fbpx
تبصرہ کتبتراجم

کتاب دَدَہ قورقُود (آذر بائیجان کی مشہور رزمیہ داستان) – کتاب کا تعارف

محقق و مترجم : نجم الدّین احمد

تاریخ کی گرد تلے دب کر صدیوں سے منظرِ عام سے غائب یہ رزمیہ ہے اُوغُوز کا، جو تُرک حکمرانوں سلجوق اور عثمانیہ دونوں کے اسلاف تھے، اور قرونِ وسطیٰ کی ایک نہایت اہم ادبی اور تاریخی دستاویز جسے پہلی بار اُردو میں پیش کِیا جا رہا ہے۔
تُرکوں کے اسلاف اُغُوز کے حماسہ ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ کا مخطوطہ انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی کے شہر ڈرسیڈن کے کتب خانے سے ہینرِچ فریڈرِچ وون ڈِیز نے دریافت کِیا،

جس میں ایک مقدمہ اور بارہ قصائص شامل تھے، اور اُس نے اِس قلمی نسخے کی ایک ناقص نقل حاصل کر کے تپہ گوز کے قِصّے (قِصّہ ہشتم) کے جرمن زبان میں ترجمے کے ہم راہ اِس رزمیے کا پہلا جدید مطالعہ شائع کِیا۔ اِس نسخے کو ’’ڈرسیڈن کا نسخہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعد میں دیگر لوگوں نے بھی اِسی نقل پر کام کِیا لیکن مخطوطے کی پہلی تقلیبِ حرف شائع شدہ شکل ۱۹۱۶ء قلی سلی رفعت استنبول سے ’’کتاب دَدَم قور قُود علی لسانِ طائفۂ اوغوزان‘‘ کے عنوان سے سامنے لایا۔ ۱۹۳۸ء میں اورحان شیک گوکیے نے عربی زبان سے لاطینی حروفِ تہجی میں، جسے اتا تُرک کی اصلاحات کے نتیجے میں ۱۹۲۸ء میں اپنایا گیا تھا، پہلی تحویل حرفی منصہ شہود پر آئی۔
۱۹۵۰ء میں ایٹورے رَوسی نے ویٹی کن لائبریری میں اِس رزمیے کا ایک اَور قلمی نسخہ بعنوان ’’حکایاتِ اُوغُوز نامہ- قضان بیگ وغیری‘‘ دریافت کر لیا، جسے ’’ویٹی کَن کا نسخہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُس نے اِس مخطوطے کا اطالوی زبان میں ترجمہ مع نسخے کی عکسی نقل شائع کِیا۔ لیکن اِس مخطوطے میں قبل ازیں دریافت ہونے والے ڈرسیڈن لائبریری کے نسخے نسبت نصف تعداد میں قِصّے یعنی تعارف اور چھے قصائص شامل تھے: قِصّہ اوّل تا چہارم، قِصّہ ہفتم اور قِصّہ دو از دہم کے کچھ حِصّے۔ تا ہم یہ قلمی نسخہ اِس لحاظ سے اہم تھا کہ یہ ڈرسیڈن کے مکمل مخطوطے کے مبہم ٹکڑوں کی تفسیر کے لیے انمول وسیلہ ثابت ہُوا۔


۲۰۱۸ء میں یک جلدی نسخہ، جسے روایتی طور پر ’’صحرائے ترکمان- گنبد کا نسخہ‘‘ کہا جاتا ہے، دریافت ہونے اور فوراً بعد اشاعت پذیری سے دَدَہ قور قُود کے قلمی نسخوں کا شمار بڑھ گیا۔ اِس مخطوطے کا انکشاف اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ گلستان کے علاقہ گنبد کے رہائشی ولی محمد کھوجہ نے کِیا، جس نے اِسے پرانی کتابوں کی ایک دکان سے اسے خرید کِیا تھا۔ اِس قلمی نسخے کو حاصل کرنے کے بعد ولی محمد کھوجہ نے ترکیہ کی ازمیر آغا یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ترکش ورلڈ سٹڈیز کے ایک پروفیسر متین اکیچی اورپروفیسر یوسف ازمون کو، جنھوں نے ترکی میں شمالی قبرص کی جامعات میں کام کِیا تھا اور اب وہ امریکا میں قیام پذیر ہیں، اِس نایاب مخطوطے پر تحقیق کی غرض سے آگاہ کِیا۔ اندرونی شہادت سے پتا چلتا ہے کہ یہ نسخہ کسی آذر بائیجانی نے انیسویں صدی میں کسی قدیمی نسخے سے نقل کر کے ایران میں قلم بند کِیا تھا۔ اِس مخطوطے میں ستائیس منظوم خطبات (سوئے لاما) اور دو قِصّے (بوئے لاما) شامل ہیں۔
اُغُز قبائل چوبیس قبائل کا ایک مضبوط اتحاد تھا جسے آج ہم وفاق کہہ سکتے ہیں۔ اِس حماسہ کے قصص کا جنم مشرقِ وسطیٰ کے جن علاقوں میں ہوتا ہے وہ اُغُوز کا وطنِ مالوف تھا اور قصائص میں تذکرہ ہونے والے بیشتر مقامات، جہاں اُوغُوز اَبطال اور کفّار میں معرکہ آرائیاں ہوتی ہیں، آج آذر بائیجان یا قرب و جوار میں واقع ہیں۔ سلطنتِ گوک تُرک کے اُوغُوز نے نویں صدی عیسوی میں مغرب کی سمت کوچ کِیا اور خانہ بدوشانہ زندگی ترک کر کے دریائے سیحون کے کناروں پر مستقل بود وباش اختیار کرتے ہُوئے اُنھوں نے دسویں صدی عیسوی تک وہاں اپنی ریاست قائم کر لی۔
اِس رزمیہ کا یہ عنوان، ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ ، بھی نہیں تھا بلکہ اِسے عمومی نام دیا جاتا تھا: اُوغُوز نامہ، جس کے کئی تراجم ’’کتابِ اُوغُوز‘‘ یا ’’دستاویزِ اُوغُوز‘‘ یا ’’قِصّۂِ اُوغُوز‘‘ کے عنوانات سے ہُوئے۔ تمام حقیقی لوک داستانوں کے مانند صدیوں پر محیط طویل مدت کے دوران میں ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ بے شمار لوگوں کی تخلیق معلوم ہوتی ہے۔ اِس کے قصائص قدرے ردّ و بدل کے ساتھ، جو نطقی ادب میں ایک عام بات ہے، مختلف مقامات کے گویّوں کے سینوں میں محفوظ تھے جو اُنھیں مختلف محفلوں میں اپنے اپنے انداز و اسلوب میں الگ الگ کہانیوں یا ایک ہی کل کے اجزا کے طور پر گا کر سناتے چلے آ رہے تھے۔ علاوہ ازیں، اِس کے واضح اشارے بھی موجود ہیں کہ یہ قصائص ہمیشہ اور ہر جگہ اُسی ایک ہی ترتیب میں نہیں پیش کیے گئے جس میں آج ہمارے سامنے ہیں۔ مثلاً کچھ کردار ایک بار موت سے ہم کِنار ہو جانے کے بعد دوبارہ پھر نمودار ہو جاتے ہیں۔ اِس طرح یہ امر بھی بعید از قیاس نہیں کہ اُس زمانے میں اُوغُوز اَبطال کے بارے میں قِصّوں اور گیتوں کا ایک ہجوم ترویج پا رہا تھا جن میں گوّیے بھی اُن میں حسبِ منشا چیزیں شامل کر اور نکال بھی رہے تھے۔ تاریخی شواہد سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی سے دو گویّوں نے بھی یکساں متن نہیں سنائے وہیں یہ گمان بھی غالب ہے کہ کسی بھی مغنّی نے ہر بار اپنا ایک الگ ہی انتخاب سنایا ہو۔ نسبتاً بہت بعد کے عہد میں موجودہ متن کی حتمی صُورت گری کسی قبالہ نویس یا اُغُوز قصائص کے مرتب کنندہ کا کام لگتا ہے، جو خود گویّا نہیں تھا۔ اگر وہ خود مغنّی ہوتا تو اُس کا کام زیادہ متوازن اور زیادہ متتابع ہوتا۔ البتہّ پہلی بار، ممکنہ طور پر، اُوغُوز نامہ چودیں صدی عیسوی کے پہلے رُبع میں مرتب کِیا گیا ہو گا۔ گو یہ بھی قائم کِیا ہُوا محض ایک مفروضہ ہے۔ امکان غالب ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں ساتویں صدی عیسوی کا اصل مخطوطہ کبھی کہیں سے دریافت ہو کر سامنے آ جائے اور اِس امکان سے بھی مفر اختیار نہیں کِیا جا سکتا کہ چودھویں صدی عیسوی ہی میں پہلی دفعہ مرتب کِیا گیا ہو اور قبل ازیں گویائی ادب کی حیثیت ہی رکھتا ہو۔ پس، یہ امر تاامروز اخفاء میں ہے کہ مغنّیوںکے گیتوں کی سب سے پہلی انشاء پردازی کہاں ہُوئی؟ کس یا کن نویسندوں نے اِنھیں سپردِ قلم کِیا؟
اِس رزمیے، ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ کو ترجمہ کرنے کا کام مجھے اکادمی ادبیات پاکستان نے سونپا اور محض ایک ماہ کا قلیل وقت دیا۔ دو دِن میں اِس کا مطالعہ کرنے کے بعد مَیں اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کسی عام کتاب کا ترجمہ نہیں ہے اور خاصا کارِ دُشوار ہے؛ بالخصوص کرداروں اور مقامات کے ناموں کو درست تلفظ کے ساتھ لکھنا سہل نہیں ہو گا۔ اِس کام کے لیے تلفظ کی گوگل سمیت مختلف ویب سائٹس سے کام لیا جا سکتا تھا—- اور لینے کی کوشش بھی کی گئی—- لیکن وہاں دستیاب بیشتر تلفظ سے میں مطمئن نہیں ہُوا۔ تاہم، اِسی تلاش کے دوران میں میرے سامنے اِس حماسہ سے متعلق بہت سا مواد سامنے آیا، جن میں ڈرسیڈن اور ویٹی کَن کتب خانے کے اصل قلمی نسخوں کے قدیم اناطولی تُرک زبان میں منتشر اوراق، جنھیں مَیں نے ڈاؤن لوڈ کر کے یکجا کِیا، فارسی زبان میں کئی تراجم، فارسی اور انگریزی میں لاتعداد مضامین وغیرہم۔ اِس کے ساتھ ساتھ تیسرے مخطوطے ’’صحرائے ترکمان- گنبد کا نسخہ‘‘ کے بارے بھی پتا چلا تو اِس کا اصل نسخہ بھی مغز ماری کے لیے ڈاؤن لوڈ لیا۔ پروفیسر یوسف ازمون کے اِس تیسرے قلمی نسخے کے انگریزی میں کچھ تراجم بھی سامنے آئے۔ یہ ایک پریشان کن مرحلہ تھا کہ وقت بہت ہی قلیل تھا اور کام بہت ہی زیادہ کیوں کہ کسی عام کتاب کا ترجمہ نہیں تھا کہ آپ جلد جلد اوراق پلٹتے چلے جائیں ماسوائے کبھی کبھار بوقتِ ضرورت لغت سے استفادہ کی خاطر ذرّہ برابر وقت صرف کرنے کے۔ قِصّہ مختصر، چوں کہ ۱۹۲۸ء میں نافذ ہونے والی رومن تُرک کے بجائے قدیم اناطولی یا عثمانی (قاموس) تُرک زبان میرے لیے پڑھنا نسبتاً آسان تھا، جو کہ اُردو کے بہت قریب ہیں۔ مثلاً اگر کتاب کے عنوان ہی پر نظر ڈالیں تو بہ آسانی سمجھ میں آ جاتا ہے : دادا قور قُود کی کتاب کہ کتاب اور دادا دونوں اُردو میں مستعمل ہیں اور قور قُود کا مطلب انگریزی ترجمے کا مطالعہ خود بتا دیتا ہے۔ اگرچہ اِن مخطوطوں کے مکمل جملے سمجھنے سے تو مَیں یکسر قاصر رہا لیکن کرداروں اور مقامات کے ناموں کو اپنے ترجمے میں درست ہجوں کے ساتھ لکھنے کا میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ مثلاً فارسی زبان میں تراجم میں بساط کو باسات، قاضلق؍ قاضی لق کو قازلق؍ قازیلیق لکھا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ تُرک اور آذر بائیجانی زبانوں کے حروفِ تہجی اور فقروں کی بنت کے حوالے مختلف اسباق نے میرے کام کا آسان کِیا۔ ان معاملات میں انٹرنیٹ میرے لیے واقعی رحمت ثابت ہُوا، بس شرط تھی قلیل ترین وقت میں اَن تھک اور چوبیس میں سے اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس گھنٹے کی سخت کوشی۔
ایک اور دُشواری، جس کا مجھے سامنا تھا؛ وہ تھی ترجمے کی زبان و اسلوب۔ چُوں کہ ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ صدیوں پرانی ایک لوک داستان ہے اور لوک داستانوں کا اپنا اسلوب اور اپنی خاص زبان ہوتی تھی۔ اگر مَیں اِس ترجمے میں خالص داستانی رنگ برتتا تو آج کے قاری کے لیے بڑی حد تک ناقابلِ فہم ہو جاتی اور اگر آج کی زبان و اسلوب سے کام لیتا تو داستان کی مؤثر انگیزی ختم ہو جاتی؛ یوں یہ دونوں صُورتوں میں ایک بے سود، ناکارہ اور کارِ زیاں و ضیاع ہوتا۔ پس، مَیں نے اِسے ثمر وَر بنانے کے لیے دونوں حدوں کے درمیان رہنے کا فیصلہ کِیا کہ قاری تھوڑی سی ذہنی مشقت اور اُردو لغت کے بہت کم استعمال سے ترجمے سے بخوبی فیض یاب ہو سکتا ہے۔
چوں کہ ازمنۂِ قدیم میں قصص کو گوّیے گا کر سنایا کرتے تھے لہٰذا یہ تمام قصائص بھی اپنی ابتدائی شکل میں دیگر رزمیوں کے مانند منظوم ہیئت میں ہَوں گے۔ بیانیے کا بڑا حِصّہ نثر میں ہے لیکن اکثر مکالمات منظوم ہیں۔ قصائص کا سرسری مطالعہ بھی یہ استنباط کرنے کے لیے کافی ہے دنیا بھر کی لوک داستانوں کی طرح اِن قصائص کا بیشتر حِصّہ بھی بیشتر منظوم تھا لیکن موجودہ صُورت میں ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ شاعری اور نثر کو باہم یکجا کرتی ہے۔
اِس کتاب کے دِیگر زبانوں میں مترجمین کے مانند اُردو میں ترجمہ کرتے ہُوئے شاعرانہ صوتی اثرات کو کماحقہ‘ منتقل کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی۔ اِس کا سب سے بڑا سبب عروض کی پابندی کے باعث اصل متن و تفہیم اور اُن کی ترسیل کی بربادی کا خدشہ تھا۔ اِس کے بجائے، یہ سعی کی گئی کہ مصرعوں کی طوالت یا اختصار سے صرفِ نظر کرتے ہُوئے منظومات کو محض ایک آزادانہ شعری آہنگ کے سپرد کر دیا جائے۔
جب راقم پہلی کتاب ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ کا ترجمہ مکمل کر چکا تو اِس کے ’’صحرائے ترکمان- گنبد کا نسخہ‘‘ کی ، جسے جلد دوم قرار دیا جا رہا ہے، طرف متوجہ ہُوا۔ اِس کے مخصوص حِصّوں کے تراجم پروفیسر یوسف ازمون نے کیے ہیں، جن میں ’’قلعہ قارس کی تسخیر‘‘، ’’قزان کاسات سروں والے اژدر کے ساتھ معرکہ‘‘ اور ’’دلی دون ماز کیسے قزان بنا؟‘‘ مع تعارف شامل ہیں۔ان میں سے اّول الذکر اور مؤخر الذّکر قصائص نہیں ہیں البتہ ثانی الذکر کو قِصّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اوّل الذکر دونوں قزان خان کے خطبے ہیں جن میں وہ ایک یا زائد لوگوں سے مخاطب ہو کر اپنے کارہائے نمایاں اپنی زبانی بتا رہا ہے۔ اِن تراجم کے مطالعے کے بعدذہن میں سب سے پہلا سوال یہی اُٹھتا ہے: کیا یہ واقعی ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ کی جلد دوم ہے؟ اِس کا جواب تعین ہونے کے بعد اور بہت سے سوالات بھی جنم لے سکتے ہیں کیوں کہ نہ صرف اِس کی زبان و اسلوب بلکہ جلد دوم میں فنی محاسن اور وہ سبھاؤ بھی وہ نہیں ڈرسیڈن کے نسخے میں موجود ہیں۔ مثلاً جلد اوّل کا مقدمہ اور بارہ قصائص میں ایک بیان کنندہ ہے جو اِن قصص کو کسی محفل میں کسی حکمران کو سنا رہا ہے، جسے وہ وقتاً فوقتاً ’’اے میرے خان‘‘، ’’اے میرے خان‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور ہر منظوم ٹکڑا گانے یا سنانے سے قبل اِس قسم کا جملہ کہتاہے: ’’آئیے دیکھتے؍سنتے ہیں میرے خان، فلاں (یعنی قزان یا کوئی اَور نام لے کر) نے کیا کہا۔‘‘ پھر جب قِصّے کا اختتام ہوتا ہے تو جشن و ضیافت کے وقت دَدَہ قور قُود اپنے قوپوز لے پہنچ جاتا ہے، جسے بجا کر وہ اُوغُوز کے اَبطال کے شجاعانہ قِصّے سناتا ہے اور آخر میں ٹِیپ کا یہ بند معمولی ترمیم و تحریف کے ساتھ لازماً قرأت کرتا ہے:
’’کہاں ہیں اب وہ اَبطال؟
وہ جو کرتے تھے دعوٰی دھرتی کی مِلک کا؟
لے گئی اجل اور چھپا لیا دھرتی نے اُنھیں
رہی ہے کب کسی کی آخر یہ دنیا؟
دنیا جو ہے آنی جانی
دنیا، کرتی ہے جہاں اجل انتظار آخرش؟‘‘
لیکن اِس کے بجائے ’’قزان کاسات سروں والے اژدر کے ساتھ معرکہ‘‘ والے قِصّے میں نہ تو ایسی بیان کنندہ ہے جو قِصّہ سنا رہا ہو، اور اُس کی عدم موجودگی کی وجہ سے بار بار ’’اے میرے خان‘‘ کا جملہ بھی غائب ہے اور دَدَہ قور قُود کی آمد تو ہوتی ہے لیکن وہ قپوز بجا کر اُغُز کے شجیعوں کے قصائص سناتا ہے نہ مندرجہ ٹیپ کا بند سناتا ہے بلکہ ڈرسیڈن اور ویٹی کَن کے مخطوطہ جات کے قصص کے برعکس دَدَہ قور قُود کا جو قول منقول ہے اُس سے واضح طور پر عیاں ہے کہ وہ اِس موقع پر نہیں کہا گیا بلکہ بہت بعد کا ہے جب قزان اِس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ پھر پہلی جلد کے تمام قِصّوں کے آخر میں حاکم وقت کے روبرو قصائص سنانے والا گوّیا دَدَہ قور قُود کی آواز بنا کر جو دعائیں، مثال کے طور پر ’’ تم اجل کے وقت اپنا ایمان نہ کھوؤ۔ اللّٰہ عزّ و جل کبھی تمھیںکسی قُرم ساق کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے۔ ہم نے پانچ الفاظ کی دعا کی ہے۔ یہ قبولیت پائے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں ’’آمین، آمین‘‘ اللّٰہ کے دیدار سے مشرف ہَوں۔ وہ تمھارے گناہ بخش دے حضرت محمد مصطفٰےﷺ کے وسیلے سے—- ہو ثنا خوانی اُنؐ کے نام کی—- اے میرے خان۔‘‘ بھی مفقود ہیں۔
مزید برآں، ’’قلعہ قارس کی تسخیر‘‘، اور ’’دلی دون ماز کیسے قزان بنا؟‘‘ کے مطالعے سے یہ واضح گمان گزرتا ہے کہ جیسے یہ دونوں قِصّے دو از دہم میںقزان کی کفّار سامنے منظوم ڈینگوں کا تسلسل ہیں یا پھر بعد کے کسی انشاء پرداز نے اُن سے اخذ کر کے اختراع کِیا ہے کیوں کہ یہ دونوں قِصّوں کی صُورت میں نہیں بلکہ قزان کی زبانی ہی کسی کے سامنے، غالباً قارئین کے سامنے، بیان کیے گئے ہیں۔ نیز، ’’دلی دون ماز کیسے قزان بنا؟‘‘ نثری نظم کی صُورت میں ہے جب کہ جلد اوّل کی تمام منظومات عروض کی تمام پابندیوں کے مقفیٰ و مرصّع شاعری میں ہیں۔ مثال کے طور پر مندرجہ بالا ترجمہ شدہ اشعار کے اصل اشعار بطور نمونہ ملاحظہ کیجیے:
غازی ارنلر باشنہ نہ کلد و کین سویلدی
امدی قنی دیدکم بک ارنلر دنیا منم دینلر
اجل الدی یرکز لدی
فانی دنیا کمہ قالدی کلملی
کید ملی دنیا صوک او جی اولملی
دنیا اجل کلد و کندہ اری ایماندہ ایر مسون
راقم کی پوری سعی رہی کہ کسی طرح جلد کے تمام ستائیس سوئے لاما انگریزی ترجمے میں مل جائیں تاکہ یہ کتاب ہر لحاظ سے مکمل ہو سکے۔ مَیں نے اِس سلسلے میں پروفیسر یوسف ازمون سے بھی بذریعہ ای میل کئی مرتبہ رابطہ کِیا اور اُن سے باقی چھبیس (کہ ایک کا ترجمہ کتاب ہذا میں شامل ہے) کے تراجم کے بارے میں دریافت کِیا لیکن اُن کا کہنا تھا کہ کام کافی پیچیدہ ہے اور متن میں بہت کچھ درست ہونے والا بھی ہے، جس پر وہ کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تراجم دستیاب نہیں ہیں، البتّہ جیسے ہی کتاب اشاعت پذیر ہُوئی وہ مجھے اطلاع کر دیں گے۔
تاہم، راقم نے تمام ترجمے کو دل جمعی اور محنت سے کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ رزمیہ شاید صرف تُرکوں اور آذر بائیجانیوں کا نہیں بلکہ تمام مسلم اُمّہ کا ہے۔ اِس سے ہمیں نہ صرف مسلمانوں کی جدوجہد کی معلومات بہم فراہم ہوتی ہیں بلکہ تاریخ کی بہت سی گتھیاں بھی کھلتی ہیں۔

بہاول نگر
ستمبر ۲۷، ۲۰۲۲ء

*********

کتاب : کتابِ دَدہ گُرگود (آذر بائیجان کی مشہور رزمیہ داستان)

مترجم : نجم الدّین احمد

پہلی اشاعت : اکتوبر 2022ء

پبلیشر : اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد

*******

ترجمہ نگار کا تعارف:

نجم الدّین احمد  افسانہ نگار، ناول نویس اور مترجم ہیں۔ آپ کا تعلق بہاول نگر سے ہے۔  2 جون 1971ء کو بہاول نگر ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے تعلیم حاصل کی۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ طبع زاد تحریروں میں 3 ناول، 2 افسانوی مجموعے اورتراجم کی سات سے زائد کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔

نمایاں تراجم میں سلیم شہزاد کے سرائیکی ناول "پلوتا” کا ترجمہ،  نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں، فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)، ہاروکی موراکامی کا ناول "کافکا بر لبِ ساحل”، اَولگا توکارچُک کی منتخب کہانیاں اور کتابِ دَدہ گُرگود (آذر بائیجان کی مشہور رزمیہ داستان) شامل ہیں۔ "فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)” پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے "محمد حسن عسکری ایوارڈ برائے سال 2019ء دیا گیا۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کی جاسکتا ہے۔

najam341@gmail.com

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے