ان پر میری پہلی نظر پڑی تو میرے دل پر نجانے کیوں دھکا سا لگا؛ یہ چہرہ جانا پہچانا تھا لیکن ۔۔۔جب ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے تب کمر اتنی جھکی ہوئی نہیں تھی ،چہرے پر ماہ و سال کی اذیت ناک گرد نہیں تھی ،بال اتنے اجڑے ہوئے نہیں تھے اور ہاتھ میں کاسہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔!!
چند لمحوں کو میں ان کا سوال بھول گئی۔ جن آنکھوں میں ،میں نے کبھی ذہانت کے چراغ روشن دیکھے تھے جو ہاتھ کبھی علم کی دولت بانٹتے تھے آج میرے آگے چند ۔۔۔۔
سکوں کے لئے دامن پھیلائے کھڑے تھے ۔۔۔۔ہونٹ خاموش تھے لیکن آنکھیں ۔۔۔آنکھیں مجھے جن نظروں سے دیکھ رہی تھیں ان میں زمانے بھر کا کرب تھا ، تکلیف تھی ۔۔۔اس قدر چیختی خاموشی میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔۔۔!!
مس عندلیب ۔۔۔۔آپ ۔۔۔یہاں ۔۔۔۔!!
میرے خشک ہونٹ کانپے لیکن وہاں کوئی جنبش نہ ہوئی جھکی کمر والی نے مجھے آگے بڑھ کر گلے نہیں لگایا، پہلے کی طرح شاباش نہیں دی ۔۔۔زندگی میں آگے بڑھنے کی ترغیب نہیں دی ۔۔۔۔بس سوالیہ نظریں امید سے مجھے دیکھتی رہیں ۔۔۔میرا دل چاہا میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑوں ۔۔۔مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔
مس ۔۔۔آپ نے مجھے پہچانا نہیں ۔۔۔!! میں ارم ہوں ۔۔۔! آپ کی کلاس میں پڑھتی تھی ۔۔۔۔۔آپ کی ہونہار شاگرد !!
اب میں مس عندلیب کے سامنے سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی ۔۔۔!!
مگر وہ ۔۔۔کچھ مسکرائیں ۔۔۔۔!!
اچھا ۔۔۔!! ان کا محبت بھرا لہجہ تین سال بعد میری سماعتوں میں گھلا ۔
وہ ۔۔۔میری پنشن آنی بند ہو گئی ہے ۔۔۔۔!! بہت تنگی ہے پیسے نہیں ہیں ۔۔۔!! بہت مہنگائی ہے ۔۔۔۔!! بیٹا بھی پیسوں کو روتا ہے ۔۔۔!! بہو میکے رہتی ہے!! بس پیسوں کا ہی رونا ہے !!میرے پاؤں نہیں چلتے ۔۔۔ورنہ میرا اتنا خرچہ نہیں ہے ۔۔۔۔!! میں کوئی نوکری کر لیتی ۔۔۔!!
وہ ایک سانس میں بول گئیں ۔۔!!
جسے یہ سب کہنے کو کب سے ترس رہی تھیں ۔۔۔میں اپنی جگہ سکتے میں کھڑی تھی ۔۔۔۔!!
شاید وہ مجھے دیکھ کر شرمندہ تھیں ۔۔۔!! میں خود میں چور سی ہو گئی ۔۔۔کچھ اور پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔۔۔ ان کی حالت تمام داستان سنا رہی تھی ۔
مس میں اگر آپ کے کسی کام آسکوں ۔۔۔!!
فرط جذبات سے میری زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔
وہ ۔۔۔میں تو بس ۔۔۔بالکل تنہا ہوں کوئی کہنے سنے والا نہیں ۔۔۔!!
کچھ کہتے کہتے ان کا لہجہ رند گیا ۔۔۔۔کچھ مل جاتا تو میں اپنے لئے روٹی لے لیتی ۔۔۔۔!!
ان کی معصوم بے ضرر سی التجا سن کر میرا دل کیا میں انھیں گلے سے لگا کر رو پڑوں؛ سب کو چیخ چیخ کر معاشرے کی بے حسی بتاؤں کے۔۔!!اتنی منتوں مرادوں والی اولاد جسے ناز و نعم پال پوس کر تناور درخت بنایا وہی اپنی چھاؤں کے لئے بخیل ہو جاۓ تو والدین جیتے جی مر جاتے ہیں ۔۔۔۔!!
میں انھیں اپنے ساتھ گھر لے آئی ۔۔۔۔!!
راستے میں انہوں نے متعدد مرتبہ میرا نام پوچھا یعنی وہ بھولنے کے مرض میں مبتلا تھیں ۔۔۔۔انھیں میرا نام تک یاد رکھنے میں دقت تھی تو استاد شاگرد کا رشتہ کیا یاد ہوتا ۔۔۔!!
گھر آکر میں نے کھانا لگایا ۔۔۔تازی روٹی اور سبزی میں نے خود انھیں اپنے ہاتھ سے کھلائی جو انہوں نے کسی بچے کی طرح خاموشی سے کھا لی ۔۔۔!!
آپ کو کھانا اچھا لگا ؟ میں نے مسکرا کر پوچھا ۔
ہاں اچھا تھا ۔۔۔!! بالکل اس پہلی روٹی کی طرح جو میں نے اپنے بیٹے کو کھلائی تھی ۔۔۔۔!
محبت کا ذائقہ ہمیشہ ایک سا رہتا ہے ۔۔۔۔!!
اس بار میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے وہ معلمہ رہ چکی تھیں محبت کا سبق انھیں آج بھی یاد تھا ۔۔۔!!
مجھے ان کے بیٹے کی بد نصیبی پر افسوس ہوا ۔۔۔!!
کچھ دیر بعد وہ اس ہی چوک پر واپس جانے کے لئے بضد تھیں جہاں سے میں انھیں لائی تھی ۔۔۔ان کا بیٹا روز شام ٦ بجے انھیں چوک سے واپس لے جاتا تھا ۔۔۔۔!!
مس اندلیب کو وہاں چھوڑ کر گھر آتے ہوئے میں سوچ رہی تھی نجانے کتنی مائیں اپنی پہلی روٹی کا قرض اتار رہی ہونگی !!