fbpx
تبصرہ کتب

اپنی محفل سے مت نکال ہمیں (Never Let Me Go ) اور ڈِسٹوپیین ناول

قیصر نذیر خاورؔ

یہ مضمون بنیادی طور پر نوبیل انعام یافتہ ادیب کازوْاو اشیگورو (Kazuo Ishiguro) کے ناول ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں ‘ (Never Let Me Go ) اور اس جیسے دوسرے کچھ ڈِسٹوپیین (dystopian) ناولوں کے تقابل پر مبنی ہے ۔ لیکن ، اس سے پہلے کہ میں بات آگے بڑھاؤں یہ جاننا کہ ڈِسٹوپیین ناول یا ادب کیا ہوتا ہے ، ہمیں اردو کے قارئین کی سہولت کے لیے یہ بتانا بنیادی طور پر اہم ہے کہ ناول یا ادب ’ڈِسٹوپین‘ کیوں کہلایا جاتا ہے ۔ قارئین نے شاید ’ یوٹوپیا (Utopia) کا لفظ سن رکھا ہو گا جس کا اردو مترادف اردو لغات میں ’ مثالی یا خیالی ریاست ‘ بیان کیا جاتا ہے ۔ ویسے یہ لفظ یا اصطلاح برطانوی سر ٹامس مور ( 1478ء ۔ 1535ء)سے جڑی ہے جس نے اپنی ایک کتاب کا نام ہی ’یوٹوپیا ‘ رکھا تھا جو 1516ء میں سامنے آئی تھی ؛ یہ کتاب ایک ایسے فرضی سماج یا ریاست کے بارے میں تھی جو اس نے جنوبی بحر اوقیانوس میں جنوبی امریکہ سے پرے ایک فرضی جزیرے میں کھڑی کی تھی اور اس میں معاشی ، انتظامی اور عدلی سطح پر مساوات ہی مساوات تھی ؛ اس میں شہریوں کو ہر لحاظ سے کامل برابری کے حقوق حاصل تھے۔اور اگر مزید پیچھے جائیں تو اس لفظ کا تعلق قبل از مسیح کے قدیم یونان اور شاید افلاطون سے جا کر جڑتا ہے ۔ اردو کی لغات میں اسے ’ ’مثالی ‘یا ’خیالی ‘ریاست کہا گیا ہے ۔

               

ڈِسٹوپیا (Dystopia) یوٹوپیا (Utopia) کا متضاد ہے ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اردو بولنے والے ، اردو لکھنے والے ، اس کی لغات مرتب کرنے والے ’ یوٹوپیا‘ کا متبادل تو بنا پائے لیکن’ ڈِسٹوپیا ‘کا یک لفظی تو کیا دو یا تین لفظی متبادل نہ بنا پائے حالانکہ یہ لفظ یا اصطلاح ہمارے انگریز آقاؤں کے ہاں پہلی بار 1818ء میں برطانوی فلسفی، قانون دان اور سماجی اصلاح پسند ’ جیرمی بینتھم‘ (Jeremy Bentham) نے یوٹوپیا کے متضاد کے طور پر اور برے سماج یا ریاست کے لیے وضع کر دی تھی ( یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو اردو ہم آج برت رہے ہیں ، اس کے ارتقاء میں انگریزوں کے قائم کردہ فورٹ ولیم کالج کا ایک اہم کردار رہا ہے )۔ اس لفظ کی پشت پر بھی قبل از مسیح کے قدیم یونان کی زبان ہی ہے ۔
ڈسٹوپیا، یوٹوپیا کے برعکس ایسے معاشروں ،سماجوں اور ریاستوں کا غماز ہیں جہاں انسانی اقدارو مساوات کی پامالی ہو ، ریاستیں جابر ہوں اور ماحولیات تباہی کا شکار ہو ۔
یوں فلسفہ ہو یافنون لطیفہ ، اس میں جہاں یوٹوپیائی اظہار موجود ہے وہیں ڈسٹوپیائی اظہار سامنے آتے ہیں ۔ افلاطون کی ’ ری پبلک ‘ سے شروع ہو جائیں تو یوٹوپیائی اظہار میں آپ کو اور بہت کچھ مل جائے گا ، ’سٹار ٹریک‘ (Star Trek )اور ’ گارڈن آف ایڈن (Garden of Eden)جیسی فلمیں ملیں گی ، ’جزیرہ ‘ (Island ) اور ’مساوات ‘( Equality )جیسے ناول ملیں گے۔ ڈسٹوپیائی اظہار بھی کسی طور یوٹوپیائی اظہار سے پیچھے نہیں ہے بلکہ یہ شاید زیادہ ہے ۔ گولیور‘ز ٹریولز(Gulliver’s Travels) سے شروع ہو جائیں تو بات ’ نئی بہادر دنیا ‘ (Brave New World) سے ہوتی ، انیمل فارم (Animal Farm) اور 1984 کو چھوتی ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں ‘ (Never Let Me Go) سے بھی آگے نکل جاتی ہے اور ’ٹرفیلپگ کے آنسو ‘ ( Tears of the Trufflepig) تک آپہنچتی ہے ۔ اگر فلموں کی بات کریں تو ’ بارہ بندر‘ (12 Monkeys) سے چلتے ، اکیرا ( Akira) اور پوسٹ مین (The Postman)کو چھوتے ، ’ میٹرکس ‘ (The Matrix) کو دیکھتے ہم ’ الیٹا؛بیٹل اینجل ‘ (Alita: Battle Angel) تک آ پہنچتے ہیں ۔
یوٹوپیین اورڈسٹوپیین، دونوں ہی اظہار زمانے کی قید سے آزاد ہیں لیکن عام طور پر اسے مستقبل کے حوالے سے سائنس ، ٹیکنالوجی، اخلاقیات ،نفسیات ، مذہب ، معاشیات ، ثقافت ، سیاست اور ماحولیات جیسے مسائل سے جوڑ کر ’ ایک مثالی یا برے سماج یا ریاست ‘ کی عکاسی کی جاتی ہے۔

آئیے اب کازوْاو اشیگورو کے ناول ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں ‘ (Never Let Me Go ) کی طرف واپس چلتے ہیں۔

’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں ‘ ایک ڈسٹوپیین سائنس فکشن سے جڑا ایک ناول ہے ۔اس میں 1990sکا ایک ایسا’ برطانیہ ‘ دکھایا گیا ہے جس میں کلون(cloned ) بندے واحد اس مقصد کے لیے بنائے جاتے ہیں کہ ان کے اہم حیاتی اعضاء کو انسانوں کے لیے حاصل کیا جا سکے ۔ انہیں ناول میں’ ٹیسٹ ٹیوبوں میں پڑی دھندلی چیزیں ‘ کہا گیا ہے ، جن کے بارے میں لوگ حتی الوسع کوشش کرتے ہیں وہ کلونوں کی موجودگی کے بارے میں نہ سوچیں اور خود کو یقین دلائیں کہ وہ انسانوں سے کمتر مخلوق ہیں ۔
کلوننگ بہت سے ناولوں میں عام موضوع رہا ہے ؛ اس کی ایک اہم مثال آلڈس ہکسلے ( Aldous Huxley) کا ناول ’ نئی بہادر دنیا ‘ (Brave New World) ہے ۔ یہ 1932 ء میں سامنے آیا تھا ۔ یہ ایک ایسی ’غیر مثالی‘ دنیا کے بارے میں ہے جہاں ایک مطلق العنان حکومت معاشرے کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے کنٹرول کرتی ہے ، جیسے کہ افزائش نسل کی ٹیکنالوجی ،لوگوں کو نیند کی حالت میں ہدایات دینے کی ٹیکنالوجی ،نفسیاتی طور پر ساز باز کرکے لوگوں سے کام لینا اور کلاسیکی انداز میں انہیں ڈھب پر لانا ۔
اسی طرح لوئیس لوری ( Lois Lowry) کانوجوان بالغوں (young adult) کے لیے لکھا گیاناول ’ داتا‘(The Giver) ، جو 1993 ء میں سامنے آیا تھا، بھی انسانی کلوننگ کے موضوع پر ہے ۔’ داتا‘ کی کہانی میں ’جوناز‘ایک بارہ سالہ بچہ، اس کا مرکزی کردار ہے جو ایک ایسی دلکش کمیونٹی میں رہتا ہے، جہاں جنگ، تضاد ، عدم توازن ، ناانصافی ،بیروزگاری یہاں تک کہ طلاق یا علیحدٰگی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ ہر کوئی ایک جیسا ہے اور روزگار یا اپنا ساتھی چُننے کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ بظاہر یہ ایک یوٹوپیین سماج کی کہانی لگتی ہے لیکن جوں جوں یہ آگے بڑھتی ہے توں توں یہ ڈسٹوپیین بنتی جاتی ہے اور یکسانیت ( Sameness) کی وجہ سے کمیونٹی کی بے رنگینی کھل کر سامنے آنے لگتی ہے ۔ بہت سے نقاد ’او اشیگورو‘ کے ناول ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں ‘ (Never Let Me Go ) کا موازنہ اپنے اپنے انداز میں دوسرے ڈسٹوپیین ناولوں سے کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر برطانوی ادیب اور نقاد مارک فشرکا کہنا ہے کہ یہ ناول، اینڈریو نیکول کا ’ اِ ن ٹائم ‘ ( In Time )اور سوزین کولنز کا ’ ہنگر گیمز ‘ ( Hunger Games ) اس لیے مماثل ہیں کہ’ تینوں میں محکوم طبقہ اور بے یقینی ، شعوری طور پرپیش منظر میں رکھا گیا ہے ۔‘ وہ اس کی یہ وجہ بتاتا ہے کہ ان میں محکوم طبقے کے بارے میں ان کی پہلے سے موجودگی کو کھل کر اور واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ۔
اسی طرح سنگاپور کی’ نین ینگ‘ ٹیکنالوجکل یونیورسٹی کے وائی۔ چیو سِم ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں‘ (Never Let Me Go ) ناول اور فلم کا تقابل ’کیسپین ٹریڈویل ۔ اوون (Caspian Tredwell-Owen) کی کہانی اور فلم ’ جزیرہ ‘ (The Island)سے کرتا ہے اور وہ ’او اشیگورو‘ کے انداز بیان کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’او اشیگورو‘ نے تھیم سے متعلقہ خاص کلیدی زاویے برتے ہیں ۔ دونوں کی کہانی آپس میں یوں مماثل ہیں کہ دونوں مستقبل قریب کا زمانہ دکھاتی ہیں اور ان میں امیر افراد کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے کہ وہ اپنے کلون تیار کر سکیں اور ان کے جسموں کو پلنے دیں تاکہ جب وہ بیمار ہوں یا کسی حادثے کا شکار ہوں تو وہ ان سے اعضاء حاصل کر سکیں ۔’ جزیرہ ‘ کا مرکزی کردار ’ لنکن سِکس ایکو ‘ ہے جو ویسا ہی ایک کلون ہے جیسا کہ ’او اشیگورو‘ کے ناول میں’ کیتھی‘ ہے ۔وائی۔ چیو سِم البتہ یہ بھی کہتا ہے کہ دو انسانی کلون دو مماثل کہانیوں میں مختلف انداز سے عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ؛ ’ جزیرہ ‘ میں کلون یہ جاننے پر کہ ان کا کام ہی اعضاء دان کرنا ہے ، وہ ’ اتھارٹی‘ کے خلاف مزاحمت اختیار کرتے ہیں اور فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں جبکہ ’ نیور لیٹ می گو ‘ میں کلون اس سماجی نظام سے بغاوت نہیں کرتے جو ان کا استحصال کرتا ہے ۔
یہ درست ہے کہ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں‘ (Never Let Me Go ) انسانی کلوننگ کے بارے میں ہے لیکن اس ناول میں سائنس فکشن کا عنصربنیادی طور پر موجود نہیں ہے ۔ برطانوی ادیب اور نقاد’ ایم جان ہیریسن ‘(John Harrison M.) کا کہنا ہے ؛ ’’ اس میں تو سائنس ہے ہی نہیں ۔ ‘‘ اسی طرح ’ وائی۔ چیو سِم‘ بھی یہ کہتا ہے؛ ’’ کلوننگ ٹیکنالوجی کو ناول کے سٹیج کے پیچھے رکھا گیا ہے۔۔۔ناول میں سائنس کو جان بوجھ کر بیک گرائونڈ میں رکھا گیا ہے ، جس پرکئی سوال اٹھ سکتے ہیں اور اس پربحث کی جا سکتی ہے ۔‘‘
اگراس ناول کا تقابل ہکسلے کے کلاسیکی ناول ’ Brave New World‘ کے ساتھ کیا جائے تو ’اواشیگورو‘ کے اس ناول کا غیر سائنسی مہاندرا اور بھی کَھلنے لگتا ہے ۔اس کے برعکس ہکسلے اپنے ناول کا آغاز ہی ’وسطی لندن کی ہیچری اور کنڈیشنگ سینٹر‘ کی تفصیلی معلومات دینے سے کرتا ہے۔ ’او اشیگورو‘ کے ناول کے برعکس ہکسلے اپنے ناول میںڈسٹوپیین سماج کو تفصیل سے بیان کرتا ہے جو کلوننگ ٹیکنالوجی کا استعمال جانتی ہے ۔ تقابل کے اعتبار سے ہکسلے کے ناول کے برعکس ’ نیور لیٹ می گو‘ میں انسانی کلونوں والی تھیم کافی حد تک مصنوعی اور بناوٹی لگتی ہے ۔
اس ناول میں کلون اپنے نصیب پر قانع ہیں، کیوں؟ ’او اشیگورو‘ اس ’ کیوں‘ کی کوئی سائنسی توجیح نہیں پیش کرتا جیسے وہ ناول میں واضح کر دیتا ہے کلون بچے پیدا نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ لکھنے والے اور ایسے پڑھنے والے کے درمیان ربط نہ رہے جو اسے ایک سائی۔ فائی ناول سمجھ کر پڑھ رہا ہواوروہ توقع کرنے لگے کہ کلون اپنے نصیب کے خلاف جدوجہد کریں گے ۔
ہاں ، البتہ یہ بہت ممکن ہے کہ ’او اشیگورو‘ نے اپنے اس ناول میں ڈسٹوپیین سماج کی ایک نئی ٹائپ دکھانے کی کوشش کی ہو ۔ کہانی بتاتی ہے کہ کیتھی اور دوسرے انسانی کلون ہیلشم میں ایک خوش باش بچپن گزارتے ہیں اوربچپن کی یہی معصوم یادیں ان کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں کہ وہ سماج کے خلاف بغاوت کیے بغیر اور ’ دان ‘ کے نظام پر شک کیے بغیر اپنے اعضاء دان کرتے رہتے ہیں ۔ بہرحال یہ اس وجہ سے بھی تو ہو سکتا ہے کہ سماج میں اصل انسان ان کلونوں کوقصداً ایسے ہی پروان چڑھاتے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کلونوں کی ہیلشم میں اس طرح پرورش کی جاتی ہے کہ وہ سماج کے خلاف باغی ہو ہی نہ سکیں اور ایسے تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ دان کرنے ہی کواپنا فطری فرض سمجھیں اپنا نصیب جانیں اور اسے نبھائیں ۔یوں یہ ایک حقیقی ڈسٹوپیا بنتا ہے ، جہاں ریاست نہ صرف کلونوں کو قابو میں رکھتی ہے بلکہ ان کے دماغوں پر بھی کنٹرول کرتی ہے ۔
اگر ہم نیشنل کونسل آف ٹیچرز آف انگلش (NCTE) کی تعریفوں کو لیں تو یہ ہمیں ڈسٹوپیین سوسائٹی کے اور بھی معانی سے روشناس کراتی ہے ۔ ڈسٹوپیین سوسائٹی’’ ایک کامل یوٹوپییین دنیا کا دھوکہ ‘‘ بھی دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر’ نئی بہادر دنیا‘ میں سماج میں بسنے والوں کی زندگی آسان اور خوشگوار ہے ۔ زندگی کی فکرمندیا ںجی سے بڑھاپا، طبقات ، تصوراتی مغالطے ، جسمانی وہ دماغی تکلیفیں اور دردیں لوگوں کو پریشان نہیں کرتیں کیونکہ انہیں ’ سوما‘ نامی سکون کی دوا، آسانی سے فوری خوشی مہیا کر دیتی ہے ۔ جبکہ اس دنیا کو ڈسٹوپیا بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ مطلق العنان ریاست کی سخت گرفت کی وجہ سے شخصی آزادی مفقود ہے ۔ اسی طرح ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں (Never Let Me Go ) ‘ میں کلونوں کے لیے انسانوں کی دنیا اتنی ظالم ہے کہ وہ ان پر زندگی یوں تنگ کر دیتی ہے کہ بیچارے اپنے اعضاء دان کرتے کرتے ہی ’ پورے‘ ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس کہانی میں بھی آپ کو ایک کامل یوٹوپییین دنیا کا دھوکہ نظر آتا ہے ۔ انسانوں ، جو کلون نہیں ہیں ، کے لیے یہ ایک کامل دنیا ہے جس میں انہیں کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی عضو کے خراب ہو جانے ، یا کسی حادثے میں ضائع ہو جانے پر مر جائیں گے ، انہیں یہ اعضاء آسانی سے اور وافر تعداد میں میسر ہیں ۔ اور کہانی کے آخر میں مس ایملی کیتھی اور ٹامی کو انسانی دنیا کے بارے میں یہ کہتی نظر آتی ہے ؛

’’ ۔۔۔۔آپ ، اس دنیا کو جو یہ جاننے لگی تھی کہ کینسر قابل علاج تھا ،کو کیسے کہہ سکتے تھے کہ اب یہ علاج مزید ممکن نہیں تھا اور یہ کہ وہ تاریک دنوںکی طرف لوٹ جائے ؟ واپس لوٹنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔بہرحال لوگ تم لوگوں کی موجودگی سے بے سکونی محسوس کرتے اور ان کو بنیادی فکر اپنے بچوں ، خاوندوں ، بیویوں ، والدین ، رشتہ داروںاور دوستوں کی ہی ہوتی کہ وہ دل کی بیماری ، موٹر نیورون کی بیماری یا پھر کینسر جیسی بیماریوں کے ہاتھوں نہ مریں ۔۔۔۔‘‘

قاری اسے پڑھتے ہوئے جب کیتھی اور اس جیسے دیگر کلونوں کو دیکھتا ہے تو یہ انسانی دنیا ان کے حوالے سے ظالم ڈسٹوپیا میں بدل جاتی ہے ۔
نیشنل کونسل آف ٹیچرز آف انگلش (NCTE)کے نزدیک ڈسٹوپیین سوسائٹی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خوف کا عنصر بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔جیسے کہ اِشیگورو کے اس ناول میں اصلی انسان کلونوں سے خوفزدہ ہیں ، وہ انہیں اپنے سماج کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ مادام کا ’ طلباء ‘ سے ڈرنا ، مس ایملی کا کیتھی اور ٹامی کو یہ کہنا ؛

’’۔۔۔ میں جب ہیلشم میں تھی ، مجھے خود اس خوف سے روز لڑنا پڑتا تھاجو مجھے تم لوگوں سے آتا تھا ۔ایسے بھی وقت گزرے ہیں کہ میں اپنی مطالعہ گاہ کی کھڑکی سے نیچے جھانکتے ہوئے تم لوگوں کو دیکھتی تھی تو مجھے کراہت جیسا کچھ احساس ۔۔۔۔‘‘

اسی کی نشان دہی کرتا ہے ۔

جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں کہ ’ اپنی محفل سے مت نکال ہمیں‘ (Never Let Me Go ) جسے عمومی طور پر ایک سائنسی ڈِسٹوپیین ناول کہا جاتا ہے ، اپنی ہیت میں ڈِسٹوپیین تو ہے لیکن سائنسی نہیں ہے اور میں ان نقادوں سے اتفاق کرتا ہوں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ۔مجھے یہ بات بھی کھٹکتی ہے کہ کلون اپنے المناک انجام سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ ناول کے بیانیے سے یوں لگتا ہے جیسے ہیلشم میں ان کی ’ برین واشنگ ‘ یوں کی جاتی ہے کہ اعضاء دان کرنا اور یوں مختصر زندگی جینا ہی ان کے لیے فلسفہ حیات ہو ۔لیکن لگتا ہے کہ اِشیگورو’ انسانی کلوننگ ‘ کے موضوع کو سماج میں بغاوت کے لیے استعمال نہیں کر رہا بلکہ زندگی کے معانی کو الفاظ میں مصور کر رہا ہے ۔ وہ اپنے کرداروں کو ’کلون انسان ‘ دکھا کرقاری کو ان کی بے ثمر زندگی تو دکھا رہا ہے لیکن بین السطور (Between the lines ) وہ اصل میں ہماری اپنی زندگی کے بے ثمر ہونے کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے کلون کرداروں کو ایسی زندگی بسر کرتے دکھاتا ہے جو دنیا میں عام اور معمولی انسان بسر کرتے ہیں یوں یہ ہماری اپنی زندگیوں کا آئینہ ہیں یوں یہ ناول موت یا فنائیت پر ایک طنز بھی بن جاتا ہے کہ کیتھی ،روتھ اور ٹامی کی طرح ، ایک مختصر عرصہ جی کر ہم اپنی زندگیوں میں کیا حاصل کرتے ہیں ۔
اس ناول کو دواور ڈائمینشنز (dimensions ) سے بھی دیکھا جا سکتا ہے :
اولاًیہ عالمی سطح پر نئی نسل میں موجود ، اس ابہام کا اظہار کرتاہے کہ’مستقبل کیا ہے ؟ ‘؛ یہ اس بے یقینی کا اظہار کرتاہے جس کا شکار، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور مشرقی یورپ میں اتھل پتھل کی وجہ سے اس وقت کی نوجوان نسل خصوصی طور پر ترقی یافتہ دنیا اور عمومی طور پر باقی دنیا میں ہوئی تھی ، اس میں ’ اربن لائف ‘ کی پیچیدہ ’ Alienation ‘ بھی شامل تھی ، جسے کلون بچوں کے المیے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنی جوانی کے اختتام سے پہلے ہی پورا ( complete) ہو جانا ہے اوردوم یہ کہ یہ ناول انسانی معاشرے کی ایک انجانی لیکن تلخ سمت کی جانب ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے جو صرف’ سائی۔ فائی‘اور ’ ڈِسٹوپیین ‘ ہی نہیں بلکہ ایک کرخت اور ظالم حقیقت کے طور پر جلد یا بدیر سامنے آ کھڑی ہو گی۔ یاد رہے کہ جن دنوں اِشیگورو یہ ناول لکھ رہا تھا ، سائنس دانوں کو ’ ڈولی ‘ نامی بھیڑ کلون کئے عرصہ ہو چکا تھا اور وہ دیگر کئی انواع کی کلوننگ میںبھی کامیاب ہو چکے تھے ؛ ڈولی 5 جولائی 1996 ء کو کلون ہو کر وجود میں آئی تھی اور ناول کے سن ِاشاعت ، 2005 ء ،میں دو آرٹک بھیڑئیے جنوبی کوریا میں کلون کئے جا چکے تھے۔
یہ ناول ، ’او اشیگورو‘ کے دیگر کئی ناولوں کی طرح ’ واحد متکلم ‘ کے صیغے میں لکھا گیا ہے اور اس میں ماضی کی یادوں کے بیان کا سہارا لیا گیا ہے ۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ جب یادوں کے بیان میں یہ صیغہ برتا جاتا ہے تو اکثر یہ ’ ناقابل اعتبار‘ (unreliable) سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ’ کیتھی‘ کے بیانیے میں بہت سے ابہام جا بجا نظر آتے ہیں جیسے کہ کیتھی اپنے المناک نصیب کے باوجود رجائیت پسند تو ہے لیکن ناول میں کہیں بھی اس کا عندیہ نہیں ملتا کہ اس کی رجائیت پسندی اصلی بھی ہے یا نہیں ۔ناول کے شروع میں ہی وہ کہتی ہے ؛

’’۔ ۔ ۔ میں ، اب ،سال کے اختتام پر’ کیئرر‘ نہیں رہوں گی اور گو کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے ، مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں آرام کے موقعے کو خوش آمدید کہوں گی ۔۔۔ اور سوچنے و یاد کرنے کو خیرباد کہہ دوں گی ۔ مجھے یقین ہے کہ پورا نہ سہی تو کم از کم میں اسے کچھ حد تک تو چھوڑ ہی سکوںاور اپنے کا م کی تبدیلی کے لئے خود کو تیار کر سکوں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مجھے یہ خواہش بھی ہورہی ہے کہ میںاپنی ان ساری پرانی یادوں کو ترتیب دے سکوں ۔۔ ۔ ‘‘

اس اقتباس میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کیتھی خوش کلامی برتتے ہوئے کیا بیان کر رہی ہے ؛ وہ کیئرر سے ڈونر بننے جا رہی ہے اوریہ رجائیت پسند کیتھی ہے یا کہ اس نے اپنے چہرے پر فقط بہادری طاری کی ہوئی ہے ؟
’ واحد متکلم ‘ کے صیغے سے یہ یاد آیا کہ ممکن ہے کہ اِشیگورو نے یہ ناول لکھا ہی اس لیے ہو کہ وہ بچپن کی معصوم اور اچھی یادوں کی اہمیت کو اجاگرکر سکے ۔ یوں یہ اس ناول کی ایک اور ڈائمینشن (dimension ) بن جاتی ہے ۔
چینی نژاد امریکی ادیبہ اور نقاد ’ می می وونگ‘ (Mimi Wong )کے بقول یہ ناول نسلی امتیاز کا ایک استعارہ ہے ۔وہ اس ناول کے بارے میں کہتی ہے کہ یہ ’بعد از 9/11 ‘ کی دنیا میں سامراج کی تاریخ کو ایک نئے معانی دیتے ہوئے پھر سے یوں مرتب کرتا ہے اور اس تضاد کو سامنے لاتا ہے جو ’ انسانوں ‘ اور ان کے درمیان ہے جنہیں سامراج انسان نہیں سمجھتا ۔میں ’ می می وونگ‘ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا اِشیگورو اپنے اس ناول میں کلونوں کو بغاوت کرتے ضرور دکھاتا ، ویسے ہی جیسے اس ناول پر ٹی بی ایس (TBS ) کے لیے ٹی وی سیریل کا سکرپٹ لکھنے والے اپنے سکرین پلے میں’ مانامی ‘ کردار ایک باغی کلون کی صورت میں دکھایا ہے جو دیگر باغی کلونوں کے ساتھ انسانوں کے برابر حقوق کے لئے تحریک چلاتی ہے اور بالآخر ماری جاتی ہے۔ اِشیگورو میرے خیال میں اتنا تو شعور رکھتا ہے کہ دنیا میں استحصالیوں اور مظلوموں کے درمیان تضاد اسی طرح سے موجود ہے جس طرح سے’9/11‘ سے پہلے کی دنیا میں موجود تھا ۔جیسا کہ میں نے اس کے اس ناول کی مختلف جہتوں پر بات کی ہے ، ان کے علاوہ اس کی وہ توجیح تو بالکل بھی نہیں بنتی جس طرف ’ می می وونگ‘ نے اشارہ کیا ہے ۔

٭

ناول: اپنی محفل سے مت نکال ہمیں (Never Let Me Go)

مصنف  : کازوْاو اشیگورو (Kazuo Ishiguro)

اردو قالب و مضامین : قیصر نذیر خاورؔ

صفحات : 400

پبلیشر : مکتبہ فکر و دانش، لاہور

تقسیم کار : تخلیقات، لاہور

*

قیصر نذیر خاورؔ کا تعلق لاہور،پاکستان سے ہے۔ ممتاز افسانہ نگار ، انشاءپرداز اورترجمہ نگار ہیں ۔سولہ سے زائد کتابوں کے مصنف/مترجم ہیں۔ جن میں ہاروکی موراکامی ، ایلس منرو، کازوْاو اشیگورو ، برناڈ شیلنک، جے ایشر ، ستیہ جِت رے کی تخلیقات کے تراجم نمایاں ہیں۔ حال ہی میں دو طبع زاد ناولٹ "دی فادر ، دی سَن اینڈ دی ہولی گھوسٹ” اور "ادھ کھلے دریچے” شایع ہوئے ہیں۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

qnkhawar@hotmail.com

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے