اردو ادب میں اور غزل کے چمن زار میں جلیل عالی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں اور اردو کے ادب عالیہ کی ایک باوقار اور نامور شخصیت ہیں ۔ پچھلے آٹھ دس سالوں میں ان کے اندر نظم لکھنے کا رجحان اور اچھی نظم کہنے کا ولولہ ان کے قریبی دوست محسوس کر رہے تھے.ان کی شفقت محبت اور رواداری کی بدولت انکے ہاں میرا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے انکی قائم کردہ تنظیم زندہ لوگ کا اجلاس ان کے اپنے گھر میں ہر مہینے منعقد ہوتا تھا جن میں بہترین ادبی مباحث کے علاوہ دوستوں کی نئی تخلیقات کو سنا جاتا . بسا اوقات عالی صاحب سے ان کی نئی نظم کافی یا نعت کی فرمائش کی جاتی تھی ان کی سب سے پہلی نظم جس نے مجھے متاثر بھی کیا اور چونکایا بھی وہ نظم”نگھ ” تھی۔ وہ نظم ان کے تیسرے شعری مجموعے "عرض ہنر سے آگے” میں شامل ہے یہ نظم بہت دلگداز جذبات سے لبریز شفقت پدری پر تھی ایک باپ ہے جو پردیسی بیٹے کا سویٹر پہن کر ایک میٹھی نِگھ(حرارت) محسوس کرتا ہے۔پھر اسی قبیل کی ایک دو اور نظموں نے میرا دل موہ لیا جیسا کہ "حبا آ رہی ہے” اور "دل زادہ”۔سچ تو یہ ہے ان ہی نظموں کی خواندگی کے دوران میں نے عالی محترم کے اندر ایک نرم خو, انسانیت کو توقیر دینےوالے ,جذبات و احساسات کا بھرم رکھنے والے انسان کو محسوس کرنےکے ساتھ ساتھ انہی دنوں جلیل عالی کے نظمیہ امکانات بھی مجھ پر روشن ہو گئے تھے.ان کے حالیہ مجموعہ قلبیہ نے میرے روشن گمان کو یقین میں بدل دیا ہے۔جلیل عالی کی نظم جدید اور روایت کی سرحد پر کھڑی نظر آتی ہے ان کی نظموں کی زبان پر غزل کا اثر ضرور نظر آتا ہے مگر یہ اثر خوشگوار ہے ان کے ہاں موضوعات کی چبھن تو ضرور ہے مگر لفظوں کا کھردرا پن اور زبان کی تلخی نہیں۔
ڈبلیو۔ ایچ۔آوڈن کا خیال ہے کہ ایک شاعر کی پہلی حیثیت اس انسان کی ہے جو زبان سے والہانہ محبت رکھتا ہو۔
"a poet is before any thing else, a person who is passionately in love with language”
جلیل عالی کے ہاں زبان کی محبت اور بڑھوتری ایک established fact ہے غزل ہو یا نظم وہ زبان کی صحت کا نہ صرف خیال رکھتے ہیں بلکہ لسانی تشکیلات ان کی تخلیقات میں موجود ہیں یہ تشکیلات محض لفظی تشکیلات نہیں بلکہ یہ انسان کی esthetic sense پر گہرا اثر ڈالتی ہیں یعنی طبیعیاتی اور مابعدالطبیعیاتی دونوں طرح کی اثر آفرینی کا باعث بنتی ہیں۔ وہ اضافت سے شعوری اجتناب کرتے ہوئے نئی تراکیب اور لفظی ساخت بناتے ہیں کیونکہ اضافت صرف عربی اور فارسی الفاظ سے ہی تشکیل پاسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے زبان سازی میں تحدید پیدا ہوجاتی ہے۔ جبکہ جلیل عالی کا مطمئہ نظر زبان کو وسیع اور حسیں بنانا ہے اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے ۔ وہ پنجابی اور انگریزی کے الفاظ کو حسن استعمال سے اردو زبان کے سٹرکچر اور اسکی محسوسات میں شامل کر دیتے ہیں۔ مثلاً ان کی کتاب قلبیہ کو ہی لیں تو اس کتاب کے اندر مندرجہ ذیل اختراعات کو دیکھا جا سکتا ہے
1) بے اضافتی تراکیب
کرب کابوس،ذوق اشارہ،صوت رنگوں،شور ڈوبےگمبھیر سنسان،رم جنم بوندیں،زتارہ قدم،نور رفتار،دھوپ دھوئی،روپ رنگوں،شوق سانسوں،طرب تمثال،غزل صورت, جبر تالے، لہوہریں،صوت شبنم،سوچ ہریالی،پندار شیشوں،دید شکتی،پیار بھیگی،دہر دریچے وغیرہ
2)بیان میں حروفِ جار یا بعض لفظوں کو حذف کر دینا
سمندر کسی مقناطیسی کشش میں
کنارے کھڑوں سے (کنارے کھڑے ہوؤں سے)ص18
جیسے کسی اجنبی شہر اندر(شہر کے اندر)ص 20
لمحوں بیچ لہو میں اتری(لمحوں کے بیچ)ص22
امید ہارے ( امید کو ہارے ہوئے)ص21
لہو مول تلتے رہیں(لہو کے مول) ص36
اپنی اپنی رتوں اپنی باری رہے(رتوں میں) ص37
دل تہوں بیچ(دل کی تہوں کے بیچ) ص37
کن لمحوں بنایا تھا(لمحوں میں) ص42
کس انگشت جھولے گی(کس انگشت میں) ص47
مرے پٹ کون سے ہاتھوں کھلیں گے(ہاتھوں سے)ص47
کیا کچھ اندروں بدلے(اندروں میں)ص49
سانسوں شماروں(سانسوں کے ساتھ یاسانسوں میں)ص58
لہروں لہلہاؤں(لہروں ساتھ یا لہروں میں) ص 56
دہکتے دل تھلوں سبزے بچھاؤں(دل کے تھلوں میں) ص59
اپنے آشیانے لوٹ آئے ہیں(آشیانے میں)ص93
افق پار کی دید(افق کے پار)ص95
3) لفظ سازی
نظم "الفاظ سے آگے” کے آغاز اور درمیان میں مجہول زبان اختراع کی گئی ہے۔ ص24
سیر پٹری بمعنی جوگنگ ٹریک ص24
توتلے گیت ص25
یہ کیسی پگلتا ہے ص26
یخ بار جاڑا بمعنی برف برساتا سرما۔ ص27
مرے خوابلے چاند تارے کی چنتا کسے۔ ص28
الطاف نامہ۔ ایکسپلینیشن لیٹر جسے لو لیٹر بھی کہتے ہیں۔۔ ص32
لہران کے سنگ(لہراؤ کے ساتھ) ص44
مجہول زبان کی اختراع ص45
حرف دانوں۔ ص54
کبھی دریا کبھی ساحل مناؤں ص56
بھیدلی ضرب سے۔ ص62
شوریلے سناٹے ص67
تلبیستی تمثال۔ ص76
لوٹ قبضوں ص79
لاجوابیت ص85
میکانکی منطق ص88
شہ گلوں مہکے ص92
تختۂ اسود بمعنی بلیک بورڈ ص96
فصلِ نسل ہی سمجھو بمعنی جنریشن گیپ ص99
البیلتے ہو ص100
کبیری وارداتیں ص104
سمندر سیرتے کہسار بمعنی آئیس برگ ص104
نشر آئینے بمعنی ٹی وی سکرین ص105
برق سکرینوں بمعنی ٹی وی سکرینوں ص106
کرونا کار کرونا پھیلانے والاص108
بیانی زاویے۔ اینگلز آف نیریٹو ص112
گلوبی گاؤں۔ گلوبل ولیج ص115
عذابائی سمے۔ عذاب کے دنوں میں ص118
برقی دریچہ۔ ٹی وی سکرین ص119
گلوبی ڈان ص127
دلیلی کوڑیاں لانا ص127
دید شکتی ص136
4)افعال سازی
یلغارتے ص79 ، مسمارتے ص 79 ، تقسیمتا ص 80 ،
تصویرتے ص 95 ، تاثیرتے ص95 ، تحریرتے ص95 ، لکیری ہے ص96 ، البیلتے ص100 ، سمندر سیرتے ص104 ، دہشتیں بازارتی فلمیں ص113 ،ننگ تشہیرتی ص124 حشر برپانا ص 97
5)پنجابی الفاظ
سوچ کلاوے۔ ص31
ٹوٹکے آزمائے۔ ص32
ولگن۔ ص34
بھڑولا بنی توند ص38
اپنے اندر کا بالک جگاوں ص44
کبھی میں کبھی توں ص45
پنج منزلہ برگر ص46
چیستانی عبارت۔ ص54
اکھڑی پکھڑی۔ ص54
بکھیڑا ص84
یارا ص86
ساریاں،دیکھیاں،بھالیاں ص123
جیسی دانش ویسی ٹور ص125
نواں نکور ص125
ڈنگر ڈھور ص126
کالج لیپتی ص 147
ابرِ شعر کی کِن مِن ص154
6) انگریزی الفاظ
سیل سپیکر
نل
بیلینس
امن کا پیکیج
وکٹری اسٹینڈ وغیرہ
مندرجہ بالا جائزہ تو زبان کے حوالے سے تھا جس میں جلیل عالی کی اختراعات کا جائزہ لینا اسے لئے بنتا تھا کہ انہوں نے زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور اس حصے کی قارئین کے ہاں نہ صرف قبولیت ہے بلکہ مقبولیت بھی ہے۔
عالی صاحب کی نظم کا جائزہ لیتے وقت مجھے خلیل جبران کی ایک بات یاد آگئی ہے شاعری کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں.
اب اچھی شاعری کے بارے ہر ایک کا اپنا معیار ہے اور اس کے مکاتیب فکر بھی ہیں
(1)ادب برائے ادب
(2)ادب برائے زندگی
جیسا کہ میں نے اس مضمون کے آغازمیں ذکر کیا کہ عالی کی نظم جدید و قدیم کے سنگم پر کھڑی ہے۔ اسی طرح ہم مندرجہ بالا دو مکاتیبِ فکر کی روشنی میں جلیل عالی کی نظم کو دیکھیں تو یہاں پر بھی وہ مقصدِ زندگی اور ادب برائے فن دونوں کی کڑی شرائط کو پورا کرتے ہیں جدید نظم زیادہ تر introvert مزاج کی ہے۔ اس میں وجودی کرب, باطن کی تلاش, identity crisis, طبیعات و مابعدالطبیعات کے امکانات کی کھوج, انفرادیت پر لاشعوری اصرار وغیرہ ہیں
جبکہ ادب برائےزندگی میں فرد کی معاشرتی شناخت, سماج میں انسان کا رول ,اقدار و تہذ یب کی بازیابی, اجتماعی جہد اور انسان کے اشرف المخلوقاتی آدرش کی مسلسل زمانہ وار تلاش ہے۔
گو کہ عالی صاحب کا غالب رجحان دوسرے مکتبۂ فکر سے ہے مگر ان کی نظم دروں بینی اور باطن کی تلاش سے غافل نہیں . عالی کے موضوعات , شعری قضایہ اور ذہنی رجحانات کاجائزہ لیا جائےتو نظموں کے ماخذات درج ذیل ہیں ۔فرد , معاشرہ سیاست, سماج ، شرفِ انسانیت، سماجی و دلی رشتے ہیں۔
ان کی شاعری کے یہی سارے شیڈز ان کی کتاب قلبیہ میں جا بجا ملتے ہیں۔ انہی چار حوالوں سے ہی عالی صاحب کی نظم کو محسوس کیا جا سکتا ہے فرد اور معاشرے کے حوالے سے عالی صاحب کی سوچ ہر گز آلکسی شاعروں ادیبوں کی طرح اپنی محرومیوں اور نارسائیوں اور کرب کا ذمہ دار آفرینش, مقدور ہے اختیاری اور وجو د کو نہیں دیتے اس سلسلے میں وہ فرد کو کم اور معاشرے کی مجموعی بنتر اور نظام کو زیادہ قصور وار ٹھہراتے ہیں وہ فلسفیانہ اور عقلی انداز سے علت و معلول کے سائنسی نقطہ نظر سے فرد اور معاشرے پر اپنے انتقاد کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ایک دو شعری مثالیں ملاحظہ کیجیے
حرف تقدیر کی آڑ میں / خود کو کتنا بھی/ مجبور و معصوم ٹھہرا کے/ دل کی تسلی کے حیلے کریں / کوئی اندر سے لیکن /برابر یہ کہتا ہے / الزام اپنی خطا کاریوں کا/ کسی اور پر کیوں دھریں
(یہی روشنی ہے ص 40)
عالی کی اس طرز فکر پر فکرِ اقبال کا گہرا اثر ہے اور اقبال جیسا نابغہ ان کا آئیڈیل بھی ہے۔ جس طرح اقبال اُس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی حالت سے نا خوش تھے اور اسلامی تہذیبی شناخت کی بازیابی کے لئے مسلم امہ کو اپنی شاعری کے ذریعے سے یقین دھانی کراتے تھے۔ عالی صاحب بھی اسلامی تہذیبی باز یافت پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کا پہلا مسئلہ انسان کی شرفِ انسانیت کی حیثیت کو تلاش کرنا ہے۔ وہ گلوبلائزیشن اور عالمی استعماری سوچ کے خلاف ہیں وہ کوڈ آف کنڈکٹ میں انسانی مرضی(قومی سطح پر) پر عالمی ڈکٹیشن کے خلاف ہیں
ہم جو چاہیں وہی چال تارے چلیں /کارخانے ہمارے تمہارے چلیں / چار سو اپنے آبرو اشارے چلیں / خا طرح سے دکھائیں زمانے دکھیں / قسط بدوش خوشیوں کے پیکج بکیں /دل تہوں بیچ اک سوگواری رہے/ زندگی نوع انساں پہ بھاری رہے / کھیل جاری رہے ( کھیل جاری رہیں ص37)
عالی کبھی اپنی آنکھ زمانے اور سیاست کی جانب بند کرنا تو دور موند کر بھی نہیں رکھتے وہ ایک باہوش,محب وطن ,غیرت مند , ذمہ دار انسان اور فن کار ہیں۔ یوں وہ بڑے قرینے سے زندگی اور فن توازن سے چلاتے ہیں۔ چند ایک مثالیں دیکھئے
عام میرٹ تو کیا, / ظلم سا ظلم !/ بونوں کی پاور کلب نے یہاں / بیڑیاں جینئس کو بھی پہنا رکھی ہیں / مرے خوابلے چاند تارے کہکشاں چِنتا کسے
(دن بدلتے نہیں۔ ص 28)
جب الوطنی عالی جی کا forte ہے جو انہیں ہمعصروں سے ممتاز کرتا ہے. وہ نہ صرف زوالِ اقدار پر کُڑھتے ہیں بلکہ سستی اور بیکار مصروفیات ترک کر کے باطن میں جھانکنے کاموقع پانے کی دعا کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ جو سیل فون پر/رات دن بے طلب ڈھیر در ڈھیر / "نایاب نکتے” ہمیں نوٹ کروا رہے ہیں / خدا نِل کرے ان کا بیلنس/ کبھی ہو / کہ ہم کوئی پل/ اپنے ہمراہ بھی دو قدم چل سکیں / چند لمحوں تو/اندر کے گھمبیر سُنسان میں / شوق سرگوشیوں کے دیے جل سکیں.
(دن بدلتے نہیں ص 28
حب الوطنی اور سیاست کو ایک ضمن میں شمار کرتے ہوئے انکی نظمیں مینارِ مزاحمت, آواز کا قتل, پلی بار گین, ہم آپ اپنا عذاب ہیں. بہت اہم ہیں
عالی نہ صرف اپنے ذاتی رشتوں کے بارے میں بہت passionate ہیں وہ سماجی رشتوں پر بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں ان کی نفسیات اور جذبات کو سمجھتے ہیں اس سلسلے میں انکی نظم "نتھو نائی” بہت ہی کمال کی نظم ہے جس میں ہمارے زمیں دارہ کلچر کی خرابیوں کی مذمت کی گئی ہے. اچھے بھلے کھاتے پیتے زمیں دار گھرانوں کے افراد غریب پیشہ انسانوں سے مفت کام کرواتے ہیں اور بغیر معاوضہ دیے وعدہ کر کے چلے جاتے اور پھر وہ وعدہ کبھی ایفا نہیں ہوتا نظم سے اقتباس ملاحظہ ہو
اس کا معمول ہے / شیو بنوا کے/ گھنٹوں نہائے گا / حمام کا سارا پانی بہائے گا /آخر پہ یہ کہہ کے جائے گا/ "شاباش نتھو بہت خوب! / انعام بھی تیرا بنتا ہے /لیکن میں جلدی میں بٹوہ نہ لایا /چلو خیر گھر سے خدا بخش کے ہاتھ / پیسے ابھی بھیجتا ہوں ” / مگر آج دن تک / خدا بخش آیا نہ ڈھیلا نہ پائی / دہائی دہائی
(ص38, 39)
اب ہم ان کی طویل نظم "قلبیہ” کی طرف آتے ہیں جس کا تعلق زیادہ تر اس قلبی جراحت سے ہے جو ڈاکٹروں نے تجویز کی۔ ایسی بیماری میں انسان اپنے رب کے اور خود کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ ہسپتال جانے سے لیکر صحت یاب ہونے تک کے مراحل پر مبنی 12 حصوں پر مشتمل خوبصورت جذبات و احساسات سے لبریز, فکر ,مطالعہ کائنات و حیات، دروں بینی, زمانے کی اچھائیوں برائیوں کے تجزیے، اپنی ذات کے تجزیے اور لطیف باطنی تجربات پر مشتمل ایک طویل نظم ہے، جس کا ہر ایک حصہ بذاتِ خود بھی ایک نظم ہے اور طویل نظم کے کل کا جُز بھی ہے۔ اس نظم کے مضامین عالی صاحب کےسالوں جاری مضامین سے زیادہ لطیف اور زیادہ باطنی ہیں۔
چند اقتباسات دیکھیے
کہانی میں سفر کرتی کہانی نے/نیا جو موڑ کاٹا ہے/وہ کیسے عکس میں آئے
زمانوں سے دماغ اندر دھری/ ہر سوچ نے/اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے
(قلبیہ2 ص 133، 134)
مری بے کل نگاہوں میں/ انوکھی دید شکتی ہے
(قلبیہ 3 ص136)
کہیں سے/خود بخود ٹوٹے تعلق/جڑتے جاتے ہیں
مرے بد خواہ!/چل دودِ پشیمانی سے باہر آ / قدم آگے بڑھا/ اس جا/ کوئی بھی تو برو ہو/ پیار کا شہ گل مہکتا ہے
(قلبیہ 4 ص138)
درختوں اور دیواروں سے/ کوئی ماورائی مسکراہٹ/ میرا استقبال کرتی ہے
میں بھٹکی منطقوں والے/عذابوں میں پھنسے ذہنوں کی/ مجبوری سمجھتا ہوں
(قلبیہ 5 ص 139, 140)
گلوبی ڈان نےچاروں طرف/ بارود و قحط و قہر کی/ فصلیں اگائی ہیں
وہ تہذیب و معیشت سے جڑی/ہر چیز کو ملبہ بنا کر/امن کے پیکج پہ/ مہرِ جبر اپنی ثبت کرتا ہے
(قلبیہ 7 ص144, 145)
دل کے آپریشن اور آرام کے دوران ضرور ایک بڑی تبدیلی ان کے خیالات میں آئی ہے۔ یہ تبدیلی اسلوب کی سطح پر بھی ہے اور باطنی و قلبی سطح پر بھی۔ نظم کے بارہ بارہ کے حصے بحر ہزج یعنی مفاعیلن مفاعیلن کی تکرار پر ہیں یہ افاعیل ویسے ہی بہت غنائیت بھرے ہوتے ہیں مگر عالی صاحب کی سلاست اور تخلیقی سچائی نے ان نظموں کے حسن کو دو چند کر دیا ہے۔ اس نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ قلبیہ نظم کی ساری 12 نظموں کا اختتام ان دو لائنوں سے ہوتا ہے جو قلب و نظر کے رشتے کو جوڑتی اور عالی صاحب کے نظمیہ اسلوب کی بتدریج تبدیلی کو بھی ظاہر کرتی ہیں
"مرے سینے کے بکسے میں نہیں
آنکھوں میں میرا دل دھڑکتا ہے”
عالی صاحب کی شاعری کی صفات اور اس کے محاسن کواس مضمون کی تحدید میں بیان کیا جانا ممکن نہ تھا۔ میں صرف "قلبیہ” کی نظموں پر ہی بات کر پائی آپ جب خود ان نظموں کو پڑھیں گے تو ممکن ہے کئی نادر نکات نظر آئیں گے جو شاید اس مختصر مضمون میں بیان کرنے سے رہ گئے ہوں۔ آخر میں انکی کتاب سے میری پسندیدہ نظم کا اقتباس
مرے پیارے بابا کے
دلدار بابا!
ابھی دو ہی دن کا تو ہوں
سو تمھارے مساموں میں
کِھلتی خوشی دیکھ پانے کو
کم کم ہی کُھلتی ہیں آنکھیں مری
پر
تمھاری محبت نہائی دعاؤں کے
شہدوں بھرے سارے الفاظ سُنتا ہوں
سپنوں لدی لوریوں کے چمن زار سے
پھول چنتا ہوں
( دل زادہ ص55)