fbpx
کہانیاں

سلیوٹ / ربیعہ محبوب

 

"گل آپا ماما کو تو بلوا دیں۔ ”
پلوشہ نے نوکرانی کو آواز دی۔

"بی بی !میں نے دو تین بار تو دروازہ کھٹکھٹایا ہے”۔ سفید بالوں والی ادھیڑ عمر عورت نے وضاحت دیں، ”

وہ جانتی تھی کہ اتنی دیر کیوں ہورہی ہے۔ برتھ ڈے پارٹی تو خجستہ کی تھی جو ان کی کچھ نہیں لگتی ۔ دوسری طرف خجستہ،فریحہ اور سمیر کے میسج پر میسجز آرہے تھے
"مورے اب بس بھی کر دیں "۔ اس نے چڑ کر کہا۔ کیا طوفان مچا رکھا ہے ۔ اور ہزار بار کہا ہے کہ مجھے مورے نہ کہا کرو ۔ پلوشہ کو جب کبھی غصہ آتا تو وہ جان بوجھ کر اپنی ماں سے پشتو میں بات کرتی ۔ کیونکہ وہ پشتونوں اور ان سے جڑی ہر چیز سے نفرت کرتی تھیں۔ خجستہ جو لڑکیوں میں سب سے بڑی تھی آج اس کی برتھ ڈے پارٹی تھی ۔ ایک ماہ بعد اسکی شادی تھی اور اس نے دوبئی چلے جانا تھا۔ سب کزنز نے مل کر اس کے دن کو یادگار بنانے کا سوچا ۔ وہ سب تھے بھی ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے ۔

"میں نے حارث کو بھی انوائیٹ کیا ہے پہلے ہم اس کے فلیٹ سے اسے پک کریں گے
پلوشہ نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔


“کیا واقعی ؟وہ ابھی تک یہی ہے؟ کراچی نہیں گیا
زکیہ بیگم کا چہرہ خوشی سے کھل گیا ں! ابھی اس کا کام ختم نہیں ہوا-اس نے سنجیدگی سے کہا“
” چلو اچھی بات ہے اسی بہانے تمھارے چچا اور پھوپھیاں بھی اسے دیکھ لیں گی -سب کو معلوم ہوجاۓ گی ہماری چوائس -اس نامراد…”وہ ابھی کچھ بولنے ہی والی تھیں کہ پلوشہ نے بات کاٹی "ماما پلیز… ”

وسیع لانج لش لش کررہا تھا -تھیم بہت اچھا سلیکٹ کیا تھا -بلیک اور گولڈن کنٹراسٹ میں ہر چیز لگائ گئ تھی -بلیک صوفوں پر گولڈن کشنز اور سٹینڈ پر بلیک اور گولڈن غبارے بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیے گۓ تھے-دیواروں پرخجستہ کی بلیک اینڈ وائٹ میں آویزاں تھیں-
یہ سارا کمال پھوپھو کی آرٹسٹ بیٹی کا فریحہ کا تھا -لاؤنج کا سارا انٹیریر بدل کہ رکھ دیا-
"ہیپی برتھ ڈے ڈارلنگ! ” پلوشہ نے خجستہ کو زور سے گلے لگایا-

تھینک یو سومچ۔۔۔۔ تم نے تو کہا تھا میں سب سے پہلے آؤں گی اور آئی سب سے لیٹ  ۔ تمھیں پتا ہے ہمیں ڈیکور کرنے میں کتنا مزہ آیا فریحہ نے سب کی دوڑیں لگوائ
-”
"اچھا تو برتھ ڈے گرل نے بھی دوڑیں لگائیں”۔ تو اور کیا یہ لڑکوں کو تو اس کی بات سمجھ ہی نہیں آرہی تھی ۔ میں پھر اس کی ترجمان بنی۔اور تمہیں مزے کی بات بتاؤں ہم نے سب بھاری بھرکم کام مراد سے کروائے”
"صحیح ہے۔اتنی فزیکل ٹریننگ کا کیا فائدہ اگر بہن کی برتھ ڈے پر کرسیاں نہ لگا سکے”
پلوشہ کا یہ جملہ مزاح سے نکل کر طنز کی کیٹیگری میں آ گیا تھا۔ اس کے بعد خجستہ بھی خاموش ہو گئی۔
برتھ ڈے ریفریشمنٹ کے بعد سب اپنے گروپوں میں بٹ گئے۔ صوفوں پر لڑکیاں، چچی،پھوپھیاں اور دادی بیٹھے تھے جبکہ نوجوان لڑکوں کا ٹولہ باہر لان میں بورنگ موضوعات کو چھیڑے بیٹھا تھا۔
"بھائی! آپ نے K SWMC ( کراچی سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کارپوریشن) میں نوکری کے لیے کون سے مضامین پڑھے تھے” سولہ سالہ سمیر نے بہت محبت سے حارث کو مخاطب کیا تھا جو بڑی دیر سے بیزار ہو کر سب کو دیکھ رہا تھا۔
"انوائرمینٹل کیمسٹری” اس نے مختصر سا جواب دینا ہی ضروری سمجھا۔
"میرا بھی فیورٹ سبجیکٹ کیمسٹری ہے”۔ ابھی
وہ ایف ۔ایس۔سی کے بعد میرا کیمسٹری میں ہی جانے کا ارادہ ہے۔اور آپ کو پتہ ہے۔۔۔۔میرے میٹرک میں سب سے ذیادہ مارکس بھی کیمسٹری میں آئے ”
ڈیٹس گڈ”
"آپ کی PSWMC والوں سے آج میٹنگ تھی؟”
فرقان لالا نے پوچھا۔
"جی کچھ دنوں سے ہماری میٹنگز ہو رہی ہیں۔بہت سے معاملات میں ایگریمینٹس ہو گۓ ہیں۔”
"جاب اچھی ہے آپ کی۔اسی بہانے پاکستان کے مختلف شہر گھومنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ ہم ٹیچرز تو ساری زندگی ایک ہی سکول میں گزار دیتے ہیں۔” فرقان لالا نے آہ بھری۔
"یہ ہمارے مراد کی نوکری بھی ایڈوینچرس ہے  ۔ مختلف شہروں میں رینجرز ریگمینٹ پر جاتے رہتے ہیں۔ ابھی اس نے کچھ دیر تک کراچی بھی جانا ہے۔”

حارث نے ایک طنزیہ نگاہ مراد پر ڈالی۔ "ہاں گھومنا پھرنا تو پر لطف ہوتا ہے پر انکے گولز وہی  سوبر سے ہوتے ہیں۔” ایک توقف کے بعد وہ بولا۔ "ویسے ماشااللہ آپ سب کافی ترقی کر چکے ہیں تو مراد کو ایسے خون خرابے والے کام میں کیوں دھکیلا؟”
"یہ خون خرابہ جو ہماری سکیورٹی فورسز کرتی ہیں اگر نہ ہو تو نہ تو ملک میں کوئی فنکشن ہوسکتا ہے اور نہ کوئی میٹنگ۔ ان فیکٹ….. ملک کا اصل کچرا تو ہم ہی باہر نکالتے ہیں۔اور ان لوگوں کو بھی پکڑتے ہیں جو کچرا اٹھانے کے نام پر ملک کو کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں۔  اور کچرا بھی نہیں اٹھا رہے۔” مراد نے حارث کے ساتھ ساتھ کراچی سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بھی آئینہ دکھا دیا۔
"ہاہا”حارث نے زور دار قہقہ لگایا ۔بحث میں خود کو ہارتے دیکھ کر بہت سے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔
"میرے خیال میں ہمیں اندر چلنا چاہیے۔ چاۓ کا وقت ہوگیا ہے ” فرقان لالا نے ماحول کو گرم ہونے سے بچالیا۔
•••••••••••••••••••••••••
یہ لڑائی نیشنل ازم کی لڑائی کب بن گئی کسی کو پتہ ہی نہیں چلا – 27 سال پہلے جب اصغر خان لیاری سے ذکیہ بیگم کو بیاہ کر لائے تو فوری ردعمل کے طور خاندان والوں کی طرف سے مخالفت ہوئی۔ ذکیہ بیگم کو تب زیادہ برا لگا جب انکے دیور نے بھی چھپ کر شادی کی مگر پٹھان لڑکی سے تو خاندان والوں کی طرف سے اتنی مخالفت نہ ہوئی۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکی درمیانی نند کی دیکھی بھالی تھی۔ذکیہ بیگم نے یہ بات ذہن میں بٹھالی۔ 5 سال قبل ذکیہ بیگم کے شوہر اور سسر ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔اسی موقع پر جائیداد کا بٹوارہ ہوا۔ ذکیہ بیگم کو امید تھی کہ جائیداد میں سے زیادہ حصہ اصغر خان کی اولاد کو ملے گا مگر وسیع وعریض جائیداد سب وارثوں میں برابر تقسیم ہوئی۔ پھر 27 سال بعد جب چچا نے اپنے بیٹے مراد کے لئے بھتیجی پلوشہ کا ہاتھ مانگا تو ذکیہ بیگم کی پرانی نفرت دوبارا چنگھاڑنے لگی۔ انھوں نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ پلوشہ کی شادی اپنی بہن کے بیٹے حارث سے کریں گی جو مراد سے ہزار گنا بہتر ہے۔

••••••••••••••••••••
"اتنی اچھی یونیورسٹی سے اتنی اچھی ڈگری لینے کے باوجود یہ لڑکی بےکار بیٹھی ہے۔ سوچ پھر ہوئی نہ پٹھانوں والی۔۔۔۔ لڑکی۔۔ گھر بار۔۔۔۔چار دیواری۔۔۔” حارث ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی خالہ سے پلوشہ کا شکوہ کر رہا تھا۔وہ سب کراچی جا رہے تھے۔
"نہیں ایسی بات نہیں۔میں نے پشاور میں ایک جگہ اپلائی کیا تھا پر سلیکٹ نہیں ہوئی۔تو سوچا کہ کچھ دیر ریسٹ کر لوں” اس نے وضاحت دی
"تو تم ایسے کرو،میرے دوست کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہےکراچی میں۔انھیں آئی ٹی ایکسپرٹس کی ضرورت بھی ہے۔اگر تم کہو تو تمہارے لیے اپلائی کر دوں؟ویسے بھی تم نے اب کراچی ہی آنا ہے۔” حارث نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔
"کیوں نہیں بیٹا!کر دو اپلائی”زکیہ بیگم نے جھٹ سے جواب دیا۔وہ تو واری صدقے جا رہی تھی ۔خصوصا اس کے آخری جملے کی ۔
•••••••••••••••••••
"سب انتظام مکمل ہو چکا ہے۔اور کل یہ کام ہو جائے گا۔میری کزن کنٹرول روم میں ہوتی ہے۔میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔شیراز آج فرسٹ فلور کے کیمروں کو ناکارہ بنا دے گا۔اور بشیر کو میں نے ہدایت کر دی ہے کہ سب باہر جانے والے راستوں کو بند کر دے۔کل 9 بجے dyes کی کھیپ آ رہی ہے۔وہ کیمیکلز بھی ان کے ساتھ ہی آجائیں گے۔اور اپنے باس سے میری میٹنگ ارینج کرو۔مقررہ پیسوں سے ایک روپیہ بھی کم ہوا تو اچھا نہیں ہوگا۔”
حارث اپنے کمرے میں کسی شخص سے فون پر بات کر رہا تھا۔اسی اثناء میں پلوشہ کمرے کے سامنے سے گزری۔
اس نے سب کچھ سن لیا تھا پر سمجھ کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ وہ واپس اپنے کمرے میں پلٹی ۔وہ lucky pen جو حارث نے اسے دیا تھا۔ اسے پہلے ہی وہ وہ تھوڑا strange لگ رہا تھا ۔ اس نے pen کو زور سے پٹخا ۔ کھڑکی میں رکھے پتھر کی مدد لی۔ بہت سی خور دینی تاریں، لینز اور چپس نظر آرہی تھیں جو ساری پلیننگ کا راز کھول رہی تھیں۔ سارا معاملہ اس پر واضح ہو گیا ۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی فوٹیج اس کی نظروں کے سامنے گردش کر رہی تھیں ۔ وہ بے چارے مزدور ، غریب گھرانوں کے اکلوتے کمانے والے، کروڑوں کی سرمایہ کاری، آگ، تباہی، نقصان سب کچھ اس کے ذہن میں گھوم گیا ۔
” کیا کروں ؟ ” اسی لیے حارث اسے کہ رہا تھا کہ کل فیکٹری نہ جانا پکنک پہ چلیں گے۔ وہ پریشانی میں ادھر ادھر چل رہی تھی ۔ اس نے اپنا موبائل اٹھایا۔ مینجر کاشان صدیقی کو مسج کیا” سر! فیکٹری کو خطرہ ہے۔ کل آگ لگا دی جائےگی- پلمبر شیراز اور چوکیدار بشیر ملے ہوئے ہیں ” پر وہ تو آنلائن ہی نہیں تھے۔ اس نے انھیں کال بھی کی
پر انھوں نے ریسو ہی نہ کی ۔
ابھی چند دن ہی تو ہوئے تھے اسے اس فیکٹری میں کام کرتے۔کسی اور سے کوئی بھی رابطہ نہیں تھا ۔ "پولیس کو کال کروں ۔۔” وہ بڑبڑائی۔ پر اسے ان کی سوچ کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں تھی۔ کسی کی نیت پر شک نہیں مگر ایسے معاملات میں بہت سے افسران دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے کارندے بن جاتے ہیں ۔ یکایک اس کے ذہن میں ایک نام گونجا اور اس نے فوراً سے پہلے اس کا نمبر ڈائل کیا ” ہیلو مراد "وہ تیز سانسیں لے رہی تھی۔ ” کیا بات ہے پلوشہ خیریت ”
” میں جس فیکڑی میں کام کرتی ہوں اسے خطرہ ہے ۔ حارث سے۔۔۔۔

” کیا کیسے ؟”
"کل اسے آگ لگادی جائے کی ایک کیمیکل کے ذریعے”
” میں ابھی اپنے کیپٹن کو بتاتا ہوں وہ کرنل صاحب کو اطلاع کریں گے اور مجھے ایک بات بتاو۔۔۔۔”اس کے بعد ایک زوردار چیخ مراد کو سنائی دی ۔
” ہیلو ہیلو پلوشہ۔۔۔۔” حارث کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ اس نے پلوشہ کو زوردار دھکا دیا۔
"کیا کر رہی تھی تم بے وفا "وہ چیخا
"وہ کر رہی تھی جو صحیح ہے” وہ چنگھاڑی
"ابھی میں بتاتا ہوں کیا صحیح ہے اور کیا غلط”اس کی آنکھوں سے انگارے نکل تھے۔ پیسوں کی حوس نے اس کی آنکھوں سے محبت کی چمک چھین لی تھی
"اپنا فون دکھاو” اس نے زبردستی کی تو پلوشہ نے اپنا فون فرش پر دے مارا .فون کے پرزے پرزے ہو چکے تھے ۔
•••••••••••••••••••••••••
” میں کہاں ہوں ؟” اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف اندھیرا تھا ۔ ہاتھ ٹٹولے تو وہ فرش پر گری پڑی تھی۔ اس کی کمر اکڑ چکی تھی اور سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اسے خبر ہی نہیں تھی کہ پچھلے دو دنوں سے وہ اس تہہ خانے میں قید ہے۔ کچھ بھی تو یاد نہیں آرہا تھا اسے .. پس فیکٹری ،وہ غریب چپڑاسی ۔۔ وہ بیوہ عورت جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کام کرتی ہے، وہ تجربہ کار عملہ۔۔۔۔ پلوشہ انھیں سوچوں میں غرق تھی گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔
رینجرز نے جاگیر عرف جگو کے تہہ خانے پر چھاپا مارا تھا۔بہت سے مظلوم، سچ کا ساتھ دینے والوں کو اس نے قید کر رکھا تھا۔ پر رینجرز نے اسے گرفتار کر لیا تھا اور اس کے انڈر گراؤنڈ کام کرنے والے شکنجے میں پھنس چکے تھے۔ پلوشہ کی دی جانے والی معلومات کی مدد سے فیکٹری کو بچا لیا گیا۔ حارث، شیراز، بشیر اور جگو جیسا کچرا سلاخوں کے پیچھے آچکا تھا۔
یکایک کھڑاک سے دروازہ کھلا اور رینجرز پے در پے اندر داخل ہونے لگے۔ انھوں نے پلوشہ کو بھی ریسکیو کیا اور باہر لے آۓ۔ وہ نڈھال اور خالی نظروں سے اپنے اردگرد دیکھنے لگی۔ خاکی یونیفارم پہنے سپاہی اپنی مہم میں مصروف تھے۔ ریگمینٹ 67FF کراچی پر آۓ پشاور کے ونگز کا چاک وچوبند دستہ چاروں طرف موجود تھا۔ پھر ایک آشنا لمس نے اسے آگے بڑھ کر گرنے سے بچا لیا۔
"پلوشہ ! تم ٹھیک ہو؟” اس کے لہجے میں بے پنا دکھ، ہمدردی اور محبت تھی۔
"مراد! فیکٹری؟؟؟” وہ اس وقت سراپا سوال تھی۔
"بچا لیا گیا ہے فیکٹری کو”
اطمینان کی ایک لہر اس کے پورے بدن میں داخل ہوگئی۔ "اٹھو چلو گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔” مراد نے اسے اٹھایا مگر پلوشہ نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر الفاظ دم توڑ چکے تھے۔اس سے بس یہی ہوا کہ اپنے بے جان ہاتھ سے یونیفارم کو سلیوٹ کرے۔
وہ یونیفارم جو درجہ بندی سے آزاد ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ وہ یونیفارم جو ان کی زندگی کی علامت ہے۔ وہ یونیفارم جو ان کی محبت کا حقدار ہے۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے