ادراک نوسٹیلجیا / عامر رفیق
میں کوشش بھی کروں تومجھے اپنی ذات سے باہر نکل کر یا اپنی ذات سے جوڑے بغیر بات کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ مجھے سن اور تاریخ، بالخصوص اپنے حوالے سے، یاد رکھنا قطعاََ پسند نہیں۔ لہذا میں یہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ اک مدت ہوئی جب کالج میں پڑھائی کے زمانے میں حلقہ ارباب ذوق گوجرانوالہ کے تنقیدی اجلاس میں شرکت کرنا شروع کی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ادبی بیٹھک، جو محمد طیب صاحب کے ہاں ہر ہفتے کی رات جما کرتی تھی، میں باقاعدہ حاضری دینا شروع کیا۔ حلقہ ارباب ذوق یا طیب صاحب کے ہاں کئی قدآور ادبی شخصیات شرکت کرتی تھیں۔
دراصل حلقہ ارباب ذوق کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ میں یہاں خالد فتح محمد صاحب کی ادراک کی صورت قابل ستائش ادبی خدمت کی بات کرنا چاہتاہوں۔میرا خالد فتح محمد صاحب اور ادراک کے ساتھ تعارف حلقہ کے اجلاسوں میں ہوا تھا۔ ظاہر ہے حلقہ میں گفتگو کا پیمانہ محدود تھا کیونکہ گفتگو، محض اجلاس میں پیش کی گئی ادبی تخلیقات پر ہوا کرتی تھی جبکہ طیب صاحب کی بیٹھک میں ملک بھربلکہ دنیا بھر کے ادب، کام اور شخصیات پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔
بیٹھک کے میزبان طیب صاحب بالخصوص اور بالعموم شرکت پر آئے باقی ادباء بھی پورے ہفتے کی اپنی اپنی کتابوں، رسائل وغیرہ کی خریداری کو اس بیٹھک میں پیش کرکے ایک دوسرے سے متعارف کروایا کرتے تھے۔ تب جہاں دوسرے شہروں سے جاری ہونے والے رسائل کا تذکرہ ہوا کرتا تھا تب وہاں ادراک کی آمد پر ادراک کا بھی ذکر کیا جاتا تھا
اور خالد فتح محمد صاحب (خالد صاحب کی غیر موجودگی میں کیونکہ اس بیٹھک میں میری کبھی خالد صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی) کی کاوش کو سراہا جاتا تھا اور بعض اوقات پرچے کو مزید بہتر بنانے کے لیے بھی احباب اپنے نقطہ نظر کو پیش کیا کرتے تھے۔تب تک میں نے دو یا تین افسانے ہی لکھے تھے۔ لیکن ادراک کو ، گوجرانولہ کا ادبی پرچہ ہونے کی وجہ سے بڑی محبت اور لگاؤکے ساتھ دیکھا اور پڑھا کرتا تھا اور سوچا کرتا تھا کیا کبھی میرا بھی افسانہ اس میں چھپے گا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سوشل میڈیا تو دُور کی بات انٹرنیٹ بھی ابھی ذاتی استعمال میں نہیں آیا تھا۔تو ایسے میں ادبی رسائل میں بہت سخت مقابلہ ہوا کرتا تھا جن میں چھپنابہت مشکل کام تھا۔ شاید ہی ہوتا ہو گا کہ کسی کا افسانہ خومخواہ ہی کسی پرچے میں چھپ گیا ہو۔ مجھے یاد ہے خالد صاحب نے مجھے کہا تھا میری بڑی خواہش ہے کہ تمہارا افسانہ ادراک میں چھپے لیکن ابھی تھوڑی سی محنت اور کرو۔ تاریخ مجھے یاد نہیں جیسا کہ میں تاریخیں یاد رکھنا بھوک جاتا ہوں۔
بہرحال میرا ادراک میں شائع ہونے والا پہلا افسانہ ’’ـخود کشی‘‘ کے عنوان سے تھا۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ موجودہ ادراک (۱۴) میں بھی میرا افسانہ باعنوان ’’اندھیرا، گھور اندھیرا‘‘ شائع ہوا ہے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت خالد صاحب کے ساتھی مدیر طارق جاوید صاحب تھے، پھر اسد ملک صاحب شامل ہوئے اور اب پیارے حفیظ تبسم کا ساتھ خالد صاحب کو حاصل ہے۔
پہلے کے ادراک میں افسانوں، مضامین ، انٹرویوز، تراجم کے علاوہ شاعری کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔
جبکہ اب کے ادراک میں صرف فکشن اور نثر کو جگہ دی جا رہی ہے جو ایک لحاظ سے بہتر قدم ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری کی پروموشن نسبتاََ آسان بھی ہے اور بہت زیادہ ہو بھی رہی ہے، جسے سامعین بھی باآسانی میسر آ جاتے ہیں، صرف اس میں بہتری اور معیار کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جبکہ نثر، افسانے کے لیے خاص تردد اور سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے ادراک کی یہ کاوش قابل قدر ہے۔
مزید قابل ستائش بات یہ ہے کہ ادراک خاص طور پر نوجوان یا یوں کہہ لیں اکیسویں صدی کے لکھنے والوں کو پروموٹ کر رہاہے۔ جس کی عمدہ مثال نہ صرف ان افسانہ نگاروں کے افسانے شامل کرنا ہے بلکہ عثمان عالم کے انٹرویو کی شکل میں نوجوان لکھنے والوں کے ادب کے متعلق خیالات سے آشنا ہونا اور ان کی اپنے فن سے جڑی امنگوں کے بارے میں جاننا بھی ہے۔ اسے ہی ترقی پسندانہ سوچ کہتے ہیں۔
اب چونکہ دورِ حاضر کی بات کرنا ہو گی جس میں سوشل میڈیا،قدیم طریقہ کار کواپنے ساتھ بہا لے جانے کی کوشش میں ہے اور نئے نئے رحجانات سامنے لایا ہے جس میں ہارڈ فارم کی بجائے سافٹ فام غالب آ چکی ہے ۔ تو ایسے میں ادراک بلکہ ہر کتابی شکل کے پرچے کو روشنی کی رفتار سے بہتے سوشل میڈیا کاسخت اور مشکل مقابلہ درپیش ہے۔ ایسے میں سنجیدہ ادیب تو رسائل پڑھیں گے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خالد صاحب اور حفیظ تبسم کو کچھ ایسے سلسلے اور پیش کاری سامنے لانی ہو
گی جو عام قاری کو بھی متاثر کرے اور وہ بھی ادراک پڑھنے کی طرف راغب ہو۔
ادراک کو کامیاب بناناصرف مدیران کی ہی نہیں بلکہ تمام قارئین کی مشترکہ ذمہ داری ہے لہذا ہم سب کو اس کی کامیابی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔خالد صاحب کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان کے حوصلے کبھی پست نہیں ہو تے۔حفیظ بھائی میں بھی کچھ اسی طرح کا جوش اور ولولہ ہے۔امید کرتا ہوں اور دعا گو بھی ہوں کہ ادراک روز بہ روز نئے نئے رحجانات لا کر یہ بات غلط ثابت کرے گا کہ اب کتاب یا کاغذ کے ساتھ رشتہ کمزور پڑ گیا ہے۔ادراک اور خالد فتح محمد تو ہمارا نوسٹیلجیا ہیں۔