fbpx
اُردو نثرافسانچہ

جوگی بال ناتھ سے اس کے ٹلہ پر ٹاکرہ / صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

اُسی کے پاس سب کچھ ہوتا ہے
جو اپنا سب کچھ لُٹا دے
آنکھوں سے دیکھتے ہو آنکھوں میں دیکھنا شروع کرو !
“تمہارے گھوڑے کے نعل کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائیں گے ۔ ہم نے اپنے بالکے کام پر لگا دئیے ہیں۔ “ بال ناتھ نے میرے کندھے کو تھپتھاتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی “ چلو اتنی دیر چہل قدمی کرتے ہیں ۔بال ناتھ کے ٹلہ کو کُہرے نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور حد نظر چند میٹر رہ گئی تھی۔اتنا کہہ کر بین اُس نے اپنے ہونٹوں سے لگائی اور باؤلی کی راہ ہو لیا۔
میری قوت گویائی جیسے جاتی رہی اُس سے وضاحت کیا مانگتا میں نے بولنے کی کوشش بھی نہیں کی اور اُس کے پیچھے پیچھے باؤلی کنارے بنے بُرج کے اندر جا بیٹھا۔کہیں دور سے میرے ساتھیوں کی آوازیں سُنائی دے رہی تھیں جو گاڑی کے پنکچر شدہ ٹائر کو اُتارنے میں مصروف تھے۔
میرے سامنے گوڑھے سانولے رنگ کے نحیف آدمی کی سیاہ شبیہ  تھی۔خدوخال فاقہ زدہ ، ابروؤں اور داڑھی کے بال گھنے، نگاہ تیکھی اور گہری تھی اور عمر ایسی کہ جس کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ اس کی آواز اتنی دھیمی تھی جو میرے اپنے کانوں میں بھی بڑی مشکل سے پہنچ رہی تھی۔
“اتنے لمبے وقفے بعد آئے ہوکہ اب تمہیں نوجوان درویش بھی نہیں کہا جا سکتا، داڑھی میں اُتری چاندی دیکھنے کہ بعد تو اب میرا بھی “ پیر” کہنے کو من چاہ رہا ہے”۔ بال ناتھ اپنے چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے مجھ سے مخاطب تھا۔
جگت جوگی جی ! پچھلی ملاقات میں تو آپ نے خود کہا تھا جو چیزیں جس حالت میں ہیں اُنہیں ویسے ہی رہنے دو، اُن کو بدلنے کے لئے تردد نہ کرو۔ کیونکہ چیزیں ویسی تبھی تک رہیں گی جب تک تم ویسے ہی رہو گے۔ اگر چیزیں بدصورت نظر آ رہی ہیں تو اپنی آنکھوں کا جائزہ لو۔ چیزوں سے کیا پردے اُتارنے لگ جاتے ہو اپنے آپ سے پردے اُتار و تو چیزوں سے پردے خود بخود اُترنے لگ جائیں گے۔
بہت خوب ! تم محمدی درویشوں کی یہی بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ تم “رسی” کو مضبوطی سے پکڑے رکھتے ہو اور چُوکتے نہیں”۔اُس کے شفقت بھرے چہرے پر مسکراہٹ کے پھیلتے ہی ہوا نے کہرے کو جیسے اُس چھوٹے سے بُرج کے گنبد میں دھکیل دیا اور وہ مسکراہٹ ہی جیسے ایک پردہ بن گئی۔ اور اسی پردے سے دوبارہ اُس کی آواز سُنائی دی ۔
“ تُم آنکھوں سے دیکھتے ہو ، آنکھوں میں نہیں دیکھتے
جب تک آنکھوں میں نہیں دیکھتے یہ نہیں جان پاتے کہ آنکھوں میں سے کون دیکھتا ہے ۔۔۔
کھلی آنکھوں سے اپنی موجودگی کی خاموشی میں اُتر جاؤ اور اپنی بے شکل اور لازوال حقیقت کو محسوس کرو جو تمہاری جسمانی شکل کو متحرک رکھتی ہے۔ اور پھر اُسی بے شکل اور لازوال کو ہر دوسرے انسان اور ہر دوسری مخلوق کے اندر محسوس کرو۔ آنکھ کو شکل سے نکالو تو جدائی کے سب پردے چاک ہونا شروع ہو جائیں اور توحید کے ادراک کا دروازہ کھلنے لگے۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے