fbpx
افسانہ و افسانچہ

میرے بچپن کی سہیلیاں /  نیلما درانی 

 

میرے بچپن میں تین سہیلیاں تھیں۔۔جو عظیم سٹریٹ برانڈرتھ روڈ پر ہی رہتی تھی شاھین۔ نازی اور شہناز ۔ شاہین کو سب چھینا۔۔۔کہتے تھے نازی اس سے چھوٹی تھی۔۔

ان کے والد کی برانڈرتھ روڈ پر بجلی کے سامان کی دکان تھی۔۔۔اس لیے ان کے گھر کو بجلی والوں کا گھر کہا جاتا تھا۔
چھینا ،نازی کے چار بھائی اور ان سے بڑی تین بہنیں تھیں۔۔۔۔وہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھیں۔
شہناز ۔۔۔چھینا اور نازی کی ہمسائی تھی۔
دراصل کسی نے چار ایک جیسے گھر بنا کر کرایہ پر دے رکھے تھے۔۔۔
ایک گھر میں چھینا ،نازی۔۔۔ان کے پچھلے گھر میں شہناز ۔۔۔
اس کے برابر والے گھر میں شہناز کے ہی رشتے دار رہتے تھے۔
ان سے آگے والے گھر میں دو ادھیڑ عمر عورتیں رہتی تھیں جو کسی کالج میں پڑھاتی تھیں۔۔۔ان دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی۔۔۔گھر میں وہ بلاوز اور پیٹی کوٹ پہن کر پھرتیں۔۔۔اور گھر کے کام کاج کرتیں۔۔۔جبکہ کالج جاتے ہوئے ساڑھیاں پہن کر جاتیں۔
ان چاروں فلیٹ نما گھروں کے درمیان ایک ڈیوڑھی تھی۔۔۔جس میں ایک چارپائی پر شہناز کے نانا۔۔۔بیٹھے کھانستے رہتے۔
شہناز کے والد۔۔۔سائیکل پر کپڑا بیچنے جاتے تھے۔۔۔وہ مشہور گلوکار محمد رفیع کے قریبی رشتہ دار تھے۔۔۔
شہناز کی ماں ایک تنومند عورت تھی۔۔۔شہناز کا ایک بھائی اشفاق اس سے بڑا تھا۔۔۔دلشاد اس سے چھوٹی تھی۔۔۔اس کی ماں ہر سال ایک بچہ پیدا کرتی اور شہناز اس بچے کو اٹھا کر گلی میں پھرتی رہتی۔
شہناز کی والدہ بہت صفائی پسند تھی۔۔وہ روزانہ گھر کے سارے فرش دھوتی جو سرخ اینٹوں کے بنے ہوئے تھے۔۔۔اور اپنے بچوں کو گھر سے نکال دیتی۔۔۔اور ان کا فرش سوکھنے تک گھر میں داخلہ بند ہوتا۔۔۔
وہ سب بچے گلی میں کھیلتے رہتے۔۔
اس لیے ہم جب بھی۔۔۔کیڑی کاڑی۔۔۔اونچ نیچ۔۔چھپن چھپائی۔۔۔چیچو چیچ گنڈیریاں کھیلنا چاہتے تو شہناز کا ساتھ میسر ہوتا۔
چھینا اور نازی۔۔۔رام گلی والےمسز بیگ کے سکول میں بھی پڑھتی تھیں۔۔۔
جس دن رزلٹ نکلنا ہوتا وہ خوب تیار ہو کر۔۔۔اساتذہ کے لیے گلاب اور گیندے کے پھولوں کے ہار اور مٹھائی کا ڈبہ لے کر جاتیں۔
اور واپس آکر خوشی سے بتاتیں کہ دونوں اپنی کلاس میں فیل ہو گئیں ہیں۔۔
میرے پاس ہونے کی خبر بھی مجھے ان سے ملتی۔۔۔کیونکہ میں کبھی رزلٹ والے دن سکول نہیں جاتی تھی ۔

ناکام ہونے کا ڈر۔۔۔ہمیشہ ہی رہا۔۔اس لیے کبھی کسی سے مقابلہ نہیں کیا۔۔جو چیز بہت اچھی لگی اسے خود ہی چھوڑ دیا۔۔۔جو لوگ اچھے لگے ان سے خود ہی کنارہ کر لیا۔۔۔یا فاصلے سے رہے۔
اس لیے کبھی ناکام ہی نہیں ہوئے۔۔۔

گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں۔

اس لیے شہ سواری کا شوق نہیں پالا۔۔۔اونچائی پر جانے کی خواہش نہیں کی۔۔۔نا کسی سے حسد کیا نا مقابلہ۔۔صرف اپنی ایک دنیا بنائی اور اسی میں مگن رہے۔

چھینا ، نازی اور شہناز۔۔۔گلی میں ہماری کھیلنے کی ساتھی تھیں۔۔۔کبھی کبھار وہ ہماری چھت پر کھیلنے آجاتیں۔۔۔جہاں ہم دو چارپائیوں کے درمیان سٹیج بنا کر ۔۔۔ڈرامہ کی ریہرسل کرتے۔۔۔۔
ڈرامے کے کرداروں میں۔۔۔ملکہ کا کردار ہمیشہ میرا ہوتا۔۔۔میرا بھائی میرا وزیر ہوتا اور باقی سب میرے درباری۔۔۔
کسی نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔۔کیونکہ ڈرامے کی رائیٹر۔۔پروڈیوسر ڈائرکٹر سب میں ہوتی تھی۔

گرمی کی چھٹیوں میں۔۔۔میں اپنے گھر کی گیلری صاف کرکے۔۔۔جو گھر کے گیٹ کے اوپر تھی۔۔۔اور جہاں جلانے والی لکڑیاں اور گھر کا کاٹھ کباڑ پڑا ہوتا تھا۔
اس کو اپنے رسالے کا دفتر بناتی۔۔۔سفید کاغذوں پر نظمیں ، کہانیاں لکھ کر مختلف تصویروں سے سجا کر۔۔اس کے ٹائٹل پر اپنا نام ایڈیٹر کے طور پر لکھتی ۔۔۔اس کی کئی کاپیاں مجھے اپنے ہاتھ سے لکھنی اور بنانی پڑتیں جو میں اپنی سہیلیوں میں تقسیم کرتی۔۔
لیکن یہ سب کرنے میں خوشی اس بات کی ہوتی کہ میں ایک رسالے کی ایڈیٹر ہوں۔
چھینا، نازی کے بہن بھائی جوان تھے اور ان کی ایک بہن جو میری امی کی ہم عمر تھیں اس کی شادی ہو چکی تھی۔۔۔اس لیے وہ دونوں ۔۔۔میرے اور شہناز سے زیادہ سمجھدار تھیں۔

چھینا ، نازی کے بال کٹے ہوئے تھے۔۔۔جبکہ شہناز اور میری دو دو چوٹیاں تھیں۔۔۔میرے سر میں ہر وقت جوئیں پڑی رہتیں۔۔۔پتہ نہیں وہ شہناز سے دوستی کی وجہ سے تھیں۔۔۔یا مسز بیگ کے سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے سے۔۔یا پھر امی کے روزانہ سر میں سرسوں کا تیل لگا کر کس کے دو چوٹیاں کرنے سے۔۔۔۔

ہاں شاید ایک بڑی وجہ۔۔۔میرا پانی سے ڈرنا اور کم نہانا بھی تھی۔۔۔مجھے نہانا۔۔۔بالکل پسند نہیں تھا۔۔۔جس دن امی مجھے نہلاتیں۔۔۔سارے محلے کو خبر ہو جاتی۔۔۔
پہلے تو امی کے ارادے دیکھ کر میں گھر سے بھاگ جاتی۔۔۔۔امی نہلانے کا سامان تیار کرکے میرے بھائی کو میرے پیچھے بھیجتیں۔۔۔
بھائی کو میرے چھپنے کے ٹھکانے پتہ تھے۔۔۔وہ مجھے ڈھونڈ نکالتا۔۔۔۔گو وہ مجھ سے ایک سال دو مہینے چھوٹا تھا پھر بھی وہ مجھے گھسیٹتا ہوا گھر لے آتا۔۔۔ اس دن وہ مجھے اپنا سب سے بڑا دشمن لگتا تھا۔
امی سب سے پہلے بالوں میں صابن لگاتیں۔۔ بال بہت لمبے تھے۔۔۔صابن میری آنکھوں میں چلا جاتا۔۔۔اور میں زور زور سے چیختی چلاتی رہتی۔
جب میں بال کھولے کیڑی کاڑا کھیل رہی ہوتی تو قریب سے گزرنے والی عورتیں کہتیں۔
۔دیکھو اس بچی کے بال کتنے لمبے ہیں۔۔۔مگر مجھے اپنے بالوں سے نفرت ہو گئی تھی۔۔آنکھوں میں صابن کی چبھن اور سر میں پھرتی جووں کی وجہ سے۔

چھینا نازی کا بہنوئی .محکمہ ڈاک میں ملازم تھا۔۔۔وہ سب بہن بھائی ایکبار مری کی سیر کرنے گئے۔
واپس آکر۔۔۔انھوں نے پنڈی پوائنٹ، کشمیر پوائنٹ، مری مال اور ڈاکخانہ کے ریسٹ ہاوس کے اتنے قصے سنائے کہ ۔۔بنا دیکھے مری سے عشق ہوگیا۔۔۔۔
اور پھر نویں جماعت میں جب گھوڑا گلی گرل گائیڈ کیمپ میں شرکت کی۔۔۔تو عشق جنون اختیار کر گیا۔۔۔
پھر شاید ہی کوئی گرمیاں ہوں جب ہم نے مری کی زیارت نا کی ہو۔۔۔۔سنا ہے اب ۔۔کوہ مری۔۔ بھی ویسی نہیں رہی۔
چیڑ کے درختوں سے بھری۔۔۔آبشاروں۔۔اور چشموں سے سجی۔۔تیرتے بادلوں سے لدی۔۔۔
جسے کوئی ایکبار دیکھے تو دوسری بار دیکھنے کی تمنا کرے۔۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے