسے تمام لکھنے والوں کو نظر انداز کر رہا ہے جو اس کی سوچ کو دعوت مبارزت دے کیوں کہ یہ عدم برداشت کا دور ہے۔
بہت سے پیش روؤں کی طرح عصمت چغتائی کو آج کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ادیب اپنے دور کا مورخ ہوتا ہے ۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے