"ق” ایک پڑھنے لائق کتاب
سید ماجد شاہ کے افسانوں کا مجموعہ "ق” کل چھبیس افسانوں پر مشتمل ہے ۔۔۔ دیباچے کے طور پر مصنف کی جانب سے قدرے طویل تحریر "میں کہہ رہا تھا” سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے ۔۔۔۔ میرے ہاتھ جب یہ کتاب لگی تو دیباچے کے دوسرے صفحے تک آتے آتے میں اس کتاب کی مکمل قرات کا فیصلہ کر چکی تھی اور دیباچہ ختم ہونے تک یہ ٹھان چکی تھی کہ یہ کام آج ہی کروں گی۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تمام کے تمام افسانے ادب کے شاہکار ہیں شہ پارے ہیں ۔۔۔ کہیں کہیں آپ پڑھتے پڑھتے معمولی سی اکتاہٹ یکسانیت وغیرہ کا شکار ضرور ہوتے ہیں لیکن یہ ہموار سڑک پر کہیں کہیں آنے والے سپیڈ بریکرز کی طرح ہیں جن سے آپ بڑی آسانی اور سہولت سے گزر سکتے ہیں ۔۔۔۔ میری ناقص رائے میں کسی بھی کتاب کا سب سے پہلا کام خود کو پڑھوانا ہے بغیر کسی تعلق یا مجبوری فائدے یا ڈسپلن کے بس یونہی ایک طرح کی ذاتی دلچسپی اور تجسس کے تحت سطر سطر آپ خود بخود چلتے جائیں ۔۔۔۔ یہ ٹسٹ بہرحال "ق” نے پورے پورے نمبروں سے پاس کیا۔۔۔۔ اور چھبیس افسانے میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ لیے۔۔۔ اور میرے نزدیک اس کی تین وجوہات رہی ہوں گی مصنف کی فہم و فراست اور انفراد، کتاب کی زبان جو بھاری بھرکم الفاظ ترکیبات یا دور کی کوڑی لاتے پیچیدہ فلسفیانہ کشف سے پاک ہے اور تیسرے ایک تجسس ہے جو محض ایک افسانے تک محدود نہیں بلکہ کتاب کے آخری صفحے تک ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔ :
"وہ کھڑکی سے سر ٹیک کر بیٹھ گئی۔۔۔ پتوں میں سرسراہٹ ہوئی تو اس نے خوشی آمیز بےچینی سے دیکھا۔۔۔۔ ہوا چل پڑی تھی۔ تیز ہوا میں چراغ جل رہا تھا۔۔۔ ہوا اس کے گھنیرے بالوں سے اٹھکیلیاں کرنے لگی۔ ہونٹوں، کانوں اور گالوں سے بال مَس ہونے لگے۔۔۔”
(افسانہ : گھوم رے سورج)
مصنف نے کم و بیش تمام افسانے ایک ہی تکنیک کے تحت لکھے ہیں یعنی ان کا انداز علامتی ہے اگر کہیں براہ راست کہانی یا کردار ہیں بھی تو وہ بالآخر کسی علامتی دھارے سے جا ملتے ہیں ۔۔۔۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ ان افسانوں کی بُنت ایسی نازک اور دلچسپ ہے کہ کہانی کا عنصر غالب رہتا ہے اور قاری کی دلچسپی نہ تو ٹوٹتی ہے نہ ہی کم ہوتی ہے۔۔۔ مصنف نے ان افسانوں کو یونہی گھسیٹا نہیں ہے یہ مان کر کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا بلکہ اس نے ہر لفظ پر رک کر سوچا ہے ہر جملے کے لکھنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے ۔۔۔۔ زبان کی بات ہو رہی ہے تو افسانہ "ق” کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔ اس افسانے میں تواتر سے تقریبا مہمل الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ لفظ اپنے ساؤنڈ کے ذریعے قاری پر خود ہی کھل جاتا ہے ۔۔۔۔ حرف ق کے بےدریغ استعمال سے بھی نثر بوجھل نہیں ہوتی بلکہ ایک مسکراہٹ افسانے کے انجام تک باقی رہتی ہے۔۔۔۔
"مرد: (کلاکشنکوف میز پر رکھتے ہوئے) تُو میرے اخلاق کی قلماقنی ہو گی۔
لڑکی: (غصے سے) اخلاق تیرے ۔۔۔۔ قلماقنی میں۔۔۔۔ تو اپنی حفاظت خود کیوں نہیں کر سکتا؟
مرد: اے قاف کی پری اے قمروش! بڑھتی عمر کا جوش ۔۔۔ اخلاق کا قلع قمع کر دیا ہے”
(افسانہ : "ق”)
اس افسانے کے علاوہ بھی یہ بات تقریبا ہر افسانے کی قرات کے دوران محسوس ہوتی ہے کہ مصنف کو زبان و بیان پر مکمل عبور ہے۔۔۔ جہاں جہاں انسانوں کے انتہائی نجی معاملات پر بات کی گئی ہے نہ صرف وہ بھدا نہیں لگتا بلکہ ادبی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔
شاید ایک اچھے فن پارے کی تین تہیں ہوتی ہیں پہلی چمکدار اور پرکشش جو اول اول آپ کو متوجہ کرتی ہے دوسری تہہ میں وہ بات رکھی جاتی ہے جس کی ترسیل مقصود ہو اور تیسری تہہ قاری یا ناظر کو ایسی جگہ لا کر چھوڑ دیتی ہے جہاں سے اس کا اپنا سفر شروع ہوتا ہے فن پارہ یہاں تک اپنا کونینٹ اٹھا لیتا ہے اور ایک کیفیت سی باقی رہ جاتی ہے۔۔۔۔ ایک اچھی کہانی یا افسانہ بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کر ایک نئے جہان یا پہلے سے موجود ایک ایسے جہان میں چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہے جہاں عام طور پر آپ نہیں جاتے۔۔۔۔ کتاب کے بیشتر افسانے بہرحال آپ کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔۔۔۔ مثلا "مکروہ” کے نام سے لکھا گیا افسانہ کلاس کلچر اور ڈسکریمینیشن کی ایک الگ فضا بناتا ہے۔۔۔ جنسی محرومی اور استحصال کے درمیان کھنچی لکیر پر بڑی شدت سے ایک چیز جھماکے جیسی گزرتی ہے ۔۔۔۔ اور بس ۔۔۔ لیکن جو کچھ پیچھے رہ جاتا ہے وہ یہ کہ سماجی اقدار کے ڈھیر پر کھڑے آپ درست اور غلط کی گتھیوں کو سلجھاتے رہ جائیں۔۔۔
ہر دوسرے افسانے کا رنگ اصلاحی ہے بہ الفاظ دیگر سماج کے تانے بانے میں موجود کمزور گرہوں پر فوکس کیا گیا ہے۔۔۔۔ مثلا افسانہ "آنکھ کے اندھے” یا "کیچڑ” میں فرد اور سماج کے درمیان تعلق کو ایک زیرک نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔۔۔ پہلی دوسری تہہ کے بات سب سے آخری تہہ میں جہاں یہ افسانے ہمیں چھوڑتے ہیں وہ یہ سوچ ہے کہ اگر ہم انفردی طور پر زندگی کی ٹھیک ٹھاک سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو اجتماعی رویے ایسے بھدے کیوں دکھاتے ہیں سماج اگر ہم جیسے لوگ بناتے ہیں جو اپنے اندر شفاف سوچ رکھتے ہیں تو مل جل کر تو ہمیں مکمل خیر ہی ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔۔۔ تو بس یہی کام ہے ان افسانوں کا کہ فرد اور سماج کے باطن تک ہمیں رسائی دیں۔۔۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ رنگ حالانکہ ناصحانہ نہیں لیکن قاری میں اُکتاہٹ بھی بھر دیتا ۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ شاید اوپری تہہ میں کہیں کہیں کہانی کے عنصر میں در آنے والا کبھی کبھی کا جمود ہے ۔۔۔ مثلا افسانہ "اتفاق محض اتفاق” جہاں سے شروع ہوتا ہے آخر تک وہیں کھڑا رہتا ہے سوائے ایک کردار کے نیم فلسفیانہ نظریات کے ہم کچھ برآمد نہیں کر سکتے۔۔ لیکن یہ سب بہت معمولی سطح کا ہے جسے بڑی آسانی اور صفائی کے ساتھ نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔۔
افسانوں کا یہ مجموعہ زندگی اور انسان کا معاشی، معاشرتی، نفسیاتی، جنسی ہر ہر زاویے سے جائزہ لیتا ہے۔۔۔ خود بھی سوچتا ہے ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے ٹیبوز توڑتا شاید نہیں لیکن ان پر سوال ضرور اٹھاتا ہے بڑے شائستہ اور دھیمے لہجے میں کہیں کوئی نعرہ یا نظریہ جی کو بوجھل نہیں کرتا۔۔۔ نظریہ شاید ایک ہی ہے اور وہ ہے انسانیت۔۔۔۔ مصنف ایبزرڈٹی آف لائف کا بھی قائل ہےاور بےمعنویت سے بھی نبرد آزما ہوتا ہے لیکن کچھ بھی قاری پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا۔۔۔۔ افسانہ "بالوں کا گچھا” پارٹیشن اور اس کے بعد کے حالاے پر بہت بھرپور افسانہ ہے ۔۔۔ چند امیجز کے ذریعے بڑے اختصار کے ساتھ انسانی رشتوں کی پائمالی کو بڑے دردناک انداز میں بیان کیا گیا ہے۔۔:
"کل شام بلا کا رَن پڑا۔۔۔ رات کا وقت تھا۔۔۔۔ غیر ملکی فوجی۔۔۔ مسلمانوں کی لڑکی رابعہ۔۔۔ گالیاں۔۔۔ چھینا چھپٹی۔۔۔۔ ٹینک گولے۔۔۔۔ مسلمانوں کی ماں۔۔۔۔ ان کی بہن۔۔۔۔شراب۔۔۔۔ سسکیاں۔۔۔
۔اذیت۔۔۔۔ رابعہ نے موت کے بوجھ تلے سے نکلنے کی آخری کوشش کی مگر فلم رک گئی ۔۔۔ یا شاید ختم ہو گئی”
(افسانہ: بالوں کا گُچھا)
ان افسانوں کے کرداروں کو دیکھیں تو کبھی اصلی دکھتے ہیں ۔۔۔۔ اپنے ارد گرد چلتے پھرتے اور کبھی محض علامتی ہیولے ۔۔۔ ہر دو طرح سے دیکھیں تو آسانی سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کرداروں کو ایسے بھرپور طریقے سے تخلیق کیا گیا ہے کہ یہ اپنی اچھائیوں برائیوں سمیت ذہن سے چپک کر رہ جاتے ہیں ۔۔۔ وہ چاہے "انتہائی گھٹیا شخص” کا عرفان ہو یا "کسر” کی ہیروئن ایسے ہی لگتا ہے کہ ہم انہیں بہت اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔ کسی بھی کردار کا ظاہری حال حلیہ ہو یا باطنی خدوخال مصنف کو ہر طرح سے تصویر کرنے آتے ہیں:
"ان سے ملیے یہ ہیں ملک عرفان۔ سر پر سفید ٹوپی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں، ان پر موٹے شیشوں والی عینک، پچکے گال، پھیلی ہوئی ناک، ضرورت سے زیادہ باہر کو نکلے ہوئے ہونٹ، دانتوں میں درزیں، لمبی داڑھی سفید شلوار قمیض، پرانے ٹوٹے ہوئے چپل”
(افسانہ : انتہائی گھٹیا شخص)
"جب نوجوان سے اس کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا ہے تو آسمان منور ہونے لگتا ہے۔ اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ ستارے جگمگاتے ہی نہیں جھلملاتے بھی ہیں۔ چاند صرف روشن ہی نہیں ہوتا بلکہ سرگوشیاں بھی کرتا ہے۔ بادل صرف برستے ہی نہیں ان کے رنگ بھی ہوتے ہیں، وہ صورتیں بھی بدلتے ہیں”
(افسانہ : کسر)
یہ تو کہنے کی بات بھی نہیں ہم جانتے ہی ہیں کلائمکس کو افسانے میں کیا حیثیت حاصل ہے ۔۔۔ کتاب میں اس بات کا مکمل خیال رکھا گیا ہے اور افسانوں کو بڑی مہارت سے یوں ختم کیا گیا ہے کہ نہ تو طوالت سے بور ہونے کا مسئلہ درہیش آئے نہ ہی عجلت دکھائی گئی ہو۔۔۔۔ نہ سب کھل کر بیان کیا گیا ہو نہ تمام مخفی رکھا گیا ہو۔۔۔ اصلی بات یہ ہے کہ دیباچے میں مصنف نے افسانہ لکھنے سے متعلق جو قواعد ضوابط اور سنہری اصول یا کام کی باتیں کہیں انہوں نے ذہن میں سوال پیدا کیا کہ جناب کہنا تو آسان ہی ہوتا ہے پر کتاب پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ ان کے ہاں کہنا ہی نہیں کر دکھانا بھی آسان ہے۔۔۔۔ ان کے لکھے ایک ناول کا سراغ بھی ملا مگر وہ ہندکو میں ہے جو اگر مجھے پڑھنا آتی تو ضرور پڑھتی۔۔۔۔