قصّہ کہانی انسان کی تخلیقی فطرت کا وہ شاہکار ہے، جو محض دلچسپی کے عنصر کی بدولت اسے دنیا جہان کے علم و دانش سے مالا مال کرتا ہے۔ صرف ماضی ہی کیوں؟ آج کا انسان بھی کہانی سننے کے معاملے میں، کسی شریر بچے کی مانند ایسا ہی مشتاق ہے، جیسا صدیوں قبل دن بھر کی مشقّت سے نڈھال، سرسبز کھیتوں سے لوٹ کر، تاروں بھرے آسمان تلے، حقے کی گڑگڑاہٹوں میں، داستان گو کے چہرے کو تجسّس سے تکنے والا دہقان ہوا کرتا تھا۔
زیادہ پُرانی بات نہیں فقط چند ماہ قبل بی ایس کے نصابات میں ہونے والی تبدیلی کی بدولت، جب ”کلیلہ و دِمنہ“ کی تدریس ہمیں تفویض کی گئی، تب تک ہم اس داستان سے فقط اس کے بنیادی ابواب کی حد تک ہی آشنا تھے۔ تاہم جب طلبا کو اس داستان کی کتھا سنانے اور منبع و ماخذات کا سُراغ لگانے کے لیے تحقیق کی وادی میں قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک نیا اور بھرپور جہانِ حیرت تھا، جہاں ہندوستان کی قدیم سنسکرتی کتھاؤں اور ان میں شامل قصّہ کہانیوں کی روایت نے ہمیں علم و حکمت کے ایسے معلوماتی خزانے سے روشناس کیا جو اپنی قدیمی تہذیب و ثقافت کے ایک درخشاں حوالے کی صورت، صدیوں سے ہندوستان کی سرزمین میں، بصیرت و دانش کے کسی بھید بھرے گنجینے کی صورت دفن تھا، جسے اس دھرتی کی لوک کتھاؤں نے نت نئے زرخیز قصّوں کی آمیزش سے نہ صرف سینہ بہ سینہ اپنی نسلوں کو منتقل کیا بلکہ اس قدیم دانش و بینش کے اثرات سے دُنیا بھر کی قدیم تہذیبوں نے بھی بھرپور استفادہ کیا۔
ماضی کی تحقیق کے ادق مگر کثیر با رونق صفحات نے ہمیں یہ بات باور کرانے میں ذرا تاخیر نہ کی کہ ہندوستان کی اس قدیمی داستان کی بنیادیں تلاش کرنا ایسا آسان نہیں۔ اس دلچسپ داستان کے کثیر نسخوں اور دُنیا بھر کی معروف و مقبول حکمت آمیز داستانوں پر اثرات کے سبب اس کی قدامت، منبع اور بنیادی ماخذات کا سُراغ لگانا بھی ایک کارِ دُشوار ثابت ہوا۔ تاہم قدم قدم پر حکمت، تدبّر، عقل، فہم، دانائی اور سمجھ بُوجھ کی بصیرت پر مشتمل یہ ایسی کم یاب و نایاب میراث تھی جس سے فیض یاب ہونا ہمارے لیے ہر چیز سے بڑھ کر تھا۔
ترقّی یافتہ قومیں اپنے قدیم ثقافتی ورثوں کو کسی قیمتی تحفے کی مانند، اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرتی ہیں۔ اس ضمن میں بک کارنر جہلم ایسا ہی اہم ادارہ ہے جو ایسی نادر و نایاب کتب کو، قدیم ثقافتی میراث کی صورت، دلکش اور جاذبِ نظر صورت میں شائع کرتے ہوئے، اپنے قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کرتا ہے۔ محترم گگن شاہد صاحب اور امر شاہد صاحب کا بےحد شکریہ، درحقیقت اس ادق کام کے پیچھے ان کا مخلصانہ اصرار اور عمیق توجہ شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ کام کبھی اپنی تکمیل تک نہ پہنچتا۔ عمدہ کتب کی اشاعت کے معاملے میں ان دونوں بھائیوں کا ذوق، شوق اور جذبہ قابلِ داد، قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔
مَیں اپنے بے حد محترم اساتذہ، والدین، شاگردوں، اہلِ خانہ اور ان تمام عزیز و مشفق ہستیوں کی شُکر گزار ہوں کہ جو ہمیشہ میرے گرد اپنی بے ریا شفقت، بے انتہا محبّت اور بے حد مخلص دُعاؤں کا پیار بھرا حصار قائم کیے رکھتے ہیں۔ خدا ان سب کی عمر دراز کرے، آمین۔
آخر میں اہلِ علم و اَدب کی خدمت میں صدیوں کی دانش پر مشتمل یہ داستان، اپنے اندر موجود امن و آشتی کے پیغام کے سبب، ایک ایسے گراں قدر تحفے کی مانند پیش کی جا رہی ہے جس کی اس دورِ پُرآشوب کو بے حد ضرورت ہے۔ اُمید ہے اہلِ ذوق اس ادنیٰ کاوش کو سندِ قبولیت عطا فرمائیں گے۔