fbpx
تبصرہ کتب

باقیات و نادرات فیض احمد فیض/ سیّد تقی عابدی

سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی شاعر کی باقیات کامل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ خود شاعر کو اس کا مکمل علم نہیں رہتا کہ اس نے اپنے شعری سفر میں کب اور کہاں کیا کیا کھویا ہے۔ یہاں ہم اس رُوداد کو ذیل کے تضمینی مصرعے میں بیان کر سکتے ہیں:

’یہ باقیات ابھی نا تمام ہے شاید‘

اسی لیے اس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ نئی تخلیقی تصنیف ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ فیض احمد فیض اگرچہ ایک ممتاز، معروف، مستند فطری شاعر تھے مگر اُردو کے دوسرے بڑے شاعروں کی نسبت کم گو تھے۔ فیض کے مجموعی اشعار کی تعداد دو ہزار سے بھی کم ہے جبکہ اُردو کہکشاں میں بعض ایسے بھی شاعر ہیں جن کے اشعار کی تعداد ایک لاکھ کے قریب یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ فیض کے پہلے مجموعے ’’نقشِ فریادی‘‘ کی اشاعت کے بعد ان کے دوستوں اور پرستاروں کو ان کے کلام کا انتظار رہتا تھا چنانچہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کوئی تخلیقی فن پارہ منظرِ عام پر آئے اور آنکھوں سے اوجھل رہے۔ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ چند مصرعوں کو بعد میں حذف کر دیا گیا اور چند مصرعوں کا اضافہ بھی کیا گیا جن کی نشاندہی ہم نے باقیات کے چند نکات اور غیر مدوّن کلام کے ذیل کی ہے۔ خود فیض نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنا ابتدائی کلام اپنے مجموعوں میں شامل نہیں کیا، چنانچہ وہ صرف بعض اخباروں اور رسالوں کی نذر ہو کر رہ گیا۔ ہم نے فیض کے ابتدائی کلام کو جو ’’راوی‘‘ میگزین میں شائع ہوا، باقیات میں شامل کیا ہے۔ ہم نے باقیات میں ان تمام نکات کی طرف اشارہ کر کے وہ کلام جس میں کچھ ترمیم اور تنسیخ کی گئی ہے پیش کیا ہے، جو اگرچہ زیادہ نہیں مگر اہمیت کا حامل ہے۔ ہم نے اپنے چند مضامین جو باقیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں، فیض کے متعلقات کے طور پر اس میں شامل کیے ہیں۔

فیض چونکہ ہمہ جہت شخصیت تھے اس لیے ان کی کئی جہات میں عمدہ تخلیقی تحریریں تھیں مگر ہمیں تلاش کرنے پر بھی کچھ تحریریں حاصل نہ ہوئیں اور ہمیں ان کے لیے مزید انتظار کرنا بے سود لگا چنانچہ پاکستان ٹائمز، ادب لطیف اور لیل و نہار کراچی کے اداریے جو مرزا ظفر الحسن مرتب کر رہے تھے دستیاب نہ ہو سکے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ رزمیہ نظم جو جیل میں لکھنے کی خواہش کر رہے تھے وہ لکھی گئی یا نہیں۔ "Pillers of Community” کا جو نصف ترجمہ کر لیا تھا اس کا پتہ نہیں ملتا اور اسی طرح کئی دوسری تحریریں، ایک دو فلم کی اسکرپٹ کے اشارے تو ملتے ہیں لیکن اصلی تحریر نہیں ملتی۔ ہم نے اپنے مضمون ’’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘ مطبوعہ ’’فیض فہمی‘‘ میں ان تخلیقوں اور تحریروں کا مفصل ذکر کیا ہے۔ شاید مستقبل میں فیض کے محققین اور فیض شناسوں تک آئندہ کبھی ان کی رسیدگی ہو سکے۔

یہاں سب سے پہلے خصوصی طور پر ہم محترمہ سلیمہ ہاشمی، محترمہ منیزہ ہاشمی اور ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے خطوط کے ہمراہ اسناد مدارک اور ضروری نادر تصاویر بھیجیں جسے ہم نے اس باوقار صحیفہ کا جزو کیا۔ ہم ڈاکٹر بیدار بخت ، ڈاکٹر بیدار مجید، جناب ایوب اولیاء، ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب، جناب لطیف اویسی اور جناب سجاد حیدر کے ممنون ہیں جنہوں نے خطوط کے ساتھ تصاویر بھی مرحمت کیں۔ ہمارے خصوصی شکریہ کے مستحق جناب سلمان احمد ہیں جو صادقین فاؤنڈیشن کے روحِ رواں ہیں۔ فیض فاؤنڈیشن کی انچارج محترمہ یمین زاہرہ صاحبہ اور سمیرا خلیل صاحبہ کی کوششوں سے ہمیں اس پراجیکٹ میں مدد ہوئی، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ’’باقیات و نادرات فیض احمد فیض‘‘ کا بیان مکمل نہ ہو گا اگر ہم بک کارنر جو اس دورِ حاضر میں جہلم سے دُنیائے اُردو ادب میں اپنی شناخت کی خوشبو بکھیر چکا ہے، کا ذکر نہ کریں۔ جناب امر شاہد اور گگن شاہد نے دن رات محنت اور دلجوئی سے اپنی ادبی اور ثقافتی تہذیبی صلاحیتوں کے ساتھ جو طباعت کی فن کاری کے کرشمے دکھائے ہیں ہماری نظروں کے سامنے موجود ہیں۔

آخیر میں خواہش مند ہوں اگر کچھ مطالب رہ گئے ہیں تو ضرور مطلع کریں اور ہماری کوتاہیوں کو درگزر کریں۔

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے