ایچ بی بلوچ کا نظمیہ مجموعہ ” اداس لہر کا آخری زینہ “ میرے سامنے ہے اس کے نام کی معنویت میں جمالیات اور رومانویت کی پراسرار گہری اداسی پوشیدہ ہے جو نہ صاف چھپتی ہے اور نہ صاف دکھائی دیتی ہے قاری کی تیسری آنکھ ہی اس اسرار کو کھول سکتی ہے ان نظموں کا شاعر اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر اپنی الگ پہچان رکھتا ہے اپنے عہد اور سندھی تہذیب کے ساتھ جڑی ہوئی یہ نظمیں رومی کے رقاصوں کی طرح اداسی کی لہر میں گھومتی سلاست ،روانی اور تازگی لیے پراسرار معنویت سے آراستہ خیال کو اظہار سے روشناس کرانے کی عمدہ مثال ہیں
ایچ بی بلوچ کی نظموں میں تشبیہ اور استعارہ کا استعمال نہایت عمدگی سے ملتا ہے وہ جذبے کی شدت کو بڑی ہنر مندی سے پیش کرتے ہیں فنی محاسن دراصل نظم کا حُسن سمجھے جاتے ہیں اور ان کے ہاں یہ حسن بدرجہ اتم موجود ہے جیسے کائنات کے آہنگ کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اسی طرح ان کی نظموں میں ایک غیر محسوس موزونیت پائی جاتی ہے ۔
تمہارا نام
کسی تذکرے میں ملنے پر
محبت زدہ اماوس کے بدن سے
پھلجھڑیاں جھڑتی تھیں
جیسے ٹرین کی دھمک سے بھرپور پھول جھڑ پڑتے ہیں
اور ہر سو خوشبو پھیل جاتی ہے !
ایچ بی بلوچ کی نظمیں فکر کی چاشنی لیے ہوئے ہیں ۔ ان کی ہر نظم قاری کو دعوتِ فکر دیتی ہے ۔ اچھی نظم کی خاصیت ہے کہ وہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور قاری کو ایک نئی دنیا کی سیرکراتی ہے ۔ ایچ بی بلوچ کی نظموں میں مناظر فطرت کی عکاسی بھرپور انداز میں ملتی ہے وہ مظاہر کو نہایت عمیق نظری سے دیکھتے ہیں اور اسے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ انہیں لفظوں پر مکمل گرفت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جب نظم لکھنے ہیں اور اس میں کوئی خیال پیش کرتے ہیں تو وہ بڑی عمدگی او ر نفاست لیے ہوئے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نظمیہ پیکر اداس پگڈنڈی پر تجرید و تجسیم کی نئی فضا تخلیق کرتے ہیں۔
وہ صرف اپنی ذات کی الجھن سے برستا ہے !
محبت کی طرح
وہ ہوا میں بنتا ہے
اور ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے !
لیکن ایک درخت کا دل
موسم سے بہت بڑا ہوتا ہے
کیونکہ
اس کی جڑیں ہمیشہ زمین کے اندر ہوتی ہیں !
دراصل لفظوں کی نشست و برخاست پر دسترس رکھنے والے شعراء ہی غیر عروضی نظم کو بہتر انداز میں لکھ سکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نظموں کی ایک اپنی دنیا ہے اس میں لفظیات بھی اپنی چلتی ہیں ۔ وہ ایک مخصوص ماحول میں لکھی جاتی ہے اور اس کے لیے مخصوص لفظیات ہی زیر استعمال لانی چاہئیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ ایچ بی بلوچ نے ان نظموں کو نہ صرف منفرد لفظیات فراہم کی ہیں بلکہ سندر خیالات سے انہیں سنوارا بھی ہے ۔ ان کی نظمیں اداسی ، تنہائی ، محبت اور فلسفہ کے گرد گھومتی ہیں ان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ان کی نظمیں امیج بناتی ہیں جو ان کی ذاتِ اور ماحول سے ابھرتا ہے اور پھیل کر پوری کائنات بن جاتا ہے یہ امیج جامد نہیں متحرک ہے جو ان کی متحرک نظمیہ جہات کا علامیہ ہے خاص طور پر یہ چند سطریں ملاحظہ ہوں :
جب میں
چاند کو دیکھتا ہوں
جو ندی کے پانی میں
رہائی کی بھیک میں گڑگڑاتا ہے
یا پھر یہ سطریں ملاحظہ ہوں :
ہم نے سوچا نہیں تھا
کہ ایک دن
وہ دور کا پہاڑ !!
ڈائنامائٹ کی طرح پھٹے گا
اور پھر ہم…… ٹکڑوں میں برباد ہونگے !
ایچ بی بلوچ کا مجموعہ ” اداس لہر کا آخری زینہ” غیر عروضی نظموں میں ایک منفرد اور خوبصورت اضافہ ہے ۔ان کی نظمیں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عامیانہ خیال کو نظم میں لانے کے بجائے فکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ ان کی رومانوی نظمیں بھی اسی فکری گہرائی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
نئی نظم جس میں ہمارے عہد کی توڑ پھوڑ ، تنہائی ، رشتوں کی کم مائیگی ، محبت کی رائیگانی اور بیوفائی کا نوحہ صاف سنائی دیتا ہے ایسے میں ان کی نظموں میں اداسی ان کی تہہ در تہہ سوچ کے ساتھ جڑے اپنے عہد کے سرد خوف ، بے چینی اور اضطراب کے آخری زینے پر پہنچ کر ایک ایسے پرندے کا روپ دھار لیتی ہے جو حیرت زدہ گم صُم اپنے پروں پر کھڑا سوچ رہا ہے گزرے لمحوں کی راکھ سے نئے شگوفے کھلنے کا منتظر ہے ۔