نیاز کی آنکھ کھلی تو اسے لگا وہ عالم ارواح میں ہے جہاں نت نئی بھانت بھانت کی روحیں چیختی
چالتی بین کرتی دہائیاں دیتی پھر رہی ہیں ۔وہ ابھی حبس زدہ دماغ اور خمار آلودہ آنکھوں سے ماحول
!!کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اسے ماں کی موٹی سی گالی سنائی دی ۔۔۔
گالی ماں ہی کی تھی گو کے ماں حیات نہیں تھی لیکن اب شفقت پدری کا تقاضا یہی تھی ۔یہ ہر صبح کی
!! کہانی تھی جب نیاز دعا کرتا تھا کاش وہ قوت گویائی کے ساتھ ساتھ محروم سماعت بھی ہوتا
سات سال کی عمر میں نیاز کماؤ پوت تھا ۔باپ کے غضب سے بچنے کے لئے اس نے کوٹھری کے
میلے فرش کو خیر آباد کہا اور جوتے پالش کرنے کا سامان لے کر گھر سے باہر نکل گیا ۔باہر کی دنیا
کی بھیڑ میں اسے جہاں جگہ ملی اس نے چار پیسے کمانے کی کوشش کی بچپن تو کبھی آیا ہی نہیں
اور جوانی بہت تیزی سے گزر گئی وہ اب فکر مندی سے لتھڑا بڑھاپا گزار رہا تھا ۔
اوے ! یہ میری جگہ ہے "۔”
اسلم نے اس کے ساماں کو الت ماری ۔نیاز نے اسے غصہ سے دیکھا ۔
ابّے گھور کیا رہا ہے کھائے گا کیا "!!۔”
اسلم نے مزید پیش قدمی کی اور اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا بارہ سالہ اسلم کے ساتھ اس ہی عمر
کے چار لڑکے اور تھے ۔۔۔یہاں بھی گالیوں کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور التوں کا
بھی آزادانہ استعمال کیا گیا ۔نیاز نے آنسو پونچھے اور اپنا سامان بڑھا لیا ۔سامنے سے پھر وہی
مخصوص کالی گاڑی گزری جس کا فٹ پاتھ پر بیٹھے بچوں کو شدت سے انتظار رہتا تھا۔ بچوں نے اس
کے پیچھے والہانہ دوڑنا شروع کر دیا؛ یہ کالی گاڑی نہیں تھی ان کی نجات دہندہ تھی ۔۔۔ بھوک کا انتظام
!! تھی، آسودگی کا سامان تھی
زندگی بھاگنے، گرنے اور دھکے کھانے کا ہی تو نام تھا نیاز بھی بڑے لڑکوں کے درمیان بیس روپے
کی خاطر یہ سب کھانے کو تیار تھا ۔
بیس روپے ۔۔۔؟”۔ ”
ہاں صرف بیس "!!۔”
صاحب آج تو کچھ پیسے بڑھا دو میں جوتوں کے ساتھ گاڑی بھی صاف کرتا ہوں "۔”
نہیں صاحب مجھ سے جوتے پالش کرواؤ ۔۔۔!!مجھ سے؛ نہیں مجھ سے ۔۔۔۔!!سب بول رہے تھے اور نیاز
دھکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔ !!اچانک سو کا نوٹ لہرایا جسے بڑے لڑکے نے اچک لیا اس نے برابری سے
بیس روپے چار لڑکوں میں با نٹے ۔آخری بیس پر نیاز کا حق تھا آخر اس نے بھی محنت کی تھی اپنا
وجود منوانے کی کوشش میں اس کے کپڑے مزید چیکٹ ہو گئے تھے، بال مزید الجھ گئے تھے، ننھے
ہاتھوں اور بازوں میں درد ہوا تھا، پسینہ سے پیشانی تر ہوئی تھی ؛ کیا ان کی قیمت بیس روپے بھی نہیں
بنتی تھی ۔۔۔۔ !!وہ امید بھری نظروں سے اسلم کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن زمانے کی سرد مہری نے اس کے
بچپن کے ساتھ کون سی مہربانی کی تھی جو وہ نیاز پر رحم کھاتا ۔۔۔۔۔ایک سفاک مسکراہٹ کے ساتھ
پیسے اسلم نے اپنی جیب میں رکھ لئے۔
آج کا دن بھی چند سکوں کے پیچھے ذلیل ہونے میں گزر گیا کوٹھری واپسی پر ۔۔۔گھر جیسی جگہ جہاں
صرف بھوک رہتی تھی وہ سوچ رہا تھا ۔۔۔۔آج بھی گالی کھا کر سونا پڑے گا راستے میں اسے اونچی
عمارتوں ،رنگین دکانوں اور مصروف چوراہوں سے غرض نہیں تھی اس کا سب سے بڑا مسلہ بھوک
!!تھی ۔۔۔۔
ننگے فرش پر بھوکا پیٹ لیٹے اسے دوسرا دن تھا کچی چھت سے آسمان صاف دیکھتا تھا خاموشی کی
کمزور زبان سے بے ربط صدائیں بلند ہوتی رہی تھیں۔سیٹھ سے اس نے جوتے لے کر پالش کر لئے
تھے وہاں کوئی اسلم نہیں تھا بیس روپے اس کی آنکھوں کے آگے ناچ رہے تھے ۔ان بیس روپوں سے
اس نے روٹی خرید لی تھی ۔۔۔۔۔۔ !!رات کی ایک بات اچھی ہے خالی آنکھوں کا پیٹ خوابوں سے بھر
دیتی ہے۔
نیاز کے لئے اگلی صبح پھر اس ہی طرح بھوکی اور بے بسی کی جیتی جاگتی تصویر تھی؛ آج پھر وہ
کالی گاڑی کا انتظار کر رہا تھا؛ اسلم سے اسے آج بھی انصاف کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔آج جب
لڑکے گاڑی کے پیچھے بھاگ رہے تھے تو وہ اپنی جگہ کھڑا سو کے نوٹ کی حسرت محسوس
کرتا رہا ۔مجمع چھٹا تو اس نے اپنا سامان اٹھایا اور بڑی عمارت کی گھنٹی بجائی گارڈ نے اسے کھا
جانے والی آنکھوں سے دیکھا۔ نیاز نے اپنی بے زبانی بیان کی جو گارڈ کی سمجھ سے باہر تھی اس نے
دھتکار کر دروازہ بند کرنا چاہا تو اندر سے ایک ٹائی واال باہر نکال اور سگریٹ سلگا کر ساتھ والی
دیوار سے لگ کر کش لگانے لگا ۔۔۔۔نیاز کو اس کی بے نیازی پر رشک آیا جوتوں پر نظر پڑھی تو
آنکھیں چمک گئیں اس نے قریب جا کر پالش کا اشارہ کیا لیکن وہاں سرد مہری کے سوا کچھ نہ مال ۔۔کیا
!! تھا اگر دھویں میں پیسے اڑنے واال بیس روپے سے اس سے جوتے بھی صاف کر وا لیتا
اس نے کئی آنے جانے والوں کی آج بھی منت کی جن کے پاس جوتے تھے اور بیس روپے بھی ہو
سکتے تھے۔۔۔۔صرف بیس ہی تو ۔۔۔ !!لیکن کسی کو بھی معصوم آنکھوں کی حسرت اور بے زبان کی
فریاد سنائی نہ دی انسانوں کے جنگل میں نیاز کی بھوک کا تیسرا دن ناقابل برداشت تھا اب صرف
گالیوں سے کام نہیں بن رہا تھا پیٹ کو غذا کی ضرورت تھی سات سال کے بے زبان سوال پر کسی نگاہ
نے کرم نہ کیا ۔نیاز چکرا کر فرش پر بیٹھ گیا۔ آسمان کی گونگی آزمائش پر آج اس کی آنکھ سے پہال
آنسو گرا لیکن آسمان بدستور چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہا نیاز نے آنکھیں بند کر لیں ۔
رفتہ رفتہ ارد گرد کی آوازیں معدوم ہونے لگیں نیاز کی آنکھ کھلی تو روحوں کا شور نہیں تھا۔ اس
خاموشی میں اس نے گھبرا کر چاروں جانب دیکھا ؛ہر چیز اجنبی تھی در و دیوار پختہ اور صاف تھے
۔۔۔بھوک کی حاجت مٹ چکی تھی؛ اب وحشت کی جگہ سکون تھا ۔۔۔کسی نے گالی دینے کے
!!بجائے محبت سے اس کا نام پکارا ۔۔۔۔اس بار یہ اس کی ماں تھی ۔۔۔۔
نیاز اس عالم ارواح میں خوش تھا بیس روپے کا سوال اس کا پیچھا چھوڑ چکا تھا لیکن ایک دوسرے
عالم میں بیس روپے والوں کی آزمائش ابھی بھی جاری تھی ۔
Follow Us