جیسے صنوبر کا درخت اپنے اندر زمان و مکان سمیٹے ہوئے ہے صدیوں کے جبر سے لڑنے کے باوجود زندہ ہےاسی طرح صنوبر کی شاعری بھی اس عورت کی کتھا ہے جو صدیوں کے ظلم و ستم کے بعد کم از کم اس مقام پر ضرور آ گئی ہے جہاں وہ آزاد نہ سہی مگر آزاد سوچ ضرور رکھتی ہے ،اپنے من میں دبی چنگاریوں کو سلگا سکتی ہے کہ شاید کہیں لمحہ بھر کے لئے سہی اندھیرےمیں کوئی شگاف تو ڈل جائے ۔’’ کائنات کے بیک یارڈ سے ‘‘ کے نام سے صنوبر الطاف کی نظموں کا مجموعہ حال ہی میں سامنے آیا ہے ۔کائنات کا بیک یارڈ ایک تو وہ ہے جو ہم سے تیرہ چودہ نوری سال کے فاصلے پر اپنی کوکھ سے ستاروں کو جنم دے رہا ہے اور دوسرا بیک یارڈ اس عورت کی کوکھ ہے جہاں سے انسان جنم لیتا ہے ۔جیسے ستاروں کی منزل کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں کہ وہ کیوں دائروں کے سفر پر ہیں اسی طرح انسان بھی صراطِ مستقیم کی تلاش میں دائرے کاٹ رہا ہے ۔ وہ اپنی ذات میں ایک ستارے کی طرح تنہا ہے ۔یہ تنہائی صنوبر کی ہر نظم میں جھلکتی نظر آتی ہے جس کا تجربہ ذاتی مگر تاثیر کائناتی ہے ۔
ایک نظم ہے :
دریا ٹھہرا ہے
دریا ٹھہرا رہے گا
برف پہاڑوں پر نہیں مسکرائے گی
میری آنکھیں جیبوں میں دھنسی رہیں گی
اور کانوں پر برائے فروخت کے ٹیگ چپکے رہیں گے
وہ خود کو دراز میں ڈال کر بھول چکا ہے
وہ نہیں آئے گا
سورج ہتھیار ڈال دے گا
ستارے شکار ہو جائیں گے
اور راتیں منبروں پر چڑھ کر چیخیں گی
چاند صلیب کے پیچھے چھپا رہے گا
اندھیرا رات کو فالج زدہ بنا دے گا
لیکن وہ نہیں آئے گا
اٹھو
موم بتیاں قبرستان کے ایک گیلے ڈھیر پر لگا دو
گوتم بدھ اپنی شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی گھر سے جنگلوں کے سفر پر روانہ ہو گئے تھے ۔صنوبر ، بدھا کا وہ سفر جو نروان کے لئے تھا اس کے بارے میں ہمیں ایک نیا پہلو دکھاتی ہیں یہ پہلو ایک عورت ہی کو نظر آ سکتا ہے ۔حیرت ہے ہرمن ہیسے سدھارتھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وہ سدھارتھ سے باتیں کرتی ندیوں اور سرگوشیاں کرتی ہوا کی زبان ڈی کوڈ کر لیتا ہے، اسے سدھارتھ کے ماضی میں کپل وستو کا شہزاد ہ تو نظر آتا ہے مگر وہ رانی نظر نہیں آتی جو صنوبر کو نظر آتی ہے :
ایک نظم ’’بدھا تمہارے جانے کے بعد‘‘ کا بند ہے
میں نے سنا ہے !
تمہیں نروان مل چکا ہے
تم اب کہیں کے خدا ہو
یہ بھی سنا ہے کہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں
سکون کی تلاش میں
ایک لامحدود داخلی سکون
سدھارتھ! تمہیں انہیں کون سا سکون دیتے ہو ؟
وہی جو تم نے مجھ سے چھینا ؟
میرے سدھارتھ !
میرے بدھا !
او میرے خدا!
ایک اور نظم میں وہ بدھا کے خدا سے مخاطب ہیں :
تم نے ہم پر صحیفے نہیں اتارے
ہماری کوکھ نے وہ پیغمبر جنے
جن پر تم نے درود بھیجے
وہ فلسفی بھی
جن کی کتابوں کی تم صبح شام تلاوت کرتے ہو
اور وہ سائنس دان
جن کے نام کی دن رات تسبیح جپتے ہو
مگر تم نے اپنی تاریخ سے
کسی جمی ہوئی دھول کی طرح ہمیں اڑا دیا
ایک نقلی تاج پہنا کر
ہمیں بوسیدہ درخت پر بٹھا دیا
جو کہیں ہوا میں کھڑا تھا ۔
ایک اور نظم ’’جاں بحق لفظوں کا جنازہ ‘‘ کا ایک بند کیا ہی حسب حال ہے :
ہمارے جسم ہینگروں پر لٹکے ہیں
جنرل سیلز ٹیکس کے ساتھ
ہمارے سیاستدانوں نے وراثت میں ہمیں
نیوز اینکر دیے ہیں
جو ہمیں کوئی خوش خبری نہ سنانے کی تنخواہ لیتے ہیں
یوں تو ڈاکٹر صنوبر کی ہر نظم ہی کمال ہے جس کا اندازہ آپ کو یہ کتاب پڑھنے سے ہی ہو سکتا ہے ۔یہ نظمیں آپ کو زیارت کی ریذیڈنسی کے ساتھ کسی پہاڑی پر صدیوں سے کھڑے ہوئے صنوبر کے درخت جیسی مہک میں لپیٹ دیں گی ۔ہاں ایک بات یہ نظمیں آپ کو تنہا ئی کا احسا س دلائیں گی بالکل اسی طرح جس طرح صنوبر کا درخت اتنا تنہا ہے کہ اسے عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے ۔