fbpx
اُردو ادبافسانہ

افسانہ : ضرب / افسانہ نگار : نیلم احمد بشیر

تم مسلوں کی لڑکیاں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘ اروڑہ نے قریشی کو آنکھ مارکر اپنا مدعا سمجھا تے ہوئے کہا ’’کوئی بھی مسلم لڑکی ہو... چلےگی۔‘‘ آخر میں اس نے لقمہ دیا۔

 

چولستان بارڈر پر قائم پاکستانی یونٹ کو اطلاع ملی کہ ہندوستان کی طرف سے کرنل اروڑہ امن کے حوالے سے بارڈر کے کچھ اہم امور پر بات چیت کرنے کے لئے وزٹ پر آ رہے ہیں۔ کافی عرصہ سے بارڈر کے دونوں طرف کے لوگوں کے دل کی بھی یہی آواز تھی اور وہ یہ سوچتے تھے کہ دونوں علاقے ایک جیسے ہی تو ہیں۔ ایک جیسی خشکی، گرمی، اڑتی ہوئی گرم ریت اور بھوک… پھردلوں میں فاصلے کیوں؟ بارڈر کے لوگ مسلسل فاقہ کشی، مفلسی، بدحالی اور بےیقینی کی کیفیت میں جیتے جیتے زندگی کی سرحد پار کر جاتے تھے مگر اس سرحد کو ٹاپ نہ سکتے تھے جو گذشتہ صدی کے نیتاؤں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کھینچ دی تھی۔ یہ خیال کسی کو بھی نہیں آتا تھا کہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں وہ نفرت کے بیچ بو رہے ہیں، کنفیوژن اور عدم استحکام کی فضا چھوڑے چلے جا رہے ہیں اور اب اسی طے شدہ دشمنی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان نہ تو اعتبار اور محبت کی فضا قائم ہو سکی اور نہ ہی امید کی کوئی کرن چمکتی نظر آ تی تھی۔
پاکستانی یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل قریشی نے مہمان کا بھرپور سواگت کیا۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق سفارتی تعلقات اور بظاہر نارمل دوستانہ رویئے تو رکھنا ہی ہوتے ہیں اس لئے چوکی پہ موجود سبھی پاکستانی سٹاف ممبران کرنل مدن اروڑہ کو ہر طرح سے سہولیات دینے اور ان کی مہمان نوازی کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ قابلِ اعتماد سکیورٹی، عزت، پروٹوکول اور دوستانہ ماحول مہیا کرنے کا ہر طرح سے خیال رکھا جانے لگا۔ سبھی خوشگوار موڈ میں تھے۔کرنل اروڑہ نے پاکستانی یونٹ پر پہنچتے ہی بہت خوشی کا اظہار کیا اور ہر سپاہی گرم جوشی کے ساتھ کرنل سے بغل گیر ہوا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی کسی کا دشمن ہی نہیں اورپہلے بھی آپس میں ملتے جلتے رہتے ہیں۔
’’یار قریشی…! مجھے تو یہاں کے کباب کھلاؤ۔ سنا ہے تمہارے علاقے میں کباب بہت اچھے بنتے ہیں۔‘‘ اروڑہ نے فرمائش کی تو کرنل قریشی نے اپنے جوان دوڑا دیئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک کبابیا ان کے سامنے کھڑاتھا۔
’’یہ مہندر گپتا ہے۔ ہمارے ہاں کا بہترین کباب فروش۔‘‘ کرنل قریشی نے دبلے پتلے سانولے رنگ کے منحنی سے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’ارے ہندو کبابیا…؟ بھئی واہ! مزہ آ گیا۔ مہندر لالہ…! تو اتنا ڈرا ہوا کیوں ہے؟ کیوں بھئی کرنل قریشی…! اسے کسی نے مارا وارا تو نہیں؟‘‘ اروڑہ نے سہمے ہوئے مہندر کی طرف اشارہ کر کے ہنستے ہوئے پوچھا۔ پھر وہ مہندر کی طرف دیکھ کر بولا:
’’ہاں مہندر…! کھل کر بتا..ہے کوئی مسئلہ…؟ تو تو میرے اپنے ہی دھرم کا ہے نا…؟‘‘ اروڑہ مذاق مذاق میں قریشی کو بہت کچھ سمجھا گیا۔
’’نہیں صاب…! جب بھی یہ لوگ مجھے اٹھا کے لے آتے ہیں نا تو…. بس میں ڈر جاتا ہوں۔‘‘ مہندر پھیکی پھیکی ہنسی ہنسنے لگا
’’یار مہندر…! کیا کریں، تیرے کباب ہوتے ہی اتنے مزیدار ہیں کہ تمہیں اٹھوانا ہی پڑ تا ہے۔ بھلا اس میں ہمارا کیا قصور؟‘‘ کرنل قریشی نے پیار سے اسے دھپا مارا تو مہندر کی جان میں جان آئی اور وہ کھل کے ہنسنے لگا۔
’’لو کرنل…! بھلا اکیلے کباب کیا مزا دیں گے؟ کچھ اور بھی ہو جائے۔‘‘ اروڑہ نے قریشی کو پانی والا گلاس اٹھا کر دکھاتے ہوئے کہا تو قریشی مسکرانے لگا۔
’’واقعی سرحد کے متنازعہ علاقائی مسائل کو ڈسکس کرتے کرتے انسان کا گلا خشک ہو ہی جاتا ہے۔‘‘ کرنل قریشی نے کہا اور اپنے جوان پھر سے دوڑا دیئے جو جلدی ہی وڈیرے سجاول کے ہاں سے بہترین وہسکی کی ایک بوتل لے آئے۔ انہوں نے یہ پیغام بھی دیا کہ سجاول سائیں نے بھی نئے مہمان کو آنے کی دعوت دی ہے۔ دونوں کرنل گھونٹ گھونٹ پی کر لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایک دوسرے کے علاقے میں مل جل کر رہنے والی ہندو مسلم آبادی کے معاملات اور بہتری کے بارے میں بات چیت کی۔ محبت اور ملائمت سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے وعدے لئے۔ لگتا تھا ہندو پاک کے سبھی مسائل سبھی بے نام، بےوجہ اور بے مقصد ہیں۔ آپس میں اتنی یگانگت ہو تو بھلا دشمنی کی کہاں گنجائش رہ جاتی ہے؟
’’ہم ایک دوسرے کے یار ہیں اور یہی پیغام ہمیں اپنے سماج، اپنے ملکوں کے نیتاؤں اور اپنی جنتا کو پہنچانا چاہئے۔‘‘ شراب کے نشے میں دھت کرنل اروڑہ فرطِ محبت سے کرنل قریشی کا ہاتھ چوم کر بولا۔ قریشی کو بھی اس وقت وہ ایک دوست، ایک ہمدردر اور اپنا اپنا سا لگا۔ جس سے بغض اور دشمنی کی بودوردور تک نہ آ رہی تھی۔
’’ویسے دیکھا جائے تو ہم لوگ ایک جیسے ہی تو ہیں۔ دلوں میں محبت ہو تو ہم قریب کیوں نہیں آ سکتے…؟‘‘ قریشی بھی جھوم کر بولا
’’تو میرا دشمن نہیں، یار ہے یار اروڑے۔‘‘ وہ اروڑہ سے بغلگیر ہو گیا۔
’’کرنل صاحب…! رات بھیگ چکی ہے مگر ابھی آپ نے سونا نہیں کیونکہ آپ کے لئے ہم نے کچھ دل لگی کا سامان بھی کر رکھا ہے یعنی انٹرٹینمنٹ۔‘‘ کرنل قریشی کی مہمان نوازی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
’’شیور شیور… وائی ناٹ۔‘‘ کرنل اروڑہ نے جام کا آخری گھونٹ حلق میں ٹپکاتے ہوئے جواب دیا۔ جواباً کرنل قریشی نے بھی اپنا جام اس کے جام سے ٹکرایا اور چیئرز کہہ کر غٹاغٹ پینے لگا۔
تھوڑی ہی دیر میں دو خوبصورت لڑکیاں روایتی لباس میں آئیں اور راجستھانی رقص پیش کرنے لگیں جن کے ساتھ بجنے والے ڈھول مجیرے اپنے منفرد اور طاقتور دھمک سے ماحول کو مست بنانے لگے۔ فضا میں ایک جادوسا بکھر گیا۔
’’واہ یار کیا بات ہے… مزا آ گیا۔ یہ دونوں لڑکیاں…‘‘ اروڑہ خوبصورت لڑکیوں کے حسن میں کھو گیا۔
’’کون ہیں یہ…؟‘‘ اس نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا
’’یہ لڑکیاں…؟ یہ سلمیٰ اور ستارہ ہیں… ہمارے علاقے کی لوک فنکار رقاصائیں۔ قومی سرمایہ ہیں ہمارا۔‘‘ کرنل قریشی نے جھومتے ہوئے فخر سے بتایا۔
رقاصاؤں نے ہرنیوں جیسی قلانچیں بھریں اور بن میں ہرن کے ناچنے کی ایسی خوبصورت منظر کشی کی کہ مہمان مبہوت ہو کر انہیں تکتا چلا گیا۔ کرنل قریشی دل ہی دل میں سوچنے لگا انڈین مہمان کی اتنی زبردست سیوا کرنے پر یقیناً میری پراگریس رپورٹ تو بہت اچھی بنے گی اور پھر پروموشن بھی کچھ عرصے کی تو بات ہے۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
رقص کا پروگرام ختم ہونے کے بعد بالآخر محفل برخواست ہو گئی۔ ڈیوٹی پر موجود جوان اپنی اپنی بیرکوں میں چلے گئے۔ دونوں کرنل نشے میں مست، اونچی آواز میں ہندوستانی گانا گانے لگا۔ ’’یہ دوستی… ہم نہیں چھوڑیں گے… ساتھ نہ چھوڑیں گے۔‘‘ ایک دوسرے کے ای میل، فون نمبر اور ایڈریس لے لئے گئے۔
’’یار قریشی…! کیا خوبصورت رات ہے؟ ستارہ اور سلمیٰ کی کیا ہی بات ہے۔ مگر ایک آخر فرمائش اگر پوری کر دو تو…تم مسلوں کی لڑکیاں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘ اروڑہ نے قریشی کو آنکھ مارکر اپنا مدعا سمجھا تے ہوئے کہا
’’کوئی بھی مسلم لڑکی ہو… چلےگی۔‘‘ آخر میں اس نے لقمہ دیا۔
یکایک قریشی کو لگا جیسے اس کا سارا نشہ ہرن ہو گیا ہو۔ اس کے پسینے چھوٹنے لگے اور آنکھیں سرخ ہو گئیں۔
’’سالا… باسٹرڈ… ہماری لڑکیاں مانگتا ہے؟‘‘ وہ دل ہی دل میں دانت پیستا ہوا غصے سے بڑبڑایا۔ اسے لگا جیسے تھوڑی ہی دیر پہلے بنائے ہوئے دوست کا بت یکدم بھربھرا کر گر گیا ہو اور وہاں ایک خوفناک، بدصورت، قابل نفرت راکھشس آن کھڑا ہوا ہو۔
’’شیور سر… آپ جائیں کمرے میں ریلیکس کریں… آپ کی اِچھا پوری کر دی جائےگی۔‘‘ اس نے چہرے پر بدستور دوستانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا اور کرنل اروڑہ کو کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔
’’راہول کھنہ…! ادھر آؤ۔‘‘ کرنل قریشی نے اپنی پلٹن کے ایک ہندو سپاہی کو آواز دے کر بلایا۔ جو کمرے سے باہر ڈیوٹی پر تعینات تھا
’’یس سر…!‘‘ راہول تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آ کر سلیوٹ مارکے بولا اور اکڑ کر ہوشیار باش پوزیشن میں کھڑا ہو گیا۔
’’راہول… لڑکی چاہئے… مگر اروڑہ صاحب کی فرمائش ہے کہ صرف ہندو لڑکی ہو۔‘‘ قریشی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولا۔
’’یس سر…! میں ابھی جاتا ہوں… دھندے والیوں کا ٹائم شروع ہو چکا ہوگا۔‘‘ راہول نے ہوشیار باش پوزیشن میں ہی کڑکدار آواز میں جواب دیا اور زور دار سلیوٹ مارکر اسی طرح تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔
دشمن پر کاری ضرب لگانے کے خیال سے کرنل قریشی کی آنکھوں میں انار پھوٹنے لگے اور دل میں ایک عجیب سی ٹھنڈک بھر گئی۔ انہوں نے کھڑکی کا پردہ اٹھا کر باہر جھانکا… ریگستان کی ٹھنڈی رات میں ایک ہرنی زور زور سے قلانچیں بھرتی دور بھاگتی نظر آ رہی تھی۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے