fbpx
سفر نامہسفری خاکے

سیکرے کور کا فراز اور پیرس کا دل فریب نشیب/ سلمان باسط

سفری خاکے

سفری خاکے

میری آنکھیں اور میرے قدم پہلی بار خوشبوؤں اور خوابوں کے شہر پیرس سے آشنا ہوئے تھے۔ گوتھن برگ سویڈن سے جہاز نے گجر دم اُڑان بھری تھی۔گزری شب کی کچی نیند اور ادھ کھِلے سپنوں کی مُرجھائی کلیوں نے آنکھوں میں سرخ ڈوروں کا جال بچھا رکھا تھا۔ بیچ میں ایمسٹرڈیم کے خپل ائرپورٹ پر دو گھنٹے کے لے اوور کی تھکن بھی شامل تھی۔ پیرس کے چارلس ڈی گال ائرپورٹ پہنچا تو میرے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف پیرس کے مشاعرے کی منتظم،میری میزبان اور معروف شاعرہ سمن شاہ کی فرستادہ محترمہ ناصرہ خان تھیں۔

وہ مجھے لینے ائرپورٹ پہنچی ہوئی تھیں اور جاننا چاہ رہی تھیں کہ میں اس وسیع و عریض ائرپورٹ کے ایف ٹو ٹرمینل کے کس گیٹ کے سامنے موجود ہوں۔ چند لمحوں میں وہ میرے سامنے موجود تھیں۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور میرے لیے پہلے سے بک ہوٹل کے سامنے جا اُترے۔ میں نے کمرے میں سامان رکھا اور اپنے میزبانوں سے شام کو ملنے کا وقت طے کیا تاکہ میں اپنی تھکن اور نیند دونوں کے ساتھ نبردآزما ہو سکوں۔ بستر پر لیٹا ہی تھا کہ میرے بچپن کے دوست پرویز کی کال نے مجھے پھر سے اٹھا کر سیدھا بٹھا دیا۔ “ تُوں کتھے ایں؟” یہ پرویز کا پہلا سوال تھا۔

پرویز اور میں کینٹ پبلک سکول کھاریاں کینٹ میں پانچویں سے دسویں گریڈ تک ایک ساتھ پڑھے تھے۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ بچپن، لڑکپن اور ٹین ایج بِتائی۔ ایک ساتھ کھیلنا، مل کر شرارتیں کرنا اور وقت بچ جانے پر تھوڑا بہت پڑھ بھی لینا ہمارا معمول رہا۔ پھر وقت ہماری مٹھی سے بُھربھری ریت کی طرح پھسلتا چلا گیا۔ اُسے کہیں اور مجھے کہیں لا پٹخا۔ ہمارا رابطہ دھیرے دھیرے منقطع ہو گیا مگر دل میں کِھلے اس من موہنے یار کی محبت کے پھول کبھی نہ مرجھائے۔ وہ طویل عرصے سے لندن میں مقیم تھا اور کہیں سے پیرس میں میری آمد کی بُو سونگھ کرلندن سے یہاں آ پہنچا تھا۔ اب کئی عشروں بعد بچپن کے دوست کی آمد کی اطلاع ملی تو دل کچھ زیادہ ہی زور سے دھڑکا۔

چند منٹوں میں پرویز میرے ہوٹل آ پہنچا۔ بقیہ چند منٹ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر رہ کر صرف کیے۔ پرویز نے مجھے بتائے بغیر میرے میزبانوں کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ اب وہ اپنے مہمان کو مشاعرے سے پہلے بھول جائیں۔ میرے جسم سے تکان اور آنکھوں سے نیند یکسر غائب ہو چکی تھی۔ پرویز نے مجھے ساتھ لیا اور پیرس کی سڑکوں پر گاڑی دوڑانے لگا۔ ایک لبنانی ریستوران سے سیخ کباب، فش اور خستہ فرنچ فرائز کھانے کے بعد ہم دوبارہ پیرس گھومنے لگے۔ پرویز کی تاریخ جیسے دلچسپ مضمون پر دسترس بھی حیرت انگیز تھی۔

وہ پیرس سے بخوبی واقف تھا۔ اس کی بھرپور کوشش تھی کہ پیرس کی کوئی گلی، کوئی کُوچہ میری نظروں سے اوجھل نہ رہ جائے۔ نوٹر ڈیم چرچ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایفل ٹاور، شانزے لیزے اور انقلابِ فرانس کی یادگار دیکھ چکے تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ میرا خیال تھا پرویز اب مجھے ہوٹل واپس لے جائے گا لیکن اس نے کچھ پرانی وضع کی پتھریلی اور نسبتا” تنگ گلیوں پر گاڑی ڈال دی۔ یہ راستے مسلسل بلندی کی طرف جا رہے تھے۔

میرے استفسار کے باوجود پرویز منزل پر پہنچنے سے قبل مجھے کچھ بتانے پر تیار نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہم ایک عظیم الشان چرچ کی عمارت کے سامنے جا رکے۔ دریائے سئین کی سطح سے دو سو میٹر کی بلندی پر استادہ اس چرچ کو سیکرے کور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ چرچ ۱۸۷۵ میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور ۱۹۱۴ میں مکمل ہوا۔ ابھی میں اس چرچ کی عالی شان عمارت کی ہیبت میں گرفتار تھا کہ پرویز نے مجھے ایک اور منظر دکھا کر مبہوت کر دیا۔

چرچ کے فراز کے بالمقابل مسلسل نشیب تھا اور رات کے اس پہر پیرس شہر روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دن کے وقت یہاں سے پچاس کلومیٹر تک کا علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پیرس رات کے ان ثانیوں میں بھی جاگ رہا تھا۔ جھلمل جھلمل روشنیاں شہر پر بھرپور شباب لٹا رہی تھیں۔

حسن نقاب اُلٹ کر پوری آب و تاب کے ساتھ میرے سامنے جلوہ فگن تھا اور میں مبہوت و ششدر کھڑا تھا۔ میں نے ایک بھرپور نظر اس بھرپور رعنائی پر ڈالی اور اس منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ شاید لوگ غلط کہتے ہیں۔ یہ حسن تو کبھی ماند پڑنے والا نہ تھا۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے