ننھی کے بابا
بہت کٹھن زندگی تھی ۔۔ بچپن میں اس نے غربت ایسے دیکھی جیسے گھر کا ایک ایسا فرد جو غاعب رہ کر بھی سب سے اہم ہو ۔۔۔ اس غربت کی وجہ سے گھر میں امی ابا کی لڑائی رہتی تھی ، لڑائی کے بعد امی خوب کوسا کرتی کہ غربت کا بیڑا غرق ہو،مگر غربت کا بیڑا نہ پار لگا نہ غرق ہوا ۔۔۔یہ بیڑا اٹھائے وہ جوان ہو گیا تھا ۔
بہ مشکل اس نے میٹرک کیا ، پھر مزدوری ۔۔۔پھر نجی کالج سے بی اے کیا ، پھر مزدوری ۔۔۔اسے ماں باپ نے کہا ایم اے کر لے تو نوکری لگ جائے ، اسنے رو پیٹ کر ایم اے کر لیا ۔۔۔آخر ایک چھوٹے سے ہوٹل میں مینیجر کی نوکری مل گئی ۔۔۔والدین نے شکر ادا کیا ، کیوں کہ بندھی تنخواہ ان کے لئے رحمت تھی ۔۔۔
نوکری کے بعد ماں باپ ابھی سکھ کے عادی نہیں ہوئے تھے کہ ایک سال کے دوران باری باری دونوں چل بسے ۔۔۔
ماں مرنے سے پہلے اسکا رشتہ پکا کر گئی تھی ، شادی کے بعد وہ خوش تھا کہ تنہائی ختم ہوئی ۔۔۔ایک سال بعد مولا نے اولاد سے بھی نواز دیا ۔۔دو بیٹیاں ، مگر کچھ پیچیدگی کی وجہ سے ایک ہی کو گود نصیب ہوئی ۔۔
بچے بولنے لگیں تو پہلا لفظ ماں کہتے ہیں ، مگر ننھی نے بابا بولا ۔۔۔ یہ ننھی اپنے باپ پر اس قدر فدا تھی ، کہ بابا کے گھر آنے کے وقت بے چین ہو کر چھوٹے سے صحن میں لٹو کی طرح پھرتی ، باپ کے آتے ہی ٹانگوں سے لپٹ جاتی ۔۔۔
تھکے ہوئے باب کو دروازے پر بلا ناغہ خوش آمدید کرنے سے اور پھر اس کی انگلی تھام کر صحن میں بچھی چارپائی تک لے جانے سے ننھی کبھی نہ اکتاتی ۔۔۔ ابھی تین سال کی ہی تو تھی ، مگر گلاس میں پانی کے دو گھونٹ بھر لاتی اور بابا کو اپنے ہاتھ سے پلاتی ۔ اگر کبھی غلطی سے ماں پانی لے آتی تو وہ اتنی چیخیں مارتی کہ اسے سمنبھالنا مشکل ہو جاتا، گھنٹوں وہ روتی ، سر اپنا زمین پر مارنے لگتی ، پھر اس میں اتنی طاقت آ جاتی کہ ماں باپ دونوں اسے سمبھالتے پھر کہیں جا کر تھوڑا قابو آتی ۔۔۔ماں تو اس کو چپ کروانےکے بجائے ساتھ ساتھ تھپڑوں کی بوچھاڑ بھی کرتی ،مجال ہے ننھی ڈر جاتی یا سہم جاتی ،آخر وہ اپنا غصّہ پورا نکال کر دم لیتی ، پھر رات بھر سوتے میں ہچکیاں بھرتی رہتی ۔۔۔
ننھی خود طے کرتی تھی کہ بابا کا کون سا کام اپنے ہاتھ سے کرے گی، پھر بابا کی بیوی کو بھی حق نہ ہوتابلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جرات نہ ہوتی کہ ننھی کے کام میں ٹانگ اڑائے ۔۔ اپنی بیٹی کی اس ادا پر وہ فخر محسوس کرتا ” بابا صرف اپنی گڑیا کے ہاتھ سے پانی لیں گے "_یہ سن کر ننھی شرما کر آنکھیں بھینچ لیتی، اور اسکی چھوٹی سی ناک کے ساتھ بھینچی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں بابا کو سب سے پیاری لگتیں ۔۔۔ جب کھانا لگتا ننھی دونوں ہاتھ گالوں میں دبا کر چھوٹی سی ناک چڑھا کر چھوٹے چھوٹے دانت نکالے بابا کو کھانا کھاتے دیکھتی رہتی ۔۔۔
ددھیال میں تو کوئی تھا نہیں ، اور ننھیال والے ننھی کی وجہ سے ملنا چھوڑنے لگے ۔۔ ننھی کو جب غصہ آتا تو وہ ہر شے توڑنے لگتی ، اپنے ماموں زاد کے کھلونے ہوتے یا برتن ۔۔۔ننھی کی ماں خوب زد و کوب کرتی مگر کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔۔۔۔۔ننھی کو ایک قریبی اسکول کی نرسری میں داخل کروایا مگر چند دن بعد ہی ایک بچے کا سر پھاڑ کر ننھی گھر بیٹھ گئی ۔۔۔محلے والوں کے مشورے پر دم درور بھی کروایا مگر ننھی پر تو اس کا بھی اثر نہ ہوا ۔۔اب تو ماں ہر پل پہلی کے بچ جانے اور دوسری کی زندگی کو کوستی ۔۔۔
غربت جاتی نہیں صرف دھوکہ دیتی ہے کہ وہ چلی جائے گی ، مگر جیسے ہی انسان سمجھتا ہے اب حالات ٹھیک ہیں ، وہ مرتے کو مارنے پہنچ جاتی ہے ، لہٰذا غربت ننھی کے بابا کی چوکھٹ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکٹانے لگی ۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل بند ہو گیا ۔۔۔چند مہینے نوکری ڈھونڈنے کے بعد ناکامی پر اس کو دوبارہ مزدوری کرنا پڑی ،اب وہ بیزار تھا ۔۔۔ بیوی نے مدد کرنے کی خاطر ایک قریبی کالونی میں کام شروع کر دیا ۔۔۔وہ ننھی کو اپنے ساتھ ہی کام پر لے جاتی ۔۔۔ننھی اب چار سال کی تھی ۔۔۔مگر کچھ مسلہ تھا جو ماں کو نظر نہیں آتا تھا ، یا شاید دیکھ لینے کی اس میں صلاحیت نہیں تھی ، ننھی کی آنکھوں میں ٹھہراؤ نہیں تھا ، وہ ارام سے اور بچوں کی طرح بیٹھ ہی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ ماں بہت تنگ آگئی، ننھی کی وجہ سے اسے کام سے نکال دیا جاتا ۔
وہ اپنی ہی اولاد سے زچ ہونے لگی تھی” نئی باجی نے بھی کام سے نکال دیا اس چڑیل کی وجہ سے ، کوئی بھی تو اسے رکھنے کو تیار نہیں کہ کسی کے حوالے کر کے کام پر جاؤں ، اور ساتھ لے جاؤں تو یہ اس قدر شور ڈالتی ہے کہ اگلے مجھے نکال باہر کرتے ہیں !!”گھر میں تو تنگ نہیں کرتی ، آرام سے کھیلتی رہتی ہے ، "تو آپ لے جایا کریں نا ساتھ "دماغ ٹھیک ہے ؟ وہاں مزدور لوگ ہوتے ہیں ، وہاں کہاں لے جاؤں "پتہ نہیں جی ، آپ کے سامنے یہ کچھ اور ہوتی ہے ، مگر مجھے تو پاگل کر دیتی ہے "ابھی دونوں میا ں بیوی بات کر رہے تھے کہ ننھی بابا کو ایک کچلا ہوا کیڑا لا کر دکھانے لگی ، اور بولی ” بابا میں نے مارا "
"ارے ، کیوں گڑیا ، یہ ہاتھ سےتھوڑا ہی مارتے ہیں ، چپل سے مار دیتی ؟” ننھی نے چھوٹی سی ناک پھر چڑھا کر بولا ، بابا رات تم پر تھا تو میں نے اٹھا کر ہاتھ میں زور سے مار دیا ۔۔۔”بابا نے اپنی گڑیا کو مسکرا کر دیکھا ، اور نلکے کے نیچےاسکے ہاتھ دھلانے لگا ۔۔۔دن گزرتے گئے ، ایک دن وہ مزدوری سے آیا تو گھٹنے پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گیا ، حسب معمول ننھی پانی صحن میں گراتے ہوے تیز قدموں سے بابا کے پاس پہنچی ۔۔۔وہ پانی لے کر تیزی سے پی گیا ، ننھی پھر بابا کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے ننھے ہاتھوں سے ٹانگیں دبانے لگی ۔ جانتی تھی نا بابا تھک گئے ہوں گے ۔۔
غربت کے سائے میں جوان ہوا شخص زندگی کی دوڑ میں جلد ہار مان لیتا ہے شاید وہ بھی اب شدید اکتا گیا تھا ، روز جب تھک کر گھر آتا تو بات بات کہنے لگتا ، "پتہ نہیںمجھے موت کیوں نہیں آجاتی !””پتہ نہیں میں مرتا کیوں نہیں "بیوی بھی ننھی کو کوستی کہ سب مسائل اس کی وجہ سے ہیں ، میں کام کرتی تو حالات بہتر ہوتے ،پھر رو کر کہتی "ایسے مت کہا کر،ننھی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ہے ، کل مجھے کہتی ہے کہ بابا اگر مرنا چاہتا ہے تو تم کیوں روکتی ہو "یہ سن کر آج بہت دن بعدوہ ایک دم سے قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا ۔۔۔ ننھی اب 6 برس کی ہو گئی تھی ۔بابا کے زخمی پاؤں دباتے ہوئے بولی ” بابا آرام آیا ” وہ گھر میں ایک وقت کی روٹی بھی لانے قابل نہ رہا تھا ، آنکھوں میں بےبسی رچی تھی ، بولا "تیرے بابا کو اب مرنے کے بعد ہی آرام آئے گا "
بیوی نے سنتے ہی رونا شروع کیا ، مت کیا کریں ایسی باتیں ، آج وہ سختی سے بولی تھی ، دوبارہ ننھی کو کوسنے لگی ،چھ برس کی ہو گئی ہے کمبخت ، مار مار کر میری اپنی ہڈیاں دکھ جاتیں ہیں ،نہ سکول جاتی ہے ، نہ کام کرنے دیتی ہے ، مجال ہے ایک سیکنڈ آرام سے بیٹھ جائے ، مشکل سے ایک نیا کام ڈھونڈا تو پہلے ہی دن باجی کے بیٹے کا ہاتھ چبا ڈالا ۔۔۔جانور ہے یہ تو ۔۔۔باجی نے چاول کے کنستر میں ڈالنے کے لئے دوائی منگوائی تھی ، وہ بھی اٹھا لے آئی ۔۔۔اب چھجے پر رکھی ہے ڈاکٹر نے کہا تھا ، یاد کر ، جو نارمل تھی وہ مر گئی ،یہ پاگل اٹک گئی ہے حلق میں ، اسے پاگل خانے ۔۔۔۔””بس ! بس کر دے بس کر دے ، میرا سر پھٹا جا رہا ہے !!اتنا کہنا تھا کہ ایک اڑتا ہوا چھوٹا سا پتھر ماں کے ماتھے پر لگا ، ہائے ہائے یہ کیا کیا منھی نے ۔۔”کمبخت منحوس!یہ کیا” ؟ ” ننھی نے ناک چڑھائی اور ماتھے پر خوب بل ڈال کر بولی ، تم بابا کو تنگ مت کرو ، اسکو درد ہے "ماں تلملا کر اٹھی ، جھاڑو اٹھائی اور لگی ننھی کو پیٹنے ۔۔۔ بابا ہی نے ننھی کو بچایا ، اور اپنے پاس۔۔ سلایا رات ننھی کی آنکھ کھلی تو دیکھا اسکا باباآہستہ آہستہ کہہ رہا تھا ،
” تو ننھی کی وجہ سے کام نہیں کر سکتی ، اور میری ہمت جواب دے چکی ، اب بس ، تو اپنی ماں کی طرف چلی جا ۔۔۔ میں نوکری ڈھونڈ لوں پھر آ جانا ” ۔۔۔ یہ کہتے ہوے اسکی نظر صحن کی پرچھتی پر رکھی بوتل پر پڑی ، ساتھ ہی نظر جھکا کر بیوی سے مخاطب ہوا ” شکر کر ، دونوں بچ جاتیں تو کیسے خرچہ کرتے ؟اور پھر یہ ننھی ہی تو ہے جو مجھے مرنے نہیں دیتی ۔۔۔یاد ہے ، ڈاکٹر نے کہا تھا ایسے بچے زہین ہوا کرتے ہیں ۔۔۔بس چند دنوں کی بات ہے ، اس جمعے تم چلی جانا گاؤں ۔۔۔جیسے ہی نوکری ملی میں تمھیں بلا لوں گا ۔۔۔”
بیوی نے سر جھکا کر ہاں میں ہاں ملا دی ۔۔۔آج ننھی کی اس گھر میں آخری رات تھی ، آج اسکی ماں ننھی کو باپ سے الگ کر دے گی ۔۔۔ ننھی نے وہ دوائی دیکھ رکھی تھی جس کے بارے میں ماں نے بتایا تھا کہ اسکو کھانے والا مر جاتا ہے ۔۔۔چھ سالہ نے فیصلہ کر لیا ۔۔۔ماں پریشان اپنے میکے بات کرنے میں لگی تھی ، ” امی میں کیا کروں ؟ کہاں جاؤں ؟
بھابی کے بچے بھی تو مارتے ہیں ننھی کو ۔۔۔اب بہتر ہو گئی ہے ننھی ۔۔۔۔۔نہیں مارے گی اماں ۔۔۔بات تو سنو ۔۔۔کیا مطلب اماں ، میری کوئی جگہ نہیں آپ کے گھر کیوں کے ننھی ہے میرے ساتھ ؟ ۔۔۔لیکن ۔۔۔۔لیکن اماں بات تو سنو ۔۔۔۔۔۔”
محلے والوں سے کیا گلہ ، جب اسکی اولاد کو سگے رشتے بھی برداشت نہیں کرتے تھے ، سب کہتے تھے ، سایہ ہے تمہاری بیٹی پر ، جو پیدائش کے ساتھ ہی بہن کھا گئی ۔۔۔اسے اب اپنے ذہن پر بیحد دباؤ محسوس ہونے لگا ۔۔۔ اتنے میں صحن سے دھڑم دھرڑم کی آواز آئی ۔۔۔وہ بےبسی اور شدید الجھن میں گرفتار آنسو پونچھتے باہر نکلی اور دیکھا کچھ ٹین کے دبے گرےتھے ۔۔۔ کیا بات ہے منحوس ، کیا چاہیے ؟
ننھی ماتھے پر خوب بل ڈال کر بولی ، وہ والی دوائی ، ماں جھڑک کر بولی ” کیوں کیا کرنا ہے ؟ پینی ہے ؟
ننھی نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ماں نے اپنی گھٹن میں سانس لینی چاہی اورشیشی ننھی کی مٹھی میں تھما کر بولی ، یہ لے ، پی لے ۔۔۔۔ پھر شدید ذہنی تناؤ میں کمرے میں گئی ، چارپائی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی کہ شاید اب کوئی ہوا کا جھونکاآئے مگر چند لمحوں میں اسکی سانس جیسے رکنے لگی ، اپنے شوہر کا خیال آیا
ننھی کے لئے اسکی محبت یاد آئی اور وہ بے ساختہ ننھی کی طرف دوڑی ۔۔۔ننھی کھیل رہی تھی ، دوائی کی شیشی خالی تھی اور اوندھی پڑی تھی
پی لی ننھی ؟؟؟ یا پھینک دی "وہ خوب جھنجھوڑ کر ننھی سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔ تحمل سے جواب آیا پھینک دی ۔۔۔وہ خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں آئی اور چارپائی پر لیٹ گئی ۔۔۔وہ مطمئن نہیں تھی ۔۔۔ جب شوہر گھر آیا ، اس نے سلام تک کا جواب نہ دیا ۔۔۔ننھی تھی نا پوچھنے کو ۔
رات کب کیسے کٹی ، اسے یاد نہیں تھا ، صبح اذانوں کے وقت جب اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا شوہر کے منہ پر جھاگ جمی تھی ، جانے کس پہر وہ فوت ہوا تھا ۔۔۔ اس نے دل پھاڑنے والی چیخ ماری تو آس پڑوس والے جمع ہو گئے ایک نے لاش کو دیکھتے ہی کہا ” صاف صاف زہر کھایا ہے بیچارے نے”بیوی کا بین اور اونچا ہو گیا ۔۔۔ننھی نے ذرا بھی شور نہیں کیا ، بابا کے ہاتھ پاؤں جھاڑے اور گال اور ماتھا چوم کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی ” آرام آ گیا نا بابا "۔۔۔۔۔اتنے آرام سے بابا کو ننھی نے کبھی سوتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔