کتاب —— نِروان گھڑی کا سَپنا ( مُکتی کے لَمحوں میں دیکھا جانے والا خَواب ) •
شاعر ——— ثاقب ندیم
شاعر، فنِ شاعری اور شریعت اپنا جواز آپ مہیا کرتے چلے آئے ہیں اور یہ سلسلہ جنبال یونہی چلتا رہے گا۔ ڈھب دار شاعری کیفیاتی مِشرن کا نچوڑ ہوتی ہے۔ جس کے سامنے قد آدم انسان بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ شاعری وضع داری اور کِردار آفرینی کا دوسرا نام ہے۔ جس طرح اِک جہاں معاشرہ شناس یعنی ( روزگار کے حصول سے اور ازدواجی زندگی سے جُڑا ہوتا ہے )
تو وہیں دوسرا جہاں
Density, Death, Dream,Distructoin,Desire,Dispair,Delirium,
یعنی کہ Multiverse سے منسلک ہوتا ہے۔
اِس Matrix میں ذہین و فطین دِماغ، ششدر کر دینے والی Imagnaries، اور جمالیات کے گٹھ جوڑ سے ایسا سَماں منظرِ عام پر پرکٹ کرتے ہیں۔ جس کو عقل تسلیم کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتی جبکہ حیرت ٹامک ٹوئیاں ضرور کھا جاتی ہے۔
بقول —— ارسطو
” نقل جمالیات کی ایک بنیادی اصطلاح ہے”
ارسطو لفظ بوطیقا کا اطلاق شاعری پر کرتا ہے۔ بوطیقا میں نقل، فطرت، شاعری کی اصل، اور شاعری کا آفاقی نظریہ پیش کیا ہے۔
نِروان گھڑی کا سَپنا ثاقب ندیم کا پہلا نظمیہ مجموعہ ہے۔ جس میں جمالیات کی نقل ہوبہو اصل سی کی گئی ہے۔ اِس نظمیہ مجموعے کی فضاء اِس غیر ہموار ماحول میں اپنی اَلگ شناخت رکھتی ہے۔ جس کی تابناکی دھیمے پن کی پگڈنڈیوں پر رواں ہونے کے بعد پوری آب و تاب سے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ جس کی یخ بستگی دلوں کے برف زاروں پر محبت کے پھول کھلاتی ہے۔ نِروان گھڑی کا سَپنا نظمیہ کہکشاؤں میں بذاتِ خود ایک دلکش کہکشاں ہے۔ جس میں کاٹ دار مصرے، پُرمسرت سطریں، معطر اِستعارے، نپا تلا کَسا ہوا تلازمہ، خیالات کی مکمل ترسیل کرتا ہوا ابلاغ، مُعتَقِد تازہ کار اُسلوب ہے۔ جو قرن در قرن سینوں، ذہنوں، ثقافتوں، سماجوں، میں محوِ سفر رہے گا۔
نِروان گھڑی کا سَپنا کتاب کا ٹائٹل دماغی ترنگوں کو دلی اُمنگوں کے ساتھ ٹانک دیتا ہے جبکہ خیالات داخلی کیفیت کو ساکت کرتے ہوئے خارجی کیفیت کو وہی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ اس نظمیہ مجموعے کی Selection میں تخلیق کار نے اِستحکام سے کام لیتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ نظموں کا مطالعہ کرنے پر قارعین خود نظم کی گرہیں اوج گیری سے کھول سکتے ہیں۔ وسعتِ خیال دلنشیں حد تلک مخملیں، شیریں، اور عمق ہے۔
ثاقب ندیم کی نظموں کا خاصہ یہ ہے کہ اُن کا سحر کسی طِلِسم سے کم نہیں۔ قاری نظموں کی سیرو سیاحت پر یوں رختِ سفر باندھتا ہے جیسے واپسی کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ اِن کے ہاں خیال، لفاظی، تراکیب، اِس قدر زندگی سے جُڑے ہوئے ہیں کہ اجنبیت کا احساس تلک نہیں ہوتا۔ زندگی سے جڑی شاعری ہی زندگی کی مِتھ ہے۔ شاعر اپنے دور کا سب سے بڑا مؤرخ ہوتا ہے۔ جو صفحۂ زیست پر ایسے رنگ بکھیرتا ہے جن کی دمک صرف تا ابد تک باقی رہتی ہے۔ جن کی مہک سے چہروں کے پھول ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ خدائے متعال اِن کا شعری سفر یونہی تازہ دم رکھے اور انہیں ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔ آمین•
——————————!
نِروان گھڑی کا سَپنا——— || انتخاب شدہ نظمیں ||
• ایک سوال کی زد میں
وہ کیا بلا ہے جس نے اب کے
زندگی کا قاعدہ بدل دیا ہے
تختیوں کی گاچنی میں
سُرخ اور سیاہ سے
ضوابطِ حدود کو رقم کیا ہے
خاک زاد
اپنی اپنی کھال میں چھپے ہوئے ہیں
دن تو اپنے راستے پہ گامزن تھا
رات نے ہی دوپہر میں آ لیا ہے ۔۔۔۔۔۔
• قرنطینہ میں مصروفیت کی ایک نظم
فیس بک پہ اس کو اچھے
لفظوں کا سندیسہ بھیجوں
ہر اک پوسٹ کو غور سے دیکھوں؟
دیکھوں کس نے کیا لکھا ہے ؟
کس تخلیق میں کتنی شعریت ہے؟
کون سی کتنی لوجیکل ہے
کس میں بالکل جان نہیں ہے
کس تخلیق کو ” واہ ” کہنا ہے
کہ ان پہ بات مفصل کرنی
کس کو بس لائک ہی کرنا کافی ہے
کس شاعرہ کے پھیکے مصرعوں—— نے ہے
کتنی داد اٹھائی۔۔۔۔۔۔
• آٹھواں دن
دیواریں ہیں
دیواروں میں خاموشی کے
چھوٹے چھوٹے در کھلتے ہیں
کوئی نہیں ہے
میں ہی میں ہوں
کمرے کے ہر کونے میں —— میں
دروازے کے سوراخوں سے
اندر جھانکتی آنکھوں میں—— میں
یہ دیکھو—— یہ نیچے دیکھو
یہ نیچے میں پڑا ہوا ہوں
اپنے ہی دعوؤں کے نیچے
اپنے ہی خوابوں کے نیچے
دس اور دس کا شہر بسائے
( چودہ دن کی عمر ہے جس کی )۔۔۔۔۔
• یک طرفہ راستے کا مسافر— ( جاوید انور کے لیے )
کیسے یک طرفہ رستے نے
ڈھلتے دن میں تجھے پکارا
کونسی ایسی راہ تھی جس پہ
چل دینے سے
ایذراپاونڈ کا گھر آتا تھا
تجھے پتا تھا
تجھے پتا تھا، آخر اک دن
لے سالومے
باگیں کھینچتی رہ جائے گی
اور اک چپ سے
مارکیز کے سنکی خواب کے
سارے کونے بھر جائیں گے
ایش ٹرے میں رکھا سیگریٹ
یونہی رکھا رہ جاتا ہے
خالی کرسی خالی رہ رہ تھک جاتی ہے
جن رستوں پہ خواب سناتے، نظمیں کہتے جیون بیتا
جس فٹ پاتھ پہ باتیں کرتے رات بتائی
جن جھیلوں میں سورج ڈوبنتے ہم نے دیکھے
جن رستوں پہ ڈگ بھرتے تھے
وہ پوچھیں تو کیا کہنا ہے؟۔۔۔۔۔
• کون مجھے پہچانے گا
خواہش کی تتلی کے پیچھے
بھاگتے بھاگتے اونگھ گیا تھا
آنکھ کھلی تو
سات سمندر پار کھڑا ہوں
سات سمندر پار کی مٹی تلوے چاٹتی رہتی ہے
سوندھی خوشبو والا ساون
کس منظر کا رزق بنا ہے کسے پتہ ہے
آوازوں کا اک دریا ہے
اس دریا میں بہتے بہتے بہہ جاتا ہوں
دوری میں جو خواب چھپے ہیں
بھاگتے بھاگتے ان کے پیچھے
اکثر تنہا رہ جاتا ہوں
کون مجھے پہچانے گا؟
• پھیلتے دل کا سِکّہ
جیبوں میں سِکّوں کی چھن چھن
جلتا ایندھن
اور انجن کی دل کو صحرا کرتی کوک
کھڑکی کا شیشہ دھندلا کرتی اس کی سانسیں
اور آنکھ سے گرتی ہوک
ایک اداسی دل کا چہرہ
کن رنگوں سے بھر دیتی ہے
میں سکے کو
دل پر رکھ کے
دل کو پٹڑی پر رکھتا ہوں
اور اداسی جیبوں میں
دیکھو ریل کے آنے میں اب دیر نہیں ہے
• بیمار نسوں کا کرب
کہاں وہ بھی دن تھے
حرم عورتوں اور زیتوں کی خوشبو سے مہکے ہوئے تھے
محبت کے کشکول بھرتی ہوئی
دیویوں کی ہنسی
ہر طرف گونجتی تھی
کہاں یہ بھی دن ہیں
کہ اب زیرِ جاموں میں اعضا چٹختے ہیں
جنبش کہاں کھو گئی ہے ؟
کرشموں سے خالی یہ کھوٹی حرارت بھی
اک واہمہ ہے، تجسس ہے اور دیویاں ہنس رہی ہیں
مگر زیر جاموں میں سکتہ۔۔۔۔؟
یہ زیتوں کی خوشبو کا قصہ عجب ہے
غضب ہے کہ تو دیکھتا ہی نہیں
یہ کھلونے کسی کرب میں مبتلا ہیں
محبت کے کشکول اوندھے پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔
• مہا گرو سچا
کہا ہے یہ اس نے خدا کس نے دیکھا؟
خدا چشمِ بینا کے کھلنے سے پہلے بھی غائب تھا
اب بھی ہے
اور تم اسے یاد کرتے ہو
جس نے تمہیں چلچلاتی ہوئی دھوپ دی
ایک سو بیس ڈگری میں جھلسو تو دیکھو
وہ صحرا کی خاموشیوں کو
تمہاری کراہوں سے توڑے گا
اسی نے بتایا
ہوا اب اسی کے اشارے سے چلتی ہے
اور عقل کا توسنِ تیز پا اب
تھکن کے سمندر میں مستور ہے
یہ ہوا اپنی منقار میں
اسلحہ لے کے پھرتی ہے
اس نے کہا ہے کہ منقار میں اسلحہ لے کے پھرتی ہوئی
اس بلا کو
جو رستے دیکھاتا ہے
وہ نقشِ باطل نہیں ہے—— وہ میں ہوں
مجھے دیکھ لو اور خدا کس نے دیکھا
وہ چشمِ بینا کے کھلنے سے پہلے بھی غائب تھا اور اب بھی ہے۔۔۔۔۔
• سوال کے آئینے میں جھانکتی نظم
میرا تعلق ہے اس نگر سے
جہاں کے خواجہ سرا معزز
میں دست بستہ، زباں بریدہ، بدن دریدہ،
کمر خمیدہ، حقیر کیڑا
میں پست قامت
میں اپنی دنیا سے بےتعلق
سوال کیسا؟
میرے لبوں پہ سوال پستہ
ہیں ذہن و دل میں خیال پستہ
یہ طے شدہ ہے
میری بہاروں کے رنگ پھیکے
معزز زینِ نگر سے کوئی تو پوچھے
سوال وہ جو دراز قد ہو
سوال وہ جو
مرے تعلق کا اِس زمیں سے
مجھے پتہ دے
خیال وہ جو مجھے بہاروں کی رہ دِکھا دے
• باتوں سے نکلی باتیں
کچھ باتیں میز کے کونے پر ہی
کتنے دن سے پڑی ہوئی ہیں
ڈر لگتا ہے ہوا چلے تو گِر نہ جائیں
بیتے لمحے الماری میں
کئی برس سے بند پڑے ہیں
میرے دل کا اہم اثاثہ
خواب پرانے
کچھ کڑوی کچھ میٹھی باتیں
ہلکی دھوپ میں تنہا بیٹھے شخص کی کافی
جانے کیسے ٹھنڈی ہو گئی
باتیں اپنے آپ میں ایسے گم رکھتی ہیں
خواب دکھاتی، درد جگاتی
باتیں اس کی نظموں جیسی پراسرار ہیں
نازک جیسے گیلا کاغذ
اور آنکھوں میں ویرانی کو بھرتی باتیں
کہیں شفق پر سورج ڈوبنے کی ویرانی
کچھ باتوں سے جھیل میں کنکر جیسی ہلچل
کچھ باتوں کی خاموشی میں ڈوبا ساحل
کچھ باتوں میں کوئی نشانی ہوتی ہے
کچھ باتوں سے دل کی باتیں کر لیتا ہوں
کچھ باتوں سے میز کا کونہ بھر لیتا ہوں
میز کا کونہ باتیں کرتا رہتا ہے
• Dyepnoea ( سانحہ پشاور پہ )
ہوا ذائقے میں کسیلی ہے
سپنے بھی تعبیر کی جستجو میں
کئی دن سے سجدے میں ہیں
اور معدوم ہوتی کراہوں میں
نفرت کا سازینہ بجتا ہے
آنکھوں سے حیرت کا چشمہ ابلتا ہے
خوں رنگ تعبیر ملبے کے نیچے
دبی رہ گئی ہے
کسی ناتواں خواب کا بس نہیں ہے
کہ تعبیر ڈھونڈے
ابھی تو ہوا ذائقے میں کسیلی ہے
میلی ہے سانسوں کی بپتا میں معدوم ہوتی
ہوا ذائقے میں کسیلی ہے
————————————
علی زیوف