fbpx
ادبی کالم

تیسری بیٹی تیسری نسل کا استعارہ / نسیم سید

افسانہ : تیسری بیٹی / شہناز شورو

تیسری بیٹی شہنازشورو کی تازہ کہانی بھی ہے اورChanging from ME to WE کا فلسفیانہ نکتٗہ نظربھی۔ میں سے ہم میں تبدیل ہونے کی سوچ فلسفیوں کی نزدیک مساوات کی کلید ہے لہذا اپنے ایک مضمون میں شہناز ’’میں” کی خونخواریت کو رد کرتے ہوئے اس کا منطقی جواز یوں پیش کرتی ہیں کہ’’میں کیا لکھوں، کیا کہوں کہ میں ہوں کیا؟ میں کے بارے میں تو اسی وقت لکھا جاتا ہے جب یہ اعتماد ہوکہ "میں” میں کچھ سچ چھپا ہوا ہے۔ "میں” تو ایک نقطہ ہے۔ سارے لطف، سارےخواب، سارے جذبے، سارے پھول، سارے بچے، سارے وعدے، سارے نقطے، ساری کتا بیں اورسارے اصول اسی "میں” کی خونخواریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔”

’’تیسری بیٹی’’ کی کہانی پڑھتے ہوئے میں اسی "میں” کےوحشت ناک مناظر میں ڈوبتی ابھرتی رہی جو انسان کو ایک سیکنڈ میں بھیڑیئے میں تبدیل کردیتا ہے۔’’تیسری بیٹی” ہمارے لاشعورمیں بسے اس خوف کی کہانی ہے جسے ہمارا ماضی بھوگ چکا ہے مگر ہم جس پر بات کرنے سے گریزکرتے ہیں یا شا ید اپنی چھٹی حس کو ریت میں دبا کے ’’سب اچھا ہے سب کچھ ٹھیک ہے۔” کی طمانیت اوڑھ کے تمامتروحشتی امکانات کو جھٹلا رہے ہیں۔

’’جوبیت گئی سو بیت گئی۔ کہاں ہماری مملکت ِاسلامیہ کہاں وہ کٹے اور ذبح کئے ہوئے انسانوں سے لدی ٹرینیں جو پاکستان سے ہندوستان بھیجی جاتی تھیں اورہندوستان سے پاکستاں آتی تھیں پھربنگلہ دیش بنتے وقت کیسے کیسے خونی مناظردیکھےاوربھول گئے۔ لیکن نفاق پیدا کرنےوالے نفرتوں کا ہزارجوازڈھونڈ لیتے ہیں اورایک خوف ہے جو پیچھا نہیں چھوڑرہا ہے، کوئی آواز ہے جومسلسل جھنجھوڑ رہی ہے کہ یہ نفرتیں،یہ وحشتیں یہ قتل وغارت گری اپنے آپ کوکیا پھرنہیں دہرا سکتی؟ ’’شہنازشورو کی کہانی ہمارے لاشعورمیں بسے اسی خوف کو کھنگالتی ہے اورحقائق کی خوابیدہ لاتعلقی کوجھنجھوڑتی ہے۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں ۔

کہانی میں چارکردارہمارے سماج کی چادر کے چاروں کونوں کو کس طرح تھامے ہیں، کو بڑی مہارت سے اجاگرکیا گیا ہے۔ عذرا خا لہ، حسام ، تمیزالدین اور سردارجی ۔ کہانی میں پہلی ملا قات ہماری عذرا خالا سے ہوتی ہے۔عذرا خالہ کے کردارکے ذریعہ کسی ایک فرد کی شخصیت کا سگھڑاپا دکھانا مقصود نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے دورکے رہن سہن، تہذیب واقداراورروایات کی نمائند گی کررہا ہے۔ وہ دورجواب دھیرے دھیرے ہماے معاشرے کے منظرنامے سے غائب ہورہا ہے اورمحبتیں محدود سے محدود ترہوتی جارہی ہیں۔ خاندان کا تصور، مغرب کی تقلید میں میاں بیوی اوردویا تین بچوں تک محدود ہو رہا ہے۔ عذرا خالہ کا کرداراب سے پہلے کی وہ معاشرتی اقدارہیں جنکا چہرہ دھندلا رہا ہے جن میں سے اکثر کوتو اب ہم بھی بھول چکے ہیں۔ ’’وہ ہر کسی کے دکھ درد کو دل سے محسوس کرتی تھیں۔ کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرتے ہوئے ان کا وہی اصول تھا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔”

آگے پڑھئے:

"پھرخالہ جس طرح چھاچھ پر بچھی مکھن کی سفید تہہ کو ہلکے ہاتھوں سے جمع کرکے چمکدار پیڑہ بنا کر اس کوعلیٰحدہ پانی والے برتن میں ڈال کر رکھتیں وہ منظر بھی خوب ہوتا تھا۔ صبح سے دروازے پرلسی لینے والوں کی قطار لگ جاتی تھی اور خالہ کسی کو مایوس نہیں لوٹاتی تھیں۔”

شہناز شورو اپنی کہانی میں صرف اخلاقی اقدار تک متن کو محدود نہیں رکھتی بلکہ اس دورکی مکمل تصویرپیش کرتی ہے۔ ’’میزپوش سے میزیں ڈھکی ہوتیں، کرسیوں پر انتہائی نفیس کورہوتے، پوری پوری چادروں پہ حسین کشیدہ کاری کی ہوتی ، گویا بچھے ہوئے بسترپہ گلستان کی سجاوٹ کا گمان ہوتا تھا۔ ’’خالہ کا کردار نہ صرف ان محلوں کی یاد دلا رہا ہے جوایک دوسرے کے ہردکھ ہردرد میں شریک ہوتے تھے بلکہ اس دورکے رہن سہن کی تصویرکشی بھی کررہا ہے۔ یہ جزیات نگاری کیوں؟ اس کا جواب شمس الرحمنٰ فاروقی صاحب کے ناول ’’ کئی چاند تھے سرآسماں” کے پاس ہے۔ یعنی کسی ناول یا افسانے میں مکان وزمان کے بدلتے ہوئے معاشرے کی جزیات بھی اہم ہیں۔ موسیقی کے بیان میں سات سروں کی تفصیلات وانفرادیت، قالین کا ذکرکیا تو وہ وہ نام گنا دئے رنگوں کے جو اب ہمارے حافظے سے محوہوچکے ہیں۔

شہنا ز کے اس افسانے میں بھی دو تہذ یبیں بیک وقت انضمام بھی ہورہی ہیں اوریہ اپنا رہن سہن اورطورطریقے بھی بدل رہی ہیں ۔ جب کسی دورکی تصویرکشی منظورہواوروہ بھی کسی خاص مقصد کے تحت تورہن سہن، ملنا جلنا، لباس، مذ ہبی عقاعد سب کوسمیٹ کے سارے رنگوں کو اپنی روشنائی میں گھول کے اس دورکی پینٹنگ بنانی پڑتی ہے۔ شہنازشوروجیسی افسانہ نگارواقف ہے اس نکتہ سےلہذا اس تہذیب کے کسی گوشے یا کسی زاویے سے صرفِ نظر نہیں کیا۔ خالہ ایک انسانیت پسند، تہجد گزارخاتون ہیں لہذا اپنے دونوں بیٹوں کی پرورش میں بھی اسی محبت اسی رواداری اورانہی عقائد کی آبیا ری کرتی ہیں اورانہیں اعلی تعلیم دلا تی ہیں۔ لیکن یہ تفریق و تقسیم کی چنگاری شعلوں میں بدل جائے تو ساری تربیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اورپوری شخصیت نفرت انگیزنعروں میں بدل جاتی ہے۔

انسان کے اندرکا حیوان ایک جست میں کود کے باہر نکل آتا ہے اورمحا فظ بھیڑیوں میں بدل جاتے ہیں۔ عذرا خالہ کی تربیت میں پلا حسام ، اس کا بھائی اوردو دوست نفرت اورانتقام کی لپیٹ میں آتے ہیں تو وحشی جانورکا روپ دھارلیتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ ہم جانتے ہیں، واقف ہیں اوربنگلہ دیش کے قیام کے وقت ان منا ظرکے چشم دید گواہ بھی ہیں لیکن تمام امکانات کی سرگوشیاں سننے کے باوجود اس موضوع پر کسی افسانہ نگار، کسی شاعر، کسی مقررکسی سیاست دان کو فکرمند نہیں دیکھا۔ ایک حساس لکھاری عصرسے ہی جڑا نہیں ہوتا بلکہ آنے والے زمانوں کی وہ دھمک بھی سن لیتا ہے جو زلزلہ بن کے سب کچھ تباہ وبرباد کردینے کا پیغام دے رہی ہو۔ شہنازشورو ایک ایسی ہی کہانی کار ہے جو اپنے عصرسے ہی نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کے کرداربھی سانس لیتے ہیں اسکی کہانیوں میں اوراس کی کہانیاں مستقبل کی پکارپربھی گوش برآواز ہیں۔

کس نفاق نے آستین میں کونسا خنجر چھپایا ہوا ہے؟ اس کی فکر لرزاں ہے، اگروہی سب کچھ ایک بار پھر سندھی اورمہاجر کے فرق کے نام پر دھرایا گیا تو ایک نہیں سیکڑوں ہزا روں حسام جنکا چہرہ اورکردارہم ما ضی میں دیکھ چکے ہیں، ایک بارپھرگلی گلی گھرگھرنظرآئیں گے لہذا شہناز انیس سو سینتالیس کے خونی مناظرکی یاد دہانی کراتی ہے جو آج کے منظر نامے سے کیا مختلف ہو گا۔

"شہر تو یہ چھوٹا تھا اور لوگوں میں قربت بھی تھی، مگرآگ لگےاوربجھانے والا کوئی نہ ہو تو پھر آن کی آن میں چاروں اور پھیل جاتی ہے اور یہی کچھ اس شہر کے ساتھ بھی ہوا۔ مسجد وں سے چند مولویوں نے امن، امن کی اپیلیں کیں مگر بے سود۔ اصل پریشانی تو تن بدن میں آگ لگا دینے والے وحشی نعروں سے ہوئی جنہوں نے تفریق اور نفرت دونوں کو بڑھاوا دیا۔ روزساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے ایک دوسرے سے ڈرنے لگے۔ گلیاں، چوپالیں ویران ہوئیں۔ میں کون، تو کون جیسی اجنبی فضانے پہلے بے گانگی بڑھائی پھر خوف اور آخر میں نفرت۔ لوگوں نے گھروں میں لاٹھیاں ، چھریاں، چاقو رکھنے شروع کر دیے۔ دنگے اور فسادات میں لاشوں کو ذکرعام جام ہونے لگا اور دیکھتے دیکھتے انتشار اور بلوے گھر گھر دستک دینے لگے۔” مسلمان ، ہندو، سکھ سب ایک دوسرے سے اس قدرخوفزدہ کہ ۔اپنی اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کا ہاتھ پکڑا اورانہیں کنویں میں پھینک دیا۔

وحشت کا دوردورہ ہے۔ عبدالغفار اچھا مسلمان ہونے کی شہرت رکھتا ہے لہذٰا گھرچھوڑنے پرمجبورلوگوں نے عبدالغفارکو صادق اورامین سمجھ کے اپنے گھروں کی چا بیاں، قیمتی سامان اورزیورات اس کے پاس اپنا اپنا گھر چھوڑنے سے پہلے رکھوانے شروع کردئے۔ ’’بھائی اسے سنبھالو یہ ہماری عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔ جو رب نے چاہا اور بچ گئے اور واپس آنے کی کوئی سبیل نکلی تو ہماری امانتیں ہمیں واپس کر دینا ورنہ تمہیں حق ہے کہ جیسے چاہو ویسے انہیں استعمال کرو۔ سب کو معلوم تھا کہ عبدالغفار کی ہمدردیاں ہر انسان سے بلا تفریق مذہب تھیں۔ ایک زمانہ سب نے ساتھ گزارا تھا۔ خوشی غمی میں شریک ہوئے تھے۔ کئی کئی نسلوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔’’

اللہ اللہ! کیا منظرکشی ہے! نسلوں سے ساتھ رہنے والی محبتیں اچانک ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوجاتی ہیں سو ایک بار پھرکہانی ہمارے احساس کو جھنجھوڑتی ہے۔ نفرت کا بھوت جب سروں پہ سوارہوتو ’’ہم’’ کے تصورکونگل کے صرف ’’میں’’ کا نشہ دھت کردیتا ہے۔’’لہذٰا عبدالغفارجیسے نیک انسان کوبھی اسی وحشت کے وحشیوں نے مجبورکردیا بھلا وہ ایسے میں کسی کے زیورات کی حفا ظت کیا کرتا جب نفرت کی آگ نے اس کے ہی گھرکو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہو لہذا اسے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اپنی جوان بیوی اور دوبیٹوں کے ساتھ تیل چھڑک کے آگ لگا لے اورسب ایک ساتھ زندہ جل مریں۔ شہنازانسان میں چھپے وحشی جانوراور اس کی وحشت کوتصویر کرتے ہوئے کہانی میں دواورکرداروں کے چہرے دکھاتی ہے۔

تمیزالدین جوکہ انتہائی شریف، صوم وصلوٰت کے پا بند اورمحلے کے نیک ترین انسان مانا جاتا ہے اوردوسرا اس کے پڑوسی سردارجی کا۔ یہ چہرے دکھانا، یہ واقعات یاد دلانا، اس وحشت کی منطرکشی کرنا، ہماری اطمینا ن بھری خوش فہمی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ شہنازشورو اس فرض سے آگا ہ ہے لیکن اس جنون کوسمجھانے کےلئے وہ کہانی کے متن کو وعظ کا انداز عطا کرکے اسے اپنے معیارسے نہیں گرنے دیتی بلکہ ان وحشی مناظرکی تصاویرپینٹ کرتی ہے۔ ان کرداروں کی جن کا چہرہ تاریخ کے اوراق اورہمارے جد کی یاد داشت میں محفوظ ہے۔ جنگیں تہذیب کے آداب، انسانیت کے حقوق، شرافت کے تقاضے، سب کھاجاتی ہیں۔ ایسا ہم نے بارہا دیکھا ہے اورجانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا اگرخدانخواستہ پاکستان میں پھرایک بارلسانی اورنسلی بنیادوں پرخون کی ہولی کھیلی گئ ۔

سردارجی کا تمیزالدین سے گہرا دوستانہ ہے اوراس کی پارسائی اورایمانداری پرسردارجی کو یقین ہے سووہ بہت سوچ بچارکے بعد اپنے پرکھوں کی زمیں چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اورتمیزالدین سے کہتے ہیں، ’’بھائی تمیزالدین یہ میرے بندھے ہاتھ دیکھ۔ گھر تو چھوڑنا ہے پر ان نکی نکی جانوں کو کیسے سنبھال پاؤں گا۔ انسان کی کھال اوڑھے بھیڑئے باہر دانت نکوسے بیٹھے ہیں، دھیوں بھینوں کی لاج بچانا مشکل ہو گئی ہے۔ تو چاچا ہے ان کا۔ بچیاں تیرے سامنے ہی پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں۔ بس اتنے دن ان معصوموں کو سنبھال جب تک میں کہیں کوئی آسرا، کوئی جھگی جھونپڑا کسی جگہ دیکھ لوں۔ میرا گھر بھی تیرے حوالے۔

پرجائی تیری کو اس حال میں کیسے چھوڑوں؟ اسکو کاندھے پر اٹھا کر مارا مارا پھرنا پڑے گا۔ ایک واہگرو اور دوسرا تیرا ہی آسرا ہے۔ سمجھ اپنی جان،متاع، آبرو سب تیری چوکھٹ پر چھوڑے جا رہا ہوں۔۔ زندہ رہا تو آؤں گا ضرور۔” سردارجی نے اپنی تینوں بیٹیاں برسوں سے پڑوس میں رہنے والے اپنے سب سے عزیز، سب سے بھروسے والے دوست کے سپرد کیں اورپناہ کی دعائیں ورد کرتے سرنیہوڑائے نکل گئے کسی پرامن جگہ کی تلاش میں۔ خونی گلیوں میں خنجرلہراتے بھیٹریوں سے کسی طورسردارجی بچ گئے تومہینوں بعد بھائی تمیز الدین کے در پر فقیربن کے لہولہو بدن لئے اپنی بیٹیاں واپس لینے پہنچے۔ نیک، پارسا، بھروسے والے عزیزترین دوست تمیزالدین نے دوبچیاں دیتے ہوئے کہا۔ "دیکھو، سال سے اوپر ہو گیا ہے تمہیں یہاں سے گئے ہوئے۔ ٹھیک ہے نہ۔ اپنی جان پر کھیل کرحفاظت کی ہے میں نے ان کی۔ کھلایا پلایا ہے اتنا وقت میں نے ان کو۔ تو مجھے کیا ملے گا اس کے بدلے۔ تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تین کے بجائے دو دوں گا۔ ان دو کو لے کے جانا ہے تو لے جاؤ۔ تین کے بجائے دو ملیں گی، بات ہے صاف۔”

سردارجی مجبورتھے کیا کرتے سودو بیٹیاں سرجھکا کے لے لیں اورتیسری کو یرغمال رہنے دیا۔

کسی بھی فکشن نگارکے بارے میں ’’بڑا’’ بلکہ ’’عظیم” فکشن نگاراکثرپڑھنے کو ملتا ہے لیکن جب اس کی تخلیق کو کھنگالوتواندازہ ہوتا ہے کہ اس کے قلم کی سچائی اورتوانائی کس مقام پرہے۔ سردارجی اورتمیزالدین کے کردارلکھتے ہوئے اگرکوئی ہمارے معاشرے کا معمولی لکھاری ہوتا تو وہ ان کرداروں کے عقائد ضروربدل دیتا اورہوتا یہ کہ تمیزالدین سردارجی کے پاس اپنی بچیاں چھوڑتے اورسردارجی تمیزالدیں کی نیت میں ڈھل جاتے۔ بھلا ہم کسی مسلمان کواپنی کہانی میں بددیانت ہوتے کیوں دکھائیں؟ ا تنا بڑا جگرا ہمارے پاس کب ہے کہ ہم اپنی نیتوں کو کھنگالیں، اپنے کرداراپنی سوچ اور اپنے عمل کی دھجیاں اڑائیں؟ یہ جگرا تو صرف شہنازشوروجیسے سچے لکھاریوں کے قلم کوہی عطا ہوا ہے قدرت کی طرف سے۔

کہانی پہلو بدلتی ہے لاشعورمیں بسے خوف کی بھنبھنا ہٹ نے شہناز کے قلم کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ سندھ لسانی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ نفرتوں کے خنجرایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، محبتوں والی گلیاں اورمکان نفرتوں کا زہراگل رہے ہیں۔ جونوجوان ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈالے برسوں کے دوست تھے اب ایک دوسرے کی بہنوں پر جھپٹ کے انہیں بے عزت کررہے ہیں۔’’تیسری بیٹی” یعنی تیسری نسل کی بیٹیاں اب بھی اسی وحشت کی، اسی جنون کا شکارہیں جس نے بہترسال پہلے مسلک کی بنیاد پران کا بدن دھجی دھجی کرکے فخرمحسوس کیا تھا۔ اب پھرعذراخالہ جیسے فرشتہ صفتوں کے بچے بھی بھیڑئے بن چکے ہیں، بیٹھک سے کسی سندھی لڑکی کی بے حواس چیخین سنا ئی دے رہی ہیں۔ عذرا خالہ کے بیٹوں اوران کے دوستوں کا اس جرم، اس بے غیرتی پرماں کو جواب ہے۔ "امی آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہاں؟ کیا کر رہے ہیں یہ لوگ ہمارے ساتھ۔”

افسانے میں دواہم نکات اس خوبصورتی سے شہناز نے سموئے ہیں کہ ایک بارپھرشہنازکی فکشن نگاری کودل نے بے ساختہ داد دی۔ دراصل میں دودن تک یہ سوچتی رہی تھی کہ تیسری بیٹی کا عنوان ہی کیوں مناسب لگا شہناز کو؟ میرا ماننا دراصل یہ ہے کہ ایک اچھا لکھاری کوئی عنوان نہ توبے سبب دیتا ہے اپنی کتاب یا کہانی کواورنہ ہی کہانی میں بے وجہ الفاظ کے انبارلگاتا ہے۔ خیر۔۔۔۔۔۔ تو ذہن میں اچانک روشنی کا جھماکا سا ہوا اورجواب آیا۔ تیسری نسل ہے یہ تیسری بیٹی۔ ایک بارپھر دل سے داد نکلی کہ کس طرح پوری داستان کوایک عنوان میں سمیٹ لیا ہے۔ اصل نکتہ، اصل گھبراہٹ، اصل وحشت تو یہی ہے کہ اگرکہیں تاریخ نے ایک بارپھردہرایا خود کو تواب ہماری تیسری نسل کوبھی بہترسال ایک ساتھ رہنے کے باوجود ہم مسلک ہونے کے باوجود ہم وطن ہونے کے باجود وہ سب کچھ پھرہوبہو اسی طرح بھوگنا پڑے گا جوہمارے جد بھوگ چکے ہیں۔ ماضی میں اورآج بھی یعنی دونسلیں گزرجانے کے بعد بھی ایک لڑکی، ایک عورت ہی کوننگا کرکے وحشی بھیڑئے اپنے غصے اورانتقام کا نشانہ بنائینگے جس کا ثبوت آئے دن اخبارات میں چھپنے والی خبریں ہیں ۔

شہنازشورو ایک حساس فکشن رائیٹرہیں، ان کی نگاہیں نظر نہ آنے والی وہ سرحدیں دیکھ رہی ہیں جو لسانی اورنسلی بنیادوں پرتعمیرہورہی ہیں۔ ان کا قلم اس خون کی بو سونگھ رہا ہے جو گلی گلی بہہ سکتا ہے، ان کا وجدان ان خنجروں کو سان لگاتے دیکھ رہا ہے جو شکل صورت، لباس، عقیدہ یا مذہب، سب ایک ہونے کے با وجود ان پراب بھی صرف سندھی اورمہاجرکا لیبل لگا ہوگا۔ یہ معمولی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ کیا پھرہمارے اندرکا وحشی انسان پلک جھپکتے انسانیت کا خول توڑکے باہر نہیں نکل آئے گا اگرفرق وتفریق کی تاریخ نے خود کوتیسری باربھی دہرایا تو؟ یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک گرین ہاؤس افیکٹ جیسی ہی پیشن گوئی ہے جو پورے ما حول کوخونی برسات کے سیلاب میں بہا لے جا نے کی نشاندہی کرہی ہے۔

اس کہانی کو اگر میں ایک مختلف قسم کے ما حولیاتی منظر نامہ کا سائنس فکشن کہوں تو شاید بیجا نہ ہو گا۔ کہانی کا متن جس ہمہ گیریت کا حامل ہے، عنوان نے بھی موضوع کوویسے ہی پوری طرح اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ تیسری بیٹی جو استعارہ ہے تیسری نسل کا۔ وہ تیسری نسل جو پہلی یا پھر دوسری نسل کے بوئے ہوئے نفرتوں کے بیج کی فصل کاٹے گی۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے