میں خود پسند نہیں ہوں اس لیے اس شوق کی تکمیل میں اردگرد بسے لوگوں کی گریڈنگ نہیں کرتی اور نہ ہی دو نمبر لوگوں کو بدلحاظی سے برا کہہ پاتی ہوں۔ ہاں مگر میرا خود پر اتنا اختیار ضرور ہے کہ ایسے کسی شخص کو دل یا گھر میں گھسنے کی اجازت نہ دوں یا اس سے مجبوراً کوئی تعلق استوار نہ کروں جو مزاجاً تصنع اور بناوٹ کا حامل ہو۔ یہ سبق میں نے ایم فل کے دوران اپنی استاد محترم میم عقیلہ بشیر صاحبہ سے سیکھا تھا۔ جن کا ماننا ہے کہ ”بے سبب تعلقات کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے۔“ کب، کیوں اور کیسے یہ تفصیل پھر کبھی سہی۔ فی الوقت اس سانجھ کا اجمال یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ دیر پا تعلق استوار کرتے ہیں جو آپ کے دل و دماغ سے میل کھاتے ہیں۔ 2011ء میں ایسا ہی ایک خوبصورت تعلق ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ سے ان کی تحریر کے ذریعے اس وقت قائم ہوا جب لیاقت اپنے پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ”اُردو فِکشن میں پنجابی دیہات کے تین اہم کردار مولوی، مدرس اور جاگیردار“ لکھ رہے تھے۔ اس دوران مجھے بھی ان کے ناولٹ پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ بتا دوں کہ اب تک میں بھول چکی ہوں کہ ان ناولٹس میں کیا تھا اور ان کے پلاٹ و کردار کیسے تھے ہاں مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ زمینداری کلچر کی حد سے بڑھی ہوئی تحکم پسندی، انسانی نفسیات کی پیچیدہ گرہیں اور بے رحم و اعصاب شکن طبقاتی تقسیم کا ایک ایسا جال تھا جسے بڑی ہوشمندی کے ساتھ مقامی لفظوں کی مدد سے بنا گیا تھا۔
مجھے ایک عرصہ بعد قُرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور اور واجدہ تبسّم کی افسانوی قرات سے ہٹ کر عہد حاضر کی کسی خاتون کہانی کار نے یوں اپنے منفرد خیالات و بے باک انداز تحریر سے متاثر کیا تو میں نہال ہو گئی۔ سماج کے مختلف چھوٹے بڑے کرداروں کے حوالے سے ان کی پیش کردہ نفسیاتی موشگافیاں مجھے دیر تک تنہائی میں بھی مسرور کرتی رہیں۔ بہرحال اسی سبب فیس بُک پر ان سے دوستی ہوئی لیکن ان کی جس خوبی نے اس تعلق کو ہر آن مضبوط کیے رکھا وہ ان کا اخلاص سے دیا گیا جوابی کمنٹ ہوتا۔
طاہرہ اقبال اُردو افسانوی نثر کا ایسا معتبر نام کہ جنہوں نے قلیل عرصہ میں ہی اپنی کہانیوں سے ایسی لازوال شہرت اور معتبر مقام حاصل کیا جسے کسی نظرے سے وابستگی کے سبب پروپیگنڈہ کرنے والے یا از خود تحسینی شور مچانے والے تمام تر کوشش اور چاپلوسی کے باوجود عمر بھر حاصل نہیں کر پاتے۔ ویسے میرا یقین ہے کہ ایسے شور، تماشے تھوڑی دیر کے لیے تو راہ چلتوں کو متاثر کرتے ہیں مگر حقیقی جوہر سے محرومی کے باعث دیرپا اعتبار حاصل نہیں کر پاتے۔
دھرتی و مقامی زبان وثقافت سے جڑت طاہرہ اقبال کی شناخت کا ایک معتبر و مضبوط حوالہ ہے تاہم بطور ادیب ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی رہتل کے باسیوں کی عادات بد اور نفسیاتی پیچیدگیوں کے الجھے دھاگوں پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ اس پر مستزاد ان خرابیوں اور انسانیت سوز رویوں کو بڑی بے باکی سے سحر انگیز تخلیقی اظہار میں ڈھالنے کی بھرپور استطاعت بھی رکھتی ہیں۔ یقیناً اسی لیے ان کے ہاں سماج کے معاشی و مذہبی اعتبار پاتے طاقتور مگر دوغلے، مکروہ چہروں پر ‘اخ تھو کرنے کی جرات موجود ہے جسے یقیناً ان کے سیاسی و سماجی شعور اور اس سرزمین پر صدیوں سے قائم پابہ زنجیر بے رحم معاشی و طبقاتی نظام نے تشکیل دیا ہے۔ یہاں ایک اور پُرلطف بات بتا دوں وہ یہ کہ اگر آپ اس بے باک کہانی کار سے روزمرہ زندگی میں ملیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کسی ایسے شخص سے مل رہے ہیں جسے دنیاداری سے کوئی علاقہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے مقابل سے اس قدر شائستگی اور اخلاص سے ملتی ہیں اور گفتگو میں ایسا مان دیتی ہیں کہ مجھ ایسوں کو بھی بیک وقت ان کی انسان دوستی اور اپنی علمیت پر یقین آنے لگتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ گُمان بھی گزرتا ہے کہ شاید ہم علمی اعتبار سے کافی معتبر ہیں جسے وہ اتنی توجہ اور انہماک سے سن رہی ہیں۔ یہاں ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر آپ کو ان کے خلوص و مروت کی چاٹ لگ چکی ہے اور اگر آپ ان کی منکسرانہ دوستی کے اسیر بھی ہو چکے ہیں تو پھر آپ ان کے ناول نہ پڑھیں کہ ایسے میں لاعلمی کسی گنج قارون سے کم نہیں لیکن اگر آپ کے اندر کہیں یہ خواہش پیدا ہو کہ آپ حیات و کائنات کے تہہ در تہہ تخلیقی صفحات پلٹ کر دیکھیں اور زندگی کے ساتھ ساتھ خونی رشتوں کی خود غرض پیچیدہ نفسیاتی صورتوں سے بھی واقفیت حاصل کریں تو پھر مشورہ مفت یہ ہے کہ آپ ان کے ناولوں کے صفحات پلٹتے جائیں۔ بدلتی تحریر کا ہر صفحہ کتاب زندگی کے حقیقی ابواب سے آپ کو آشنا کرتا جائے گا۔ وہ اپنے ہر جملے سے قاری کو تخلیقی سطح پر ایک نیا گیان دیتی ہیں اور اس پر تفہیم کے کئی در وا کرتی چلی جاتی ہیں گویا وہاں ایک اور طاہرہ اقبال آپ کا استقبال کرتی ہے۔ جسے حیات و کائنات کے کم و بیش سبھی اسباق از بر ہیں۔ اور جس نے کائنات کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کی الجھی گتھیوں سے تخلیق ہوتی خود غرضی اور ذاتی منفعت سے جنم لیتی مکروہات کو بھی گہرے پاتال سے کھوج نکالا ہے۔ عین ممکن ہے کہ میری طرح اس وقت آپ بھی اس طاہرہ اقبال کو جان کر خوفزدہ ہو جائیں کہ ان پر سماج کے سبھی تشکیلی عناصر مکمل سیاق و سباق کے ساتھ منکشف ہیں نیز وہ خود میں نصب خوردبینی نظام کے تحت مقابل فرد کے محسوسات سے واقفیت حاصل کر لینے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لہٰذا ان کے سامنے ملمع کاری کی کوئی بھی کوشش بے سود ہوسکتی ہے۔ میں نے بھی ایسا خوف ان کے تازہ ترین ناول ”ہڑپا“ کو پڑھتے ہوئے محسوس کیا۔ جس کی اساس میں عذاب کی طرح نازل ہوتا وراثتی زمیں و زر کا عطا کردہ وہ زعم موجزن ہے جو زوال و فنا سے ملحق ہے لیکن جس کا وصول کنندہ شاید اس صوتحال سے بے خبر ہے اسی لیے تو خود کو خدا کی خدائی میں حصہ دار سمجھنے لگتا ہے۔ ورنہ دنیا کی تو ہر چیز یہاں تک کہ ماضی میں شان و شکوہ کی حامل عظیم الشان تہذیبوں کے کھنڈرات بھی یہی کہانی سناتے نظر آتے ہیں کہ مال و دولت، جاہ و حشمت اور طاقت و اقتتدار کے حامل سبھی نامیوں کے اب محض نشاں باقی رہ گئے ہیں تاہم ناول میں یہ احوال پانچ ہزار سال قبل اس سر زمین پر آباد ہڑپائی تہذیب کے آثار سناتے ہیں۔ جہاں پر بسے ماضی کے امن پسند اور مہذب لوگوں کا تاراج ہوتا منظرنامہ اپنے جلو میں موجودہ ہڑپائی رہتل پر تقریباً نصف صدی سے آباد لوگوں کے منافقانہ رویوں کی داستان سناتا ہے نیز ان آثاروں کی محافظت کے دعوے داروں اور زمین زادوں کی عجب صورتحال کو بھی سامنے لاتا ہے۔ چناں، بالی صنوبر، آریا، سنیاری بھاگاں محتاج، رشید خاں نیازی، ملنگ، افتخار و امتیاز، بڑے ملک صاحب و بڑی بی بی، اکو، صابو، منشی ریحان اور چھوٹی بی بی وغیرہ اسی آباد ہڑپا کے ایسے متنوع رنگ ہیں جو دراصل نسل در نسل جاگیردارنہ استحصالی نظام کے کچھ بااختیار تو کچھ بے بس نمائندے ہیں مگر ان کا انجام کم و بیش ایک جیسا ہے کہ حلقہ در حلقہ زنجیر کی مانند یہ انسان نما حقیر و بے ثبات دائرے عروج و زوال اور فنا و تغیر کی ایسی مستقل تصویریں ہیں جس میں وقت سب سے اہم اور بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ناول کا پلاٹ اگرچہ اس علاقے کے زمیں داری نظام سے خام مواد حاصل کرتا ہے تاہم یہ بیک وقت سماج کے مذہبی چغہ میں ملبوس دولے شاہ کے چوہوں کی مذہبی منافقت و اجارہ داری کا پول کھولتے ہوئے ہڑپائی تہذیب کے محافظوں کی سجائی گئی فرضی داستانوں کو بھی چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ طاقت کی اس تثلیث کا ایک اہم کردار چنی ہے جسے یہ تثلیثی سماج نوچ ڈالنے پر آمادہ نظر آتا ہے حالانکہ غربت کے سبب بے توقیری کا یہ وصول کنندہ کردار، طاقت کے نشے میں چور طبقاتی سماج کی نمائندہ بڑی ملکانی ایسے روغنی پتلوں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ انسان اور کائناتی نظام کی طنابیں کسی اور ہاتھ میں ہیں۔ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوتی نہ صرف یہ بدصورت تباہ حال چنی بلکہ گالی کو اپنا لباس بنا کر خود پر اوڑھنے والی بالی کنجری، یعنی سماج کے یہ ہر دو ٹھکرائے ہوئے ناپسندیدہ کردار اس مردار کھانے والے گدھ صفت کمرشل نظام کی حقیقت سے آشنا ہیں۔ اسی لیے تو زیادتی کا شکار ہونے والی چنی اب خود ان محافظوں کے مقابل آ کر کہ جو ہڑپا کے بارے میں سنائی گئی جھوٹی موٹی کہانیوں، روزمرہ زندگی کے عام برتنوں اور ٹھیکریوں کے ساتھ خود چنی کو بھی قدیم آریائی نسل کی باقیات بتا کر گورے سیاحوں سے نوٹ وصول کرتے ہیں، غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کرتی اینجیوز اور بالی کنجری کے عطا کردہ نسائی شعور کے باعث ہڑپائی تہذیب کے شائقین میں یہ گیان بانٹتی نظر آتی ہے۔
”دنیا کے ہر کھنڈر کی ایک ہی کہانی ہے۔ ہر تعمیر کی نہاد میں تخریب گھات لگائے بیٹھی ہے۔ اینٹوں نے بھرنا ہے، ہڈیوں نے گھلنا ہے۔ مٹی نے ہڑپنا ہے۔ پھر سطح سے زمین پر اگانے کے لیے سب محفوظ کرنا، جیسے طوفان نوح میں محفوظ کیا تھا۔“ (ص 316)
ہم جانتے ہیں کہ نیلی بار و ہڑپا کی سرزمیں طاہرہ اقبال کی شناخت کے بنیادی حوالے ہیں اور یہاں کی مقامی جانگلی بولی کے الفاظ سے تشکیل پاتا ان کی کم وبیش ہر دوسری تصنیف کا تخلیقی بیان و منظرنامہ بھی ان کی اپنی سر زمین سے وابستگی و وارفتگی کی گواہی دیتا ہے تاہم اس محبت و جڑت کے باوجود اتنا کڑوا سچ لکھنے کا حوصلہ صرف اس ادیب کے حصہ میں آتا ہے جو اپنے قلم کو قارئین کی امانت سمجھتا ہے لہٰذا جھوٹ اور مکرو فریب سے کسی طور مفاہمت پر تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیردارانہ ماحول کا حصہ ہونے کے باوجود طاہرہ اقبال اس حنوط شدہ جاگیر داری نظام سے جنم لیتی انسانی بے توقیری کو ہدف تنقید بناتی ہیں اور اپنے قلم کے توسط سے اس رہتل کے سبھی چھوٹے بڑے افراد کو انکے باطن سمیت یوں ہمارے سامنے لاتی ہیں۔ جیسے ان کے پاس انسانی نفسیات کو پرکھنے کا کوئی محدب عدسہ ہو جس کے زریعے وہ قارئین کو بھی اقتدار کی منتقلی و تسلسل اور تغیر و تبدل کا بے رحم نظام دکھانے پر مصر ہوں۔
ناول کی قرات کے دوران بعض کرداروں کے کئی ایسے تلخ رویے سامنے آتے ہیں جن کے باعث قارئین کے لیے سگے خونی رشتے جعلی اور قابل نفرین ہو جاتے ہیں۔ خواہ روزمرہ زندگی میں اسے ماں کی مامتا یا باپ کی شفقت کی توہین سمجھا جائے لیکن ناول کی دنیا میں یہ سب اپنا وجود رکھتے ہیں اور آنکھوں میں پھرتی سلائیوں ایسی تاریخی کہانیوں کی گواہی دیتے ہیں تاہم اس تاریخی تفہیم کے بعد ناول میں ماں بیٹی کے بیچ موجود رشتے کی اس پیچیدہ اور رقیبانہ صورتحال کو سمجھنا قطعی طور پر مشکل نہیں رہتا کہ حویلی میں فطری تقاضوں کے تحت بلوغت کی حدوں کو چھوتی صنوبر کی جسمانی تبدیلیاں کیونکر اس کی ماں کو اس سے نفرت پر اُکساتی ہیں اور وہ کیونکر دروازے پر دستک دیتی بیٹی کی جوانی کو خوش آمدید کہنے کے بجائے اسے اس کا گناہ بتا کر ہر دم پاٹ دار آواز میں روک ٹوک کرتی رہتی ہے یا یہ کہ بڑی مالکن کیوں اسے اپنے بھائیوں کی طرح تین وقت کی پیٹ بھر روٹی، بوٹی یا پھل فروٹ کھانے کی اجازت نہیں دیتی نیز اس کے نزدیک یہ بات کیونکر زیادہ پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو یہ باور کروائے کہ اس کی جوانی کی طرف پیشرفت دراصل اس کے ذہنی خلفشار کا نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ ناکردہ گناہوں کے اس بوجھ کو چھپانے اور جوانی کو سمیٹنے کے چکر میں نیم کبڑے پن کا شکار ہوتی نعمتوں سے محروم، زندہ لاش ایسی صنوبر کا حویلی میں کسی مرد تو کجا رشتہ دار عورت کے سامنے آنا یا نوکرانیوں سے گفتگو کرنا بھی گناہ بنا دیا جاتا ہے کیونکہ بڑی مالکن کے حکم کے مطابق صنوبر کی آنکھوں اور کانوں کو سب نظاروں اور آوازوں کا پردہ ضروری تھا۔ جس کی خود صنوبر کو کبھی سمجھ نہ آتی ماسوا اس کے کہ وہ بدن میں رونما ہونے والی ان اچانک تبدیلیوں سے شدید خوف، شرمندگی اور کرب محسوس کرتی رہے کیونکہ تیرہ چودہ سال کی لڑکی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ نہ جانے کب اور کیوں وہ گندے خیالات کی آماجگاہ بن گئی۔ ہر وقت جاگیردار ماں کی یہ آواز اس کے تعاقب میں رہتی۔
”گٹھ تے مٹھ بے حیا، قد دیکھو عمر دیکھو اور ممے نکال لیے ہیں۔ بے حیا، بے شرم، کچھ کھا کر مر کیوں نہیں رہتی۔“ (ص 68)
دُنیا عجب کارخانہ ہے۔ طاقت ور خاندانوں میں باپ کو یا بیٹے کو مروانا تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح جوان ہوتے بیٹے یا بیٹی کی عدم برداشت بھی عام خاندانوں کا حصہ ہے اس کے پس منظر میں کچھ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں جس کو عام صورتحال میں یوں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ باپ کی بیٹی کی طرف توجہ جسے عرف عام میں لاڈ کہا جاتا ہے، ماں کو کسی حد تک نہ سمجھ میں آنے والے جلاپے کا شکار کردیتی ہے۔ اسی طرح بیٹے کا ماں کی طرف جھکاو باپ اور بیٹے کے آپسی تعلق میں عجب خلا پیدا کر دیتا ہے مگر یہ سب تو عام خاندانوں کے عمومی رویے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ از خود سلجھ بھی جاتے ہیں تاہم طاقت ور خاندانوں میں اس حوالے سے یہ صورتِ حال کریہیہ واقعات کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ وہاں بعض اوقات کسی ایک بچے کی شدید محبت دوسرے کی شدید نفرت کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ اس کہانی میں بڑی بی بی کی اپنے چھوٹے بیٹے سے محبت بڑے بیٹے کے حق میں ڈاکہ محسوس ہوتی ہے اور اس کے ہاتھوں بڑے بھائی کے قتل ایسے اقدام کا باعث بنتی ہے کہ یہاں معاملہ موروثی وراثت اور ملکیت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے تو ارن دھتی رائے اپنے ایک انٹرویو میں ورثے میں ملنے والے پیسے کو ایک لعنت قرار دیتی ہے۔ (درندے کی پہچان)
یہ ناول بھی انسانی اور آسمانی فطرت کی بو العجبیوں کی ایسی ہی بد صورت داستان سناتا ہے۔ بیٹی کو سوکن کہنے اور سمجھنے والی جاگیردار ماں کا روپ قاری کے نزدیک اس وقت مزید بھانک ہو جاتا ہے جب وہ اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر گھریلو ملازماوں کو روٹیوں والے بڑے رومال کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر گھورتی ہے (اتنے بڑے سانحے کے باوجود)۔ جوان بیٹے کی موت پر خود کو ضعف سے بچانے کے لیے جاگیردارنی کے پاس فخر و مباہات کے دیگر کئی حیلے موجود ہیں۔ جن کی کئی نفسیاتی توجیہات بھی پیش کی جا سکتی ہیں وہ یوں کہ عین ممکن ہے وہ گھر میں آنے والی اس ناگہانی موت پر رشتہ داروں کا ہمدردی میں لپٹا طنز بھرا اظہار افسوس اپنی طاقت میں تخفیف کا اعلان محسوس کرتی ہو جسے وہ رنگین پایوں والی بے شمار چارپائیوں اور اچانک پڑنے والی اس افتاد پر گھر سے نکلنے والے بے شمار برتنوں پر فخریہ اظہار کے ذریعے دور کرنا چاہتی ہو نیز اس طور اپنی شکستہ قوت و طاقت کی بازیافت کررہی ہو کیونکہ وہ صرف ماں ہی نہیں بلکہ بے پناہ طاقت کی مالک اس علاقے کی سب سے بڑی زمیندارنی بھی ہے جس کے گھر سے بہت سے لوگوں کا رزق جڑا ہے نیز جسے علاقے کا ہر آنے والا نیا تھانیدار، ڈپٹی کمشنر اور دیگر بااثر افراد سلام کرنا اپنے فرائض منصبی میں شامل سمجھتے ہیں تاہم یکے بعد دیگرے دو جواں سال بیٹوں، بعد ازاں چھوٹے لاڈلے بیٹے اور آخر کار حویلی کے مالک یعنی خاوند کی گھر سے اٹھنے والی لاشوں کے بعد بھی زندہ بچ رہنے والی اکلوتی بیٹی کو اپنی سوکن قرار دینے والی اس ماں کے بھیانک رویے پر اس وقت جھرجھری آتی ہے جب وہ کہانی کی ابتدا میں موت سے بغل گیر ہونے سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو اس طور بد دعائیں اور کوسنے دیتی نظر آتی ہے کہ کاش اسے اس کی پھوڑی پر بیٹھ کر بین کرنا نصیب ہوں۔ غالباً اسی لیے اختتام پر بھی بیماری اور ضعف کا شکار، موت کی دیلیز پر دستک دیتی اس مالکن کو جب یہ گمان گزرتا بے کہ شاید اب اس کی کل کائنات کی مالک وہ بیٹی بنے گی جسے اس کی مرضی کے بغیر سانس لینے کی بھی اجازت نہ تھی تو اس کے لیے بیٹی کا وجود مزید قابل نفرین ہو جاتا ہے کیونکہ اسے اب مرد وارثین کی عدم موجودگی میں اپنی ساری جائیداد ہاتھوں سے نکلتی یا بیٹی کو منتقل ہوتی بلکہ غارت ہوتی نظر آتی ہے لیکن اس بےبسی کے عالم میں بھی وہ سمجھوتہ کرنے کے بجائے بیٹی کے لیے سراپائے بد دعا بنتی ہے۔
”ہائے صنوبر بندیے میں تجھے مرتے ہوئے دیکھوں، ایڑھیاں رگڑ رگڑ دم دیتے ہوئے دیکھوں۔ وڈھی پڑھی لکھی تیرے نصیب کبھی نہ ہوں میری جاگیریں، کالا چور لے جائے پر تجھ کلموہی کو چپہ بھی نہ ملے۔“ (ص 361)
حالانکہ حقیت تو یہ تھی کہ حویلی سے پے درپے اٹھنے والی لاشیں جہاں پورے وسیب کو ان زمینوں سے وابستہ بے وارثی کے توہمات فراہم کر گئی تھیں وہاں رشتوں کی عدم دستیابی کا شکار، خوشیوں سے محروم، آزادی سے سانس لینے کو ترستی اور راتوں کی خاموشی سے زندگی کی بے ثباتی کا فلسفہ کشید کرتی صنوبر بھی اس املاک کی حقیقت جان چکی تھی۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ
”ان زمینوں میں لاوارثیت گُھلی ہے۔ کبھی کسی ایک خانوادے، ایک قوم یا ملک کی ہو کر رہی ہیں کیا۔ اپنے وارث، اپنے مالک، اپنے حاکم بدلتی رہتی ہے۔“ (ص 360)
یہی اس ہڑپائی سرزمین کی بھی کہانی ہے جہاں قرن ہا قرن سے آباد و برباد ہوتی نسلیں فنا و بقا کا یہی اذن حاصل کرتی اور ماضی کا حصہ بنتی گئیں۔ اسی لیے تو اس سر زمین کی فطرت کےحوالے سے خود کہانی کار کا یہ ماننا ہے کہ یہ بنائے ہوئے کو بگاڑتی اور بگاڑے ہوئے کو سنوارتی آ رہی ہے۔
کرداری خاکوں کی صورت انجام کی طرف بڑھتے اس ناول کا مربوط اور سلجھا ہوا پلاٹ، جہاں پیچیدہ موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے پڑھنے والوں پر ابلاغ کے سبھی در وا کرتا ہے۔ وہاں دیگر قارئیں پر بھی اس ناول کی قرات کو لازم قرار دیتا ہے۔ اس سے پیشتر کہ بظاہر خاموش طبع یا کم گو مگر ملنسار طاہرہ اقبال
ن۔م راشد کی نظم کے اس اندھے کباڑی کی صورت فنا و بقا کا گیان بانٹنے کی کوشش میں ناقدری کا احتجاج کرتی محسوس ہو کہ فی زمانہ علمی اشرافیہ اور ارباب اختیار و اقتدار کی شاباشی اور تشہیر کے بغیر ناول کی کامیابی کی سند شاذ ہی ملتی ہے۔
حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود اشرافیائی سماج کا حصہ ہونے کے باوجود وہ کب سے اس طبقاتی سماج کا مکروہ چغہ اتار پھیکنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں اور انسانی مساوات کا خواب دیکھنے، دکھانے پربھی مصر ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ن۔م راشد کی نظم ”اندھا کباڑی“ کے تخلیق کار کی مانند ان کی طرف سے بھی یہ صدا آئے
یہ لے لو خواب…
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو خواب
میرے خواب
خوااااب میرے خواااب
اور اس سے پیشتر کہ ہم داد و تشہیر وصولنے والی طفلی تخلیقات کے شور وغوغا میں اس حقیقی آواز کو کہیں گُم کر بیٹھیں، بالغ نظر قاری ہونے کا ثبوت دیں۔ کتاب خریدیں اور اس کی قرات سے لطف اٹھائیں۔
کبیرا، تیرے جگت میں الٹی دیکھی ریت
پاپی مل کے راج کریں، سادھو مانگیں بھیک