(اجازت فلم کے کرداروں کی تکون پر گفتگو کرنے والے اہل علم ۔۔جنھیں شائد اس طویل نشست میں کسی لمحے احساس ہوا ہو کہ نشست بھی ایک تکون پر مشتمل ہے ۔۔۔)
ساون کے کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
اور میرے اک خط میں لپٹی رات پڑی ہے
وہ رات بجھا دو
میرا وہ سامان لوٹا دو
یہ کتاب جب میرے ہاتھ میں آئی تو کراچی بھیگا ہوا تھا ۔۔۔ اس کتاب کو کبھی پھوار میں پڑھا اور کبھی تیز بارش میں ۔۔
اور احساس ہوتا رہا کہ یہاں بھی ایک تکون بن گئی ہے ساون ۔۔۔۔اداسی اور اجازت
کراچی کی بارش بالکل ویسی ہی بارش ہو رہی تھی جیسی مہندر اور سدھا کی پانچ سال بعد ہونے والی ملاقات پر اس رات برس رہی تھی ۔۔
کتاب ہاتھ میں لی اور پہلا صفحہ پلٹا ۔۔۔ سدھا ، مہندر اور مایا کی خوبصورت تصویر اپنی طرف پوری مضبوطی سے مجھے کھینچنے میں کامیاب ہو چکی تھی ۔۔۔۔
ذکر ہے ایک محبت بھری تکون کا ۔۔۔ مہندر ، سدھا اور مایا کی محبت کی کہانی ۔۔۔ ادھوری محبت کی کہانی جو 1987 میں ” اجازت ” کے نام سے دنیا کے سامنے آئی ۔۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے سالوں بعد اس فلم ، کہانی ، محبت اور احساسات میں ڈوبی داستان کو تازہ کرنے والے بھی تین ہیں ۔۔۔ اس بار یہ تکون تین دوستوں کی ہے ۔۔۔گل شیر ۔۔۔ ڈاکٹر منزہ اور ڈاکٹر سارا نقوی
جو ساتھ بیٹھے ناشتہ کرتے کرتے ” اجازت ” کی کہانی کو تازہ کر رہے ہیں ۔۔۔
اہل علم کی کیا بات ہے کہ جب وہ دوستوں کی محفل میں عام گفتگو بھی کرتے ہیں تو سیکھنے والے اور سننے والے حیران رہ جاتے ہیں ۔۔
یہ کتاب بھی قاری کو حیرت میں ڈال دے گی تو پھر "اجازت ” ہے ؟
گل شیر بٹ ، ڈاکٹر منزہ اور ڈاکٹر سارہ نقوی سائیں بشیر کے دربار پر ایک ملاقات رکھتے ہیں ۔ ناشتے پر گلزار کی شاعری پر گفتگو کا آغاز ہوتا ہے جو بہت جلد فلم ” اجازت ” تک پہنچ جاتا ہے ۔
پھر گل شیر بٹ صاحب کو یاد آتا ہے کہ انکے پاس ” اجازت کا منظر نامہ ” پڑا ہے ۔
وہ منظر نامہ لاتے ہیں اور انھیں اپنے دوستوں کے سامنے پڑھتے ہیں ۔ یوں قاری نے اگر فلم اجازت دیکھ رکھی ہے تو یادیں تازہ ہونگی اور اگر کوئی اب تک اس ماسٹر پیس کو نہیں دیکھ پایا تو یقینا اسکا دل اجازت کے لئے مچلے گا ۔
جب اجازت کا منظر نامہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور ایک نئے سرے سے اس فلم کی کہانی ، شاعری اور کرداروں پر گفتگو کا آغاز ہوتا ہے تو ایک لمحے کو گمان ہوتا ہے کہ کتاب کا باقی حصہ ” محبت تیرے انجام پر رونا آیا ” کا روپ دھاڑ لے گی ۔
لیکن یہ خیال ، خیال ہی رہا ۔
پہلے نقطہ جو اجازت کی کہانی پر اٹھا وہ یہ تھا کہ قصوروار کون تھا ؟
کسی نہ کسی کردار کو قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کے بعد خود ہی سوچا گیا کہ صاحب قصوروار کوئی نہیں تھا ۔ پھر بھی نتائج نے سبھی کو قصوروار ثابت کردیا
گل شیر بٹ صاحب کی راۓ اس معاملے میں اہم ٹھہری
انکا کہنا تھا ‘
"یاد رہے وہ المیہ بہت بڑا ہوتا ہے جس میں کوئی بھی (سوچ کے اعتبار سے ) ذمہ دار نہ ہو ، پھر بھی ( نتائج کے اعتبار سے ) ذمہ دار ہو "۔
مایا کا کردار سبھی کو مضبوط لگا ، 1987 میں پیش کیا جانے والا یہ کردار آج ” عورت مارچ ” یا فیمینسم کا ایک ابھرتا چہرہ لگتا ہے ۔
سدھا ایک بظاھر روایتی بیوی نظر آنے کے باوجود روایتی نہیں ہے ۔ شوہر کو پرانی محبوبہ کے قریب رہنے کی اجازت دیتی ہے لیکن شوہر کو اپنی عادت ڈالنے کی کوشش بھی کرتی ہے ۔
مہندر ایک ایسا مرد ہے جو کسی سے جسمانی اور ذہنی طور پر بے حد جڑنے کے باوجود اپنی بیوی سے بھی محبت کرنے لگتا ہے ۔
یعنی انسان ایک ہی وقت میں دو لوگوں سے شدت سے محبت کر سکتا ہے ۔
اسلئے ڈاکٹر منزہ کو لگتا ہے کہ
فلم اجازت محبت اور انسانی رشتوں کی مختلف جہتوں پر بنائی گئی ہے ۔
تبھی شادی کے بندھن کے ختم ہو جانے کے باوجود سدھا اور مہندر ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں ایک دوسرے سے محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں ۔
ایک دوسرے کے دل کا حال سنتے ہیں اور تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔
اس تکون کو مایا ایک حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو کر توڑ چکی تھی لیکن پھر وہ آخری لمحات جب اس کہانی کو ایک بار پھر تکون کی شکل دینے والا سدھا کا شوہر ریلوے سٹیشن پہنچ جاتا ہے ۔
گل شیر صاحب ، ڈاکٹر منزہ اور ڈاکٹر سارہ نقوی کی اس تکون ، نشست کا سب سے اہم حصہ گلزار کی شاعری پر تفصیلی گفتگو ہے۔ گلزار کی شاعری جس نے اس فلم میں زندگی کے رنگ نمایاں کردیے ۔۔۔
جس نے محبت کو اظہار کا طریقہ سیکھا دیا ۔
جس نے لمس ، احساس ، قربت ،جدائی اور تڑپ کا مطلب سمجھا دیا ۔
اس نشست کے اختتام پر ایک کسک باقی رہ جاتی ہے ، تشنگی کا عالم ہے ، خواہش ہوتی ہے کہ اہل علم کی یہ تکون قائم رہے اور انسانی زندگی کی مختلف جہتوں اور روپ پر مزید گفتگو ہو ۔
آخر میں ڈاکٹر سارہ کی کہی ایک بات یاد رہ جاتی ہے جو اجازت فلم کے کرداروں کو سمجھنے میں یا سمجھنا تھوڑا مشکل ہے محسوس کرنے کے مدد گار ثابت ہوتی ہے
Sometimes your heart needs time to accept what your mind already knows …give it that time ۔
اس کتاب کی سب سے خاص چیز "ہمت” ہے ۔ وہ فلم جو 1987 سے آج تک سوالات اور اعتراضات کا سامنا کر رہی ہے ۔ لکھاریوں نے اسے موضوع بحث بنایا اور ایک پوری کتاب کی شکل دے دی ۔
اگر یہ سوال کیا جاۓ کہ یہ کتاب قاری کو کیوں پڑھنی چاہیے ؟
تو جواب سادہ سا ہے ۔ اس کتاب میں محبت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی ہے ۔ یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر سامنے والے کا انداز محبت تم جیسا نہیں تو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے محبت نہیں ۔
مجھے لگتا ہے یہ کتاب پڑھ کر آپ اپنی زندگی اور اس میں در پیش حالات کا ایک بار پھر جائزہ لینا چاہیں گے ۔
پھر گلزار کے چاہنے والوں کے لئے یہ ایک ٹریٹ ہے ۔ گلزار کی لکھی نظمیں ۔۔بات کرنے والے گل شیر بٹ ۔۔۔تو صاحب پڑھنا بنتا ہے ۔
یہ کتاب سنگ میل پبلیکشن نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت صرف 900 روپے ہے۔