fbpx
اُردو ادباُردو نثرنثر پارہ

بے گانگی، جون ایلیا کا انشائیہ

جون ایلیا

"کیا شام بہت اُداس ہے۔ شام، دَروبام اور درختوں اور سمتوں کا ابہام؟”

"ہاں شام بہت اُداس ہے۔ شام، دَروبام اور درختوں اور سمتوں کا ابہام”

"پر ایسا کیوں ہے، ایسا کیوں ہے کہ جب مغرب کا اُفق دہکتا ہے اور دامانِ شفق بھڑکتا ہے جیسے شعلے سے چُنے ہوئے ہوں، جیسے تنور دُھنے ہوئے ہوں اور جب خورشید کا بے کفن جنازہ اُفق میں تازہ تازہ ہے تو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی مِل کے جارہا ہو، جیسے کوئی یاد آرہا ہو، جیسے کوئی جاکے بھول جائے، وعدہ ہو مگر کبھی نہ آئے اور جب دونوں وقت ملتے ہیں تو ہم پر کبھی کبھی ایسی حالت کیوں گزرتی ہے جیسے ہم خود اپنے آپ سے بچھڑ رہے ہوں۔ اپنے آپ سے بچھڑ گئے ہوں؟”

"تم جاننا چاہتے ہو کہ کبھی کبھی ہمیں ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے؟ ایسا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم دن بھر کی رائگانی کے راستوں سے پلٹ کے جب اپنی تھکن کا اندازہ لگاتے ہیں تو اپنے اندر گھٹتے اور گہنا تے چلے جاتے ہیں اور اپنی ذات اور اپنی تھکن کے بیچ ایک بے گانگی پاتے ہیں۔”

"بے گانگی ۔۔۔۔۔ اور اپنی ذات اور اپنی تھکن کے بیچ!”

"ہاں بے گانگی اور اپنی ذات اور اپنی ہی تھکن کے بیچ۔ اور وہ یوں کہ تمھاری دن بھر کی تھکن جو کچھ کماتی ہے اسے تمھاری ذات شام کو ہیچ اور پوچ پاتی ہے۔ تم صبح کی خوش حالتی اور شام کی خود علامتی کے بیچ جو کچھ بھی کرتے ہو اس کا اپنے اندر لمحہ لمحہ تاوان بھرتے ہو۔ تم اس بیچ جو بھی کرکے دکھاتے ہو اس پر پچھتاتے ہو۔ جب تم زبان کھولتے ہو اور بولتے ہو تو اپنے سانسوں کی ترازو میں اپنا گھاٹا تولتے ہو۔ اس لیے کہ تم اپنے منہ میں اپنی زبان نہیں کسی اور کی زبان پاتے ہو ، تم اپنے ہونٹوں سے اپنی آواز کسی اور کی آواز لگاتے ہو۔”

"ہاں بھائی تم نے سچ کہا اور شام کی اس اُداسی میں اپنی دانست ہی کا دُکھ نہیں میرے دل کا دُکھ بھی سہا۔ کوئی بے گانگی سی بے گانگی ہے۔ تم جو تم اور میں جو ہوں میں۔ ہم اپنی اُجڑ گئی ہیں۔ کرنے والے میں اس کی کرت میں بے گانگی، زبان کھولنے والے کے منہ میں اور اس کی زبان میں بے گانگی ، ہونٹوں میں اور آواز میں بے گانگی! پھر تو میں زبان کھولنے والا اور بولنے والا، ہاں، میں کچھ کرکے دکھانے والا اور اپنی کرت میں پچھتانے والا تو مارا گیا۔ ہاں، میں مارا ہی تو گیا۔”

"میرے بھائی تم ہی نہیں ہم میں سے جو بھی ہے وہ مارا گیا، اس لیے کہ ہم میں سے جو بھی ہے وہ دوسروں کی مرضی پر وارا گیا۔ ہمارے ہاتھ تو ہمارے پَر انگلیاں کسی اور کی ہیں اور وہ یوں کہ ہماری انگلیوں نے جب بھی کچھ لکھا تو وہی کچھ لکھا جو اُن سے لکھوایا گیا۔ ہماری انگلیوں میں اور ان کی لکھائی میں بے گانگی ہے۔ ہماری پڑھت میں اور ہماری بینائی میں بے گانگی ہے۔ ہم اس چار سو میں زندہ رکھتے گئے ہیں جس میں ہمیں دوسروں کے لیے سانس لینے ہیں۔ سو، اے بابھائی! اس چار سو کی آرزو جس میں تُو اپنے سینے سے خود اپنے سانس لے سکے۔ کیا میں تجھے ایک واقعہ سناوْں؟”

"ہاں میرے بھائی ضرور سُنا ۔”

"کل مجھے اسماعیل کتب فروش نے بتایا کہ میرا بھائی الیاس مصّوری کرتا ہے۔ وہ پرسوں کبوتر کی تصویر بنا رہا تھا۔ تصویر بنانے کے بعد اس نے اس کے نیچے بائیں طرف اپنا نام لکھا اور پھر تصویر پر ایک نظر ڈالی۔ اب جو دیکھا تو کیا دیکھا کہ وہ کبوتر کی نہیں بلّی کی تصویر ہے۔”

"ایں ! کیا مطلب؟”

"مطلب یہ کہ کبوتر کو بلّی چبا گئی، ہنر مند اور ہنر کی بے گانگی ہنر کو کھاگئی۔”

 

(سسپنس ڈائجسٹ، ستمبر 1989ء)

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے