fbpx
تبصرہ کتب

ٹرین ٹو پاکستان / امر شاہد

 

ٹرین ٹو پاکستان‘‘ اور کچھ وضاحت:

خوشونت سنگھ کا کلاسیکی ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ پہلی مرتبہ 1956ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوا۔ مقبولیت بڑھی، کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ پاک و ہند میں صرف اردو زبان کے اب تک پانچ سے زائد ترجمے ہو چکے ہیں۔ 2020ء میں بک کارنر جہلم نے اس ناول کو شائع کیا۔ ترجمہ مسعود منور کا تھا۔ کتاب کو اپنے موضوع اور پراڈکشن کی وجہ سے بےپناہ مقبولیت ملی۔ کچھ لوگوں نے اپنی رائے دی کہ یہ ترجمہ مکمل نہیں ہے اور کئی مقامات پر اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ پس ایڈیشن ختم ہوا، ادارہ نے اس ترجمے کو دوبارہ نہ چھاپنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ادارے کے قابل اور سینیئر مترجم یاسر جواد سے اس ناول کا نئے سرے سے ترجمہ کروایا۔ یاسر جواد حال ہی میں خوشونت سنگھ کا مقبول ترین ناول ’’دلی‘‘ کا بھی ترجمہ کر چکے ہیں۔ اس ترجمے کا شاندار استقبال ہوا۔ اب ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کے اس نئے ترجمے کے بارے میں ادارہ فخر اور اعتماد سے کہہ سکتا ہے کہ یہ اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا مکمل اور مستند ترجمہ ہے۔ ادبی چاشنی اور زبان و بیان بالکل ایسی کہ خوشونت سنگھ کا ہی اسلوب ہو۔ یاسر جواد نے کڑی محنت اور دیانت داری سے اس کلاسیک کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں، آپ بھی پڑھیے:

”گوگل کرنے پر آپ کو بطور اسم صفت ’’کلاسیک‘‘ کی سادہ ترین تعریفیں یہ ملیں گی: (1)ایسا اعلیٰ ترین معیار کا فن پارہ جو اپنی طرز میں غیر معمولی ہو۔ (2) اپنی نوع کا ایک اعلیٰ نمونہ، جیسے شیکسپیئر کا فلاں ڈراما کلاسیک ہے۔ بطور اسم یہ کسی تسلیم شدہ وقعت والے فن پارے کو کہتے ہیں۔
ہم عام طور پر کلاسیکی صرف اُسی چیز کو کہتے ہیں جو کئی صدیاں پرانی ہو۔ میں اور آپ اُس فن پارے کو کلاسیک کہہ سکتے ہیں جو مستقل اور غیر معمولی وقعت کی حامل تخلیق ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ اُس کی معنویت میں اضافہ ہوا ہو۔ غالب کلاسیک ہے، جعفر زٹلی نہیں، ہیر وارث شاہ کلاسیک ہے، ہیر دمودر نہیں۔ کلاسیک فن پارے معنی کے بچے دیتے اور بدلے ہوئے وقت سے تعلق جوڑتے ہیں۔ میرے لیے فیض اور راشد بھی کلاسیک ہیں۔
اور خوشونت سنگھ کا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ تو بلاشبہ کلاسیک ہے۔ یہ صدیوں کی تاریخ میں برصغیر اور بالخصوص پنجاب کے لوگوں پر گزرنے والی سب سے بڑی آفت کا ریکارڈ ہے جس نے معاشرے کا تانا بانا ہی مسخ کر دیا۔ پنجاب اِس کے بعد متواتر تقسیم در تقسیم کے صدمات سے گزرتا رہا۔ ڈی جی خان اور گوجرانوالا یا امرتسر میں رہنے والے شاید ایک دوسرے کے علاقے میں کبھی نہ گئے ہوں، لیکن ایک ہی تہذیب کی پیداوار ہیں۔ تہذیب کی طرح تقسیم کے بھی تخم ہوتے ہیں۔ یہ تخم اِس تہذیب پر آکاس بیل کی طرح چھا گئے ہیں۔
لیکن کلاسیک چیزوں کو دوسری زبان میں منتقل کرنا بہت احتیاط، توجہ اور ایمان داری کا تقاضا کرتا ہے۔ ترجمے کا معیار وغیرہ بعد کی بات ہے، پہلے کم ازکم متن کو تو ذبح نہ کریں۔ اِس ناول کے دو تین اردو تراجم ہو چکے ہیں۔ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے دنوں میں جتنا ظلم انسانیت پر ہوا تھا، اُتنا ہی اِس ناول سے اُردو مترجمین نے بھی کیا۔ میں نے دستیاب تراجم کا اصل متن سے موازنہ کیا تو دہل کر رہ گیا۔ دو سو صفحات کے اِس ناول میں کہیں سے پندرہ اور کہیں سے دس صفحے حذف کر دیے گئے تھے۔
آپ ظالمانہ کاٹ چھانٹ کا اندازہ اِس امر سے کر سکتے ہیں کہ ستّر ہزار الفاظ کے ناول کو محض پینتیس ہزار الفاظ پر مشتمل رپورٹ سی بنا دیا گیا۔ پیراگرافس کو توڑنے، پوائنٹ سائز بڑھانے، اضافی مضامین شامل کرنے اور لائنوں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کے ذریعے مواد کی کمی پوری کی گئی۔
شاید آپ اِس اعتراض کو پیشہ ورانہ حسد کہیں، لیکن کبھی موقع ملے تو چند صفحات کا موازنہ ضرور کر کے دیکھیں۔”

 

لکھاری کا تعارف

امر شاہد بک کارنر شو روم کے مالک ہیں۔ نہ صرف علمی و ادبی ذوق رکھتے ہیں ، بلکہ اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے کوشاں بھی ہیں۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے