fbpx
بچوں کا ادب

اپنی فوج کو لائی مرغی / عبید رضا

بچوں کا ادب

شفی_الدین_نیر (1903ء – 1978ء) متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے، بچوں کے لبے دل چسپ نظمیں اور کہانیاں اور بچوں ہی کے لیے مضامین اور غالب پر کتاب لکھی، انھوں نے صرف بچوں کے لیے شاعری کی اور لکھا، ان کی کتابوں کی تعداد ستر ہے۔ سات سال کے تھے جب والد کا انتقال ہو گیا، والدہ نے بہت تنگ دستی میں پالا۔ گیارہ سال کی عمر میں ان کے خاندان کے پرانے واقف کار، بابو بلبیر سنگھ انھیں دہلی لے آئے۔ جہاں چار پانچ ماہ نیر صاحب اپنے ایک ہم وطن کے پاس رہے اور اخبار بیچنے لگے۔ جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد خاں بخاری ان سے اخبار خریدتے تھے انھوں نے اور بعد میں کچھ اور لوگوں نے ان کی مدد کی اور اینگلو عربک اسکول میں تعلیم اور رہائش کا بندو بست کرا دیا۔

جب وہ آٹھویں کلاس میں تھے تب گاندھی جی کی عدم تعاون تحریک کے زیر اثر انھوں نے یہ اسکول چھوڑ دیا اور "آزاد قومی درسگاہ” جس کے روح رواں بیرسٹر آصف علی تھے اس میں داخلہ لے لیا۔ یہیں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری میں پڑھا۔ اخباروں میں ترجمے کی نوکری کی۔ فارسی اور اردو کے امتحانات جامعہ پنجاب سے کا امتحان پاس کیا۔ کچھ دن اینگلو عربک اسکول میں پڑھایا اس کے بعد دہلی کے مشہور ماڈرن اسکول میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ تقریباَ اٹھارہ سال(سن 1926 سے 1945) تک یہاں رہے۔ یہ دور ان کے علمی کاموں کے لیے بہت سازگار رہا۔ اس اسکول میں ایک ٹیچر تھیں، مس ینگ جو بچوں کو انگریزی رائمز سکھاتی تھیں ان سے متاثر ہو کر نیر نے اردو میں بچوں کے لیے نظمیں لکھنا شروع کیں۔ نیر صاحب ایک بہت سادہ مزاج، نرم خو، نستعلیق انسان اور ایک اعلا استاد تھے۔

ان کی کئی نظمیں پاک و ہند کے نصاب کا حصہ بنی ہیں۔

ان کی کہانیوں کی کتابوں میں
چُنن مُنن
آٹے کا پُتلا
بطخ شہزادی
بونے کا بٹوا
ڈھول کا بول
عید کے کھلونے
گھی شکر
گلگلے کی دوڑ
زندگی کی دوڑ
نئی کہانیاں
پاپ کی ناو
پری کی چھڑی
تارا کا ڈنڈا
طلسمی مینا

شاعری میں:

وطنی نظمیں
نظمیں
اچھی چڑیا
بچوں کا تحفہ
گاؤں سدھار گیت
ہماری نعت
آسان نظمیں
اسلامی نظمیں
میں گھر جاؤں تو کیسے؟
منّی کا پرستان
منی کے گیت وغیرہ شائع ہوئیں۔

یہ نظم بچوں کا تحفہ کتاب کے پندرہویں ایڈیشن سے لی گئی ہے۔ اس وقت تک یہ کتاب 1934ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور 1962ء کے پندرہویں اشاعت تک اس کی۔ بیالیس ہزار نسخے شائع ہو چکے۔ جس سے ان کی شاعری کی اس دور میں مقبولیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

مرغی

کُٹ کُٹ کرتی آئی مرغی
اپنی فوج کو لائی مرغی

فوج میں ہیں بس بچے سارے
ننھے مُنے پیارے پیارے

ننھی ننھی چونچیں سب کی
خوب نُکیلی تیز غضب کی

ننگی ٹانگیں چھوٹی چھوٹی
دھوتی پاجامہ نہ لنگوٹی

ماں کو اپنی جانتے ہیں سب
بولی بھی پہچانتے ہیں سب

اُڑتی اُڑتی چیل جو آئی
دیکھتے ہی مُرغی چلائی

چیخ کو سن کر بچے بھاگے
کچھ پیچھے کچھ ماں کے آگے

ماں نے اپنے پر پھیلاۓ
بچے ان کے نیچے آۓ

لالوں کو چھاتی سے لگایا
سب کو اپنے پروں میں چُھپایا

دانا دُنکا سب کچھ پایا
آپ نہ کھایا ان کو کھلایا

ماں کی محبت دیکھو نئیر
دیتی ہے جان اپنے بچوں پر

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے