fbpx
تبصرہ کتب

مٹی آدم کھاتی ہے / تجزیہ : ناصر عباس نئیر

 

اُردو افسانے میں اپنا نقش قائم کرنے کے بعد محمد حمید شاہد نے ناول ”مٹی آدم کھاتی ہے“ لکھا۔ اسے مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھے گئے مٹھی بھر اُردو ناولوں میں ممتاز حیثیت کا حامل کہنا چاہیے۔ تاہم ایک نازک موضوع پر جرأت مندانہ انداز میں لکھنے کے سبب ہی نہیں، اپنے اُسلوب اور تکنیک کے باعث بھی، یہ ناول جس توجہ اور تحسین کا مستحق تھا، وہ ان سے محروم رہا ہے۔ اچھی کتابوں کا عمومی حافظے کا حصہ نہ بننا المیہ ہوتا ہے۔ خود یہ ناول ایک بڑے المیے سے متعلق ہے۔

یہ ناول اگرچہ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے پس منظر میں لکھا ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے انھوں نے قدرتی آفت اور تاریخی آفت کو ایک دوسرے کے متوازی رکھا۔ ایک دل چسپ اتفاق یہ ہے کہ قدرتی آفت کے ملبے سے، تاریخی آفت اور انسانی مصائب کا قصہ بر آمد ہوتا ہے۔

2005ء کے زلزلے نے کئی گاؤں، وادیوں، پہاڑوں، دریاؤں کو اُلٹا دیا تھا۔ اس تباہی کا شکار ایک حویلی بھی ہوتی ہے۔ اس کے ملبے سے ایک کہانی کا مسودہ برآمد ہوتا ہے جو اشاعت کے لیے ایڈیٹر کے پاس پہنچتا ہے۔ یہ ناول، ایڈیٹر کے نوٹ کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ گویا زلزلے نے جو ملبہ اُگلا، اس میں فراموش کی ہوئی آفت نما تاریخ کے اوراق بھی برآمد ہوئے۔ علامتی طور پر یہ اپنی ہی یادداشت کے ملبے سے، اپنے ہی فراموش کردہ المیوں کی بازیافت ہے۔ ناول کا بیان کنندہ، پہلے خود کو ناول سے الگ رکھتا ہے، پھر ناول کی کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ناول گاؤں کے سردار خان گل باز خان کے بیٹے دلاور خان؛ خان جی کی کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ ایک روایتی خود پسند، طاقت کا جویا کردار ہے۔ وہ اپنے بھائی کو اس لیے قتل کرا دیتا ہے کہ وہ جائیداد میں حصہ مانگنے آیا تھا۔ پورے ناول کے مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک خاندان کے بڑے اور چھوٹے بھائی کی المناک کہانی، ایک مملکت کے بڑے اور چھوٹے حصے کی کہانی کی تمثیل بن گئی ہے۔ مملکت کا چھوٹا حصہ، اپنا حق مانگتا ہے تو بڑا حصہ سردار گل باز خان بن جاتا ہے، جسے اپنی ذات و انا سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں۔ یہ سفاک حقیقت کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو حق مانگنے پر قتل کیا ہے، مقتول بھائی کا بیٹا سلیم جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے مگر بے بس ہے۔ یہی بے بسی اس وقت بڑھ جاتی اور ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے، جب وہ آگے چل کر کچھ دیگر بڑی سچائیوں کے رو برو آتا ہے۔ وہ فوجی بن کر مشرقی پاکستان جاتا ہے، وہاں کے حالات کا بچشم خود مشاہدہ کرتا ہے اور وہاں سے فرار ہو کر واپس حویلی آتا ہے، ایک پاگل پن کے ہمراہ۔ حالاں کہ وہ منیبہ کو ہمراہ لانا چاہتا تھا۔ (اس حصے میں ناول نگار گویا تنے رسے پر چلتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ تاریخ کی کڑوی سچائیوں کو راست کم اور تمثیلی انداز میں زیادہ سامنے لاتا ہے۔) منیبہ، اس بنگالی خاندان کی بیٹی ہے جسے پاکستان کا حامی دکھایا گیا ہے۔ وہ اس کے دوست میجر جلیل کی بیوی ہے، مگر ایک روایتی بنگالن ہے، اسے موسیقی اور فنون سے محبت ہے۔ موسیقی و فنون، اسے تشدد سے نفور رکھتے ہیں۔ وہ سلیم کے ساتھ آنے کے لیے، رات کو ساحل پر کشتی میں سوار ہونے آتی ہے، مگر اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، کوئی اس پر گولی چلا دیتا ہے۔ اس اقدام سے صرف محبت پر تشدد اور موت کو غالب نہیں دکھایا گیا بلکہ بنگال کے پاکستان سے تعلق کی موت کی علامتی نمائندگی بھی کی گئی ہے۔ اتنی سفاک حقیقتوں کے سامنے، اپنے کمزور و بے بس ہونے کا احساس ہی، سلیم کو پاگل بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے ”گھر“ میں پاگل پن کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں۔

منیبہ، اس ناول کا یادگار کردار ہے۔ اگرچہ ناول میں سلیم اپنے جذبات کے اظہار میں قدرے بے باک ہے اور منیبہ خاموش دکھائی گئی ہے، مگر اس کی خاموشی جتنی گہری ہے، اتنی گویا بھی ہے، اور اسی لیے وہ قاری کے ذہن میں اپنی شخصیت کا مستقل نقش چھوڑ جاتی ہے۔ کہانی کا راوی بھی دل چسپ کردار ہے کہ وہ دو باپوں میں بٹا ہے۔ وہ فقیریے جولاہے کے گھر پیدا ہوا، جو بڑے خان کے اصطبل میں ملازم ہے، مگر اس کا اصلی والد بڑے خان کا چھوٹا بیٹا ہے جس نے اس کی ماں سے شادی کی مگر جن دنوں وہ حمل سے تھی، اسے طلاق دے دی گئی۔ کہانی کے راوی کو حویلی کا خان اپنے گھر کا فرد بنا لیتا ہے۔

ناول کی تکنیک بلاشبہ، قاری کو متاثر کرتی ہے۔ تکنیک پر مصنف کی اچھی گرفت ہے۔ وہ شروع سے آخر تک، مسودے کی موجودی اور اس کے کٹے پھٹے ہونے کا احساس اُبھارتا ہے اور اس کے ٹکڑوں کو جوڑ کر کہانی آگے چلاتاہے۔ ”مسودے کی تکنیک“ میں کئی ناول لکھے گئے ہیں، جن میں ولادی میرناباکوف کا ”دی پیل فائر“، امبرٹو ایکو کا ”دی نیم آف روز“، پاؤلو کوئیلو کا ”منیوسکرپٹس فاؤنڈ ان آرکا“، اورحان پاموک کا ”سفید قلعہ“ اور جانے کتنے۔ اُردو میں سریندر پرکاش کا افسانہ ”بازگوئی“، شمس الرحمٰن فاروقی کا ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“، خالد جاوید کا ”موت کی کتاب“، انیس اشفاق کا ”خواب سراب“، عاصم بٹ کا ”بھید“۔ سوائے سریندر پرکاش اور فاروقی کے باقی سب، حمید شاہد کے ناول کی اشاعت کے بعد لکھے گئے ہیں۔ مغربی ناولوں میں خود مسودہ بھی اپنے تشکیلی اجزا کے ساتھ زیرِ بحث آتا ہے، جب کہ حمید شاہد (اور دوسرے اُردو ناول نگاروں کے یہاں بھی) یہ مسودے کی تکنیک، دراصل کہانی کی زبانی اور تحریری روایتوں کو یکجا کرنے اور ان سے ایک نئی طرز کی کہانی وضع کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ زبانی اور تحریری، دونوں طرح کی کہانیوں میں کئی رخنے رہ جاتے ہیں، جنھیں اس تکنیک کے ذریعے پُر کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس تکنیک کا حمید شاہد کے ناول کے موضوع سے بھی گہرا تعلق ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان ایک بڑا المیہ تھا مگر ہم نے اسے فراموشی کے ملبے کی نذر کیا ہوا ہے۔ حمید شاہد باور کراتے ہیں کہ فراموشی خواہ کتنی ہی طویل اور دبیز ہو جائے، المیے ملبے تلے موجود رہتے ہیں۔ موضوع و تکنیک کی ہم آہنگی کی اتنی عمدہ مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے