fbpx
افسانہ و افسانچہ

نکیل / دعا عظیمی

نکیل


"صالحہ تمہاری بات پکی کر دی ہے اگلے ہفتے رسم ہو گی۔”
ماں نے مجھے میری زندگی کے متعلق فیصلہ سنایا
معلوم تھا مجھے میرے ساتھ یہی سلوک ہونے والا ہے۔ خبر بڑی تھی مگر مجھ پہ اثر نہیں کر رہی تھی۔ ایسی خبریں حادثہ بن کر نہیں گزرتیں کیونکہ ہمارے اذہان کو اس طرح کے حادثات کے لیے برسوں پہلے مانوس کر لیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ خبر ایسی ہی تھی جیسے قتل کے ملزم کو پھانسی یا عمر قید کی سزا سنائی گئی ہو۔
مجھے البتہ ذیشان کی فکر تھی اس پر کیا گزرے گی، تائی ماں کیا کہیں گی۔
میراضمیر مطمعین تھا، میں نے کسی کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا تھا۔
میں بچپن سے انگریزی میڈیم میں پڑھی تھی، لوگ مجھے برین اور بیوٹی جیسے ناموں سے پکارتے تھے۔اسکول کو ایجوکیشن تھا۔
مڈل کلاس سے ہی صنف مخالف کی تحسینی نگاہوں نے میرا طواف کیا ۔
میں ہوں یا کوئی سراہے جانے کے احساس سے کسے خوشی نہیں ہوتی ۔ میں لڑکیوں اور لڑکوں دونوں میں یکساں مقبول تھی۔۔
تعلیمی طور پر نمایاں اورغیرنصابی سرگر میوں کے دائرے میرے گرد گھومتے تھے۔
لڑکیاں کھل کے اظہار کرتی تھیں
"تم دلکش ہو”
"معصوم ہو”
"ذہین ہو”
میں تسلیم کرتی تھی کہ یہ سب تحائف خدا نے مجھے دیے ۔
مسلہ تھوڑا ٹیڑھا ہو گیا تھا جب میرے بڑے ہونے کے ساتھ ہی لڑکے قطار در قطار چاہنے والوں کی فہرست میں آنے لگے۔ ماں نے مجھے حجاب دلا کر میرے گرد گویا حفاظتی حصار قائم کردیا تھا۔حسن شرافت میں اور بھی دمکنے لگا تھا۔ لڑکوں کو اپنی اوقات میں رکھنا البتہ کون سا مشکل تھا۔ میری مرضی کے بغیر کوئی پر نہیں مار سکتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کتنا گھاس ڈالنا ہے اور کب؟
ماں نے مجھے تیار کر رکھا تھا کہ خالہ کے منجھلے بیٹے کے ساتھ تمہاری شادی طے کرنی ہے۔
خالہ کا یہ والا بیٹا بھی خوب تھا۔۔ بےچارہ مجھ سے بےحد مرعوب رہتا۔
کبھی کبھار تو ڈرائیوری کے فرائض اس جانفشانی سے سرانجام دیتا کہ مجھے اس پہ بےاختیار پیار آجاتا۔۔ میری ایک میٹھی مسکراہٹ اسے ٹپ کے طور پر مل جاتی تھی۔ ویسے بھی وہ اپنا وقت ضائع نہیں کر رہا تھا بلکہ طویل المدت سرمایہ کاری کر رہا تھا۔۔ سب کچھ پر سکون چل رہا تھا۔ جھیل کے ساکت پانیوں جیسا جس کے کنارے ہوا بہہ رہی ہو ، ہوا کے ارتعاش سے جھیل کے پانیوں پر دائرے تیرتے ہوں ۔ دور دور تک سر سبز میدانوں میں رنگ رنگ کے منے منے شگوفے مسرتوں کی زرفشانیاں بکھیرتے ہوں۔
سوچتی ہوں زندگی سے اگر پچھلے آٹھ ماہ نکال دیے جائیں تو زندگی امیرکن آرکیڈ کا ڈنر معلوم ہوتی۔
ویسے یہ اچھوتا جذباتی تجربہ تھا۔
کوئی کیسے دل کو چھو گیا!
یہ پہلی بار دل کا دھڑکنامجھے کافی مہنگا پڑگیا تھا۔ اس لذت نے میرا تبسم مجھ سے چھین لیا ۔
احساس زیاں کا بوجھ میرے وزن سے زیادہ تھا۔ افسوس یہ تھا کہ میری کوئی اوقات نہیں تھی۔ میری ہر دلیل بودی بنا دی گئی۔ اس دور میں اس طرح کی پرورش کر کے جس میں ہر آزادی مجھے دی گئی مگر میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ میری رضا کے بغیر کر کے مجھے اپنی ملکیت ظاہر کیا جا رہا تھا۔
پچھلی سردیوں میں وہ لوگ آئے تھے۔۔۔ ہم نے گپ شپ کی، وہ میری ذہانت پہ مر مٹا اور میں اس کی حسین شخصیت، بردباری اور بہادرانہ سوچ پر
کیوپڈ کا تیر کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ کیسے چل جاتا ہے۔
وہ پردیسی تھا چلا گیا۔ ہم رابطے میں رہے اس نے مجھے کہا تم اگر مجھے پسند کرتی ہو تو اپنے والدین کو بتاو
میں نے اس کے کہنے پر والدہ کو بتایا مگر وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے
‘تم بچی ہو”
"بھئی اگر میں بچی ہوں تو میری شادی نہ کرو۔ مجھے بڑا ہونے دو”
"تم جتنی مرضی بڑی ہو جاو !”
"کیا اچھا ہے کیا برا تم کیا جانو”
یہ فیصلہ ہمارا ہو گا۔” عجیب ہٹ دھرمی ہے۔
اور آج میں سو رہی تھی
ماں نے آکے مجھےخبر دی
"صالحہ تمہاری بات پکی کر دی ہے اگلے ہفتے تمہاری رسم ہو گی”
لہجہ کتنا آمرانہ تھا ۔
گویا اب کیس قبائلی سرداروں سے نکل کر فوجی عدالت میں پھنس گیا۔
میں بس اتنا ہی کہہ سکی ذیشان ہماری رسی تو ہمارے ماں باپ نے ڈھیلی کر دی مگر نکیل بہت ظالمانہ ہے۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے