درد کے پیوند
"حسن بازاری عورت سے بھی گیا گزرا ہے،سراہنے والی آنکھ میسر نہ ہو تو گیلی لکڑی کی طرح سلگ سلگ کر راکھ بن جاتا ہے۔‘‘
شباب کی تھکن سے چُور بانو نے کتاب کے بیچ میں نشانی کے طور پر چٹائی کا ایک صحت مند تنکا رکھا۔اٹھ کر یوں توبہ شکن انگڑائی لی کہ جسم کا ہر عضو تن سا گیا۔جھلنگا چارپائی سے کود کر جھٹ شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔دن بھر کاموں کے بعد اس کا یہی تو مشغلہ تھا اپنی ماں کے جہیز کا معمولی سی لکڑی کا بنا وہ سنگھار میز جس کی دائیں ٹانگ دیمک زدہ ہونے کے بعد اسے پکی اینٹوں سے سہارا دے کر گویا بانو نے اپنے حسن کو گھن لگنے سے بچا لیا تھا۔
وہ زندگی جو اس کے حسن سے مشروط تھی!
کئی ایسی نشانیاں جن پر اس کی ماں کے نشانات جمے ہوئے تھے ۔جیسے برسوں پرانا آٹے کا تسلہ،روٹی پکڑنے والا چمٹا،کپڑے کوٹنے والا وزنی تھاپا،زنگ آلود سوئیاں،پھونکنی، میلے کچیلے فریم اور پرانی سینی، کونے کھدروں میں پڑے جیسے اس کی نظرِ التفات کے منتظر رہتے،مگر اس کی تو شیشے سے ہی نظر نہ ہٹتی۔
ماں کے مرنے کے بعد شاید یونہی گھٹ گھٹ کر مر جاتی اگر چوتھے دن کمرے کی چیزوں سے لپٹ لپٹ کر روتی بانو کی نظر شیشے کے عکس پر نہ ٹھہرتی۔انہی غزال آنکھوں کو بوسے دینے کے لیے تو راج محل کے شہزادے آنکھوں میں راستوں کی دھول سجائے،گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر ہاتھ میں کاسہِ دل لیے گلی گلی کی خاک چھانیں اور ایک صبح غزال آنکھوں والی لڑکی کھڑکی میں جھانکے تو تخت و تاج کا اکلوتا وا رث گلی کی بوسیدہ دیوار سے ٹیک لگائے ہنہناتے ہوئے گھوڑے کی بانگ تھامے منتظر کھڑا ہو ۔
اپنی آنکھیں دیکھنے کے بعد اس کے دل میں یہ خوش فہمی جنم لے چکی تھی کہ جیسے ہر عشقیہ ناول( جو اس نے سوکھی روٹی بیچ کر سلیمہ کے باپ کی دکان سے رعایتاً خریدے تھے) لکھنے والے نے اس کی آنکھیں دیکھ رکھی ہوں۔
بانو کئی پیرا گراف پر چونک پڑتی۔۔’’آنکھیں ، جنہیں دیکھ کر یوں گماں ہو کہ جیسے فلک بوس پہاڑوں کے بیچ کوئی گنگناتی ہوئی جھیل جو وادی کا سارا حسن اپنے نیلگوں پانی میں سمیٹ لے۔‘‘
بانو کو ناولوں کا چسکا ایسا پڑا کہ اگر کئی روز تک سوکھی روٹی نہ بچتی تو وہ نانو کی مرغیوں کے لیے کٹوری میں بھیگے کچلوندے خود کھا کر اپنے حصے کی روٹی چھت پر سکھانے کے لیے رکھ آتی۔
وہ آج بھی اپنی چھت پر چہرہ اوپر کیے سگریٹ پھونک رہا تھا۔بانو کو لگا اس کا وجود دو حصوں میں منقسم ہوگیا ہے۔ایک جو دیوار پر لٹکا تھا اور دوسرا جو چھت سے کود گیا۔
’’دل اس کمرے کی ملکیت کا تمنائی ہے ۔‘‘بادامی آنکھوں نے تار لکھ بھیجا۔
’’میں سماج کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں۔‘‘چند ثانیے میں جواب حاضر تھا۔
دونوں کی آنکھیں بول رہی تھیں اور ہونٹوں کے کواڑوں پر رسوائی کے ڈر سے قفل پڑا تھا۔
’’ازل سے عورت ملکیت کی متلاشی ہے اور مرد وقت گزاری کا خواہاں!‘‘اس کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔
پیچھے ہونے والے کھٹکے سے وہ اسپرنگ کی طرح اچھلی مگر پیچھے صرف اس کا وہم کھڑا مسکرا رہا تھا۔نانو کا خوف تو جیسے میخیں تھیں جو اس کے وجود میں گڑ سی گئیں ۔ ایک طویل سانس کھینچ کربے بسی کے تیروں سے چھلنی وجود لیے وہ نیچے اتر آئی۔
’’ماں مجھے شہزادے والی کہانی سنا نا !‘‘
پہلی سیڑھی پر پڑوسن کے گھر سے کسی بچے کی مچلتی آواز سنائی دی۔
’’دن کو کہانیاں نہیں سناتے ورنہ مسافر رستہ بھول جاتے ہیں!‘‘ ماں نے اسے پچکارا۔
’’سنا دے باجی مسافر تو سارے اپنے کارن بھٹکتے پھرتے ہیں،سنا دے کسی کا تو جی خوش ہوجائے گا۔‘‘بانو آنکھیں چراتی کہہ کر کمرے کی طرف سر پٹ بھاگی۔
آنکھوں کے لیے آج یومِ مرگ تھا!
سانولی رنگت،بوٹے سی قد والی ہو بہو مری ہوئی چوہیا جیسی سلیمہ نے جب اس کے سرخ و سفید گداز گالوں پر چٹکی کاٹ کر حجلہ ِ عروسی کی شب کا وہ پہلا جملہ سنایا تو بانو جیسے کئی دن بعد مسکائی۔یہ جملہ عشقیہ ناول کے جملوں سے کہیں زیادہ ہیجان آفرین تھا۔رات کو کئی بار اٹھ کر شیشے کے سامنے بانو نے وہ جملہ دہرایا تو لذتوں کے کئی جہان اس پر آشکار ہوئے۔ہوا کا ایک شریر جھونکا جو رات کے اس سناٹے میں کسی درز سے اپنے ساتھیوں سے آنکھ بچا کر نکلا اور کمر میں بانہیں ڈال کر اسے گدگداتے ہوئے کھڑکی سے باہر کود گیا۔وہ شرم سے چھوئی موئی ہوگئی۔
اس مری ہوئی چوہیا جیسی لڑکی کے لیے کوئی مرد ایسا جملہ ادا کر سکتا ہے تو ۔۔۔ اس کے آگے کا سوچ ہی اس کے جسم میں میٹھی میٹھی سی گدگدی سی ہونے لگی۔لب یوں کانپنے لگے جیسے کسی شہزادے نے شیشے سے نکل کر اس کے بھرے گالوں میں چٹکی بھر لی ہو۔
’’ری بانو !تیرے جسم کو کیڑے کھائیں،تیرے حسن دیمک چاٹ لے،تیرے سندر بدن کی بوٹیاں گدھ نوچے،تیرے چہرے پر تیزاب کی بوتل لڑھک جائے ،ری تیری جوانی مٹی ہو۔۔۔ کہاں سے لیا یہ خصم پھنسانے والا سامان!‘‘ خالص ابٹن کو کھلے گریبان پر ملتی بانو پشت پر نانی کی آواز سن کر یوں اچھلی جیسے سر بازار کسی نے اس کا دوپٹہ کھینچ ڈالا ہو۔انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو اور سرخی پوڈر،کاجل،ابٹن،عطر اور اس جیسی الا بلا لے کر چولہے کی طرف بڑھیں۔ہلکان ہوتی بانوابٹن کی ڈبیہ کو بچانے کی کوشش میں چولہے پر ایسی جھپٹی کہ چوٹی کے بال ذرا سے جھلس گئے۔
’’وجود کے سر بستہ راز وقت سے پہلے کھوج لینے والی لڑکی آتش گیر مادے کی مانند ہوجاتی ہے،چنگاری پھوٹنے سے پہلے چلتا کردو ، ورنہ راکھ کے سوا کچھ نہیں بچتا ۔‘‘
’’ٹھیک کہتے تھے تیرے نانامگر میں بڑھیا کیا کروں ۔۔۔بہتیرے لوگوں کو تیرے بر کے بارے میں کہا ۔۔۔مگر اب کوئی ناس پیٹا نہ ٹپکے تو تجھے کسی کی دہلیز پر چھوڑنے سے تو رہی۔‘‘نانی مار مار کر تھکی تو دو ہتڑ اپنے سینے پر مارے اور پھپک پھپک کر رونے لگی۔کئی روز تک اس کا چہرہ مار کے بعد کسی پرانی ڈنٹ شدہ کار کی طرح ہوجاتا۔ ان دنوں شیشہ کپڑے سے ڈھکا رہتا۔رات بھر درد اور ٹیسوں سے راز و نیاز ہوتے اور صبح کے قریب گھوڑے کی ٹاپیں قدرے دور سنائی دیتیں۔صبح ہوتے ہی نانی اس کی بلائیں لیتے ہوئے گرم ریت سے ٹکور کرتی۔گرم گرم پھلکے توے سے اتار کر اس کے منہ میں زبردستی ٹھونستے جاتی لیکن یہ لاڈ چند روزہ ہوتا۔پھر کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا، جو اس کی شامت بجا لاتا۔
شام نے تاریکی کی بکل مارے ابھی دیوار سے جھانکا ہی تھا کہ نانی کا چہرہ دھیرے دھیرے سفید پڑنے لگا۔چہرہ لٹھے کی طرح سفید اور ہاتھ پیر اینٹھنے لگے۔
’’الہی خیر!پھر مرگی کا دورہ پڑگیا۔‘‘ بانو قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی۔منہ سے نکلتی جھاگ پر مولوی صاحب کا دم کیا ہوا پانی چھڑکنے لگی۔نانی کی ایسی حالت اکثر غصے کے بعد ہی ہوتی مگر آج تو وہ صبح سے ہی بانو پر نثار ہوئے جارہی تھی۔سدا کی کنجوس نانی نے پڑوسن کے لڑکے کو بازار دوڑا کر چھوٹا گوشت تک منگوا لیا، اسے بھنڈیوں میں ڈال کر بھونا اور پھر پاس کی سلمی کو تندور میں روٹیاں لگانے کا کہا۔ایسا اہتمام تو شاید پچھلی عید پر منجھلے ماموں اور ان کی صاحبزادیوں کی آمد پر کیا تھا۔اس کے بعد ہر روز ہرے چھلکے والی مونگ کی دال کھا کھا کر تو بانو کا جی تک اوب گیا مگر شومئی قسمت کہ ابھی پکا کر باورچی خانے سے لمحہ بھر کے لیے نکلی ہی تھی کہ مرگی نے آ دبوچا۔
بانو نے طبیعت سنبھلتے ہی ان کے سرہانے سے چابیوں کے گچھے کو سرکایا اور باہر کھسک لی۔مرگی کے دورے کے بعد نانو کئی گھنٹوں تک بے سدھ پڑی رہتی۔بھنڈیوں میں سے ساری بوٹیاں چن چن کر کھائیں، پھر بھی جی نہ بھرا تو صندوق میں چھپی چینی کو گھول کر چار قسم کے الگ مشروبات بنا کر کلستے جی کو ٹھنڈا کیا۔
’’رنگت یوں اجلی کہ بندہ ہاتھ بھی لگاتے ڈرے کہ میلی نہ ہوجاوے،آنکھیں جیسے کچی شراب کے چھلکتے کٹورے ،پیتے جا لڑھکتے جا، نازک ہاتھ یوں نبض پر رکھتا ہے مریض مرض کو بھول کر دل کی دھڑکنیں سمیٹنے میں لگ جائے۔‘‘سلیمہ نے قمیض کی فٹنگ کا جائزہ لیتے ہوئے محلے کی تازہ ترین خبر سنائی۔
’’اری کمبخت سلیمہ تو ذرا پہلے آجاتی تو میں اس اوپری کمرے میں ٹھہرے بڑی توند والے کرایے دار کے میلے چکٹ تکیے پر اپنا عطر میں ڈوبا نیا نکور غلاف نہ چڑھا آتی۔‘‘بانو نے سلیمہ کی منہ زبانی نکڑ پر نئے ڈاکٹر کی آمد کا سن کر ہاتھ ملتے ہوئے دل میں سوچا۔
’’ہائے غلاف پر کاڑھے گلابی پھولوں کی آخری پتی کے نیچے سرخ ریشمی دھاگے سے چھوٹا سا دل بنا تھا جس میں لکھا بانو صاف نظر آرہا تھا!‘‘اسے نئے قلق نے آگھیرا۔
نانی کی بے ہوشی والے دن وہ جیسے ان کی لگائی پابندیوں سے لڑ پڑتی۔ہر وہ کام جو انہوں نے منع کررکھا ہوتا اس دن اسے کرنا جیسے بانو پر فرض ہوجاتا۔اب کی بار تو اس نے اوپری مکان کے کرایے دار کی جھلک ہی دیکھی تھی۔اور ایک وہ پرانا کرائے دار ارشد تھا،ایسا شاطر کہ مخاطب کی آنکھوں سے سرمہ تک چرا لے اورپتہ تک نہ چلے مگر مِیسنا ایسا کہ بیوی میکے بٹھاکر کنوارہ بنا پھرتا تھا۔بانو اس کے جانے کے بعد کئی دن تک اس رومال کو سینے سے لگائے بولائی بولائی پھرتی رہی جس پر بانو ارشد بڑے ارمانوں سے کاڑھا تھا۔
’’بنا دیکھے کھو گئی نا اس ڈاکٹر کے سپنوں میں !‘ سلیمہ نے شرارتاً اسے کہنی دے ماری۔
’’ارے میں کہوں ایسا طبیب ہو تو مجھے تو روز تاپ چڑھے!‘ ‘سلیمہ نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔
بانو نے اٹھ کر جھٹ دروازہ بھڑ دیا۔اگر نانی غنودگی میں بھی ہوئی تو آواز پہچان لے گی کہ موئی سلیمہ کو پھر بلا لیا۔بانو نے اس نے بلند بانگ قہقہے پر اپنے ہونٹ قدرے پھیلالیے۔
’’کمبخت منہ پھاڑ کر یوں ہنستی کہ حلق کا کوا تک نظر آنے لگتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی یوں بجاتی ہے کہ اس کا دوسرا مہینہ نہ چل رہا ہوتا تومیں اسے ہیجڑہ ہی سمجھتی!‘‘بانو نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے گلابی قمیض منہ کے آگے کرلی۔جس کی فٹنگ کے لیے اس نے سلیمہ کو بلوایا تھا۔
’’مگر ہے بڑا کٹھور ،ہم جیسی نیلی پیلی سیخ سلائی لڑکیوں کو تو گھاس تک نہ ڈالے دوستی کے لیے ۔۔۔‘‘سلیمہ نے بانو کے چہرے سے قمیض ہٹائی اور قینچی سے اس کا گلا خوب گہرا کرکے جیسے اپنی افسردگی مٹائی۔
’’ہاں مگر تیری جیسی سندر کی نبض پر ہاتھ رکھ کر وہ ہاتھ ہٹانا بھول جائے۔‘‘سلیمہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔بانو’ مجھے کوئی دلچسپی نہیں‘ والے تاثرات چہرے پر سجائے قمیض کی ترپائی میں مصروف تھی۔
’’ہائے نہیں میرے قریب مت آئیے،آپ کو قسم ہے میری جان کی میری گردن پر رینگتی اپنی انگلیاں ہٹا لیجئے ڈاکٹر صاحب!‘‘ چھپر کھٹ پر چت لیٹی بانو انہیں خود پر جھکتا دیکھ کر کسمسائی۔
’’ہائے نہیں ‘‘ اس نے سائے کو پرے دھکیلنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور چھناکے سے کوئی چیز ٹوٹ کر زمین پر جا گری۔اس نے گھبرا کر پپوٹے کھول کر لانبی لانبی بادامی آنکھیں اردگرد گھمائیں۔پھولی سانسوں کو ہموار کرتی چارپائی سے اٹھی۔نیچے میز پر گلدان کے ٹوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔وہ کچھ دیر پہلے کا سپنا یاد کر کے مسکرائی۔اٹھ کر شیشے تک یوں آئی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو۔بال بکھر کر پشت اور سینے سے چمٹ گئے۔آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل لگا کر اس نے بڑی فرصت سے ہونٹوں کو رنگ ڈالا۔جیسے دہلیز کے پار کوئی ڈولی لیے منتظر کھڑا ہو۔دور کہیں نانی کی دبی دبی سسکیاں گونجتیں سنائی دیں، جیسے انہیں بانو کی وداعی کا گہرا رنج ہو۔ایکاایکی آنگن شہنائی کی آواز سے گونج اٹھا۔رات کے آخری پہر نے دروازے کی جھری سے دیکھا۔۔۔ایک لڑکی دیوانہ وار ناچ رہی تھی!
رتجگے کے اثرات تھے یا پھر نئی نویلی محبت کا تاپ،نانی نے صبح سویرے بانو کے کمرے میں جھانکا تو وہ بخار سے پھنکتی کمرے کے بیچوں بیچ بے ہوش ملی۔
’’اے بیٹا ذرا جلدی چیک کردو،صبح سے بچی بخار سے پھنک رہی ہے۔‘‘شٹل کاک برقعے کے ننھے ننھے سوراخوں سے بانو نے اسے نزدیک آتا دیکھا تو مارے گھبراہٹ کے ماتھے سے پسینے کی ایک بوند ابھری اور لکیر بن کر گردن کو پار کرتی بہت نیچے تک چلی گئی۔
بانو کی نظریں اس کے ہاتھوں پر ٹک گئیں!
کمینی سلیمہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی کہ خالص دودھ ملائی والی رنگت ہے،ہاتھوں کی جلد اتنی اجلی کہ اندر کی ہڈیاں اور رگیں تک نظر آرہی تھیں۔اس نے من ہی من میں سوچا۔
’’ہاتھ دیجیے ،نبض چیک کرنی ہے۔‘‘ ڈاکٹر یہ کہتا اس کے سر پر آ کھڑا ہوامگر بانو کو کچھ اور ہی سنائی دیا۔شرم سے لجاتے ہوئے اس نے کانپتا ہاتھ باہر نکالا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے اس کی چوٹی پکڑ لی۔
’’یہ تم چھپ چھپ کر کیا لکھ رہی ہو بانو ؟‘‘اس سے پہلے کہ بانو اسے تکیے کے نیچے چھپاتی اس کے ماموں کی منجھلی بیٹی نے جھٹ وہ کاغذ اچک لیا۔بانو ہاتھ ملتی رہ گئی۔
’’ارے پاگل ابھی تو ہم آپی کی شادی کا بلاوہ دینے اور یہ بتانے آئے ہیں کہ ابو تمہارے لیے اپنے ڈرائیو کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور تم ابھی سے سنگھار کی لسٹ بنانے لگی ہو۔‘‘اس نے اپنی بہنوں کو لسٹ دکھائی اور پھر سے کھی کھی کرنے لگیں۔
’’اچھا میرا وعدہ ہے کہ میں یہ سب سامان جو آپی اپنے حسن کو دو آتشہ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔تمہارا رشتہ پکا ہوتے ہی بھجوا دوں گی۔‘‘ اس نے ہنسی روک کر تسلی آمیز لہجے میں کہا اور کھی کھی کرتی بہنوں کو لیے باہر نکل گئی۔
’’اللہ توبہ!کتنی بے تاب ہے اپنی شادی کے لیے۔۔۔ابھی سے صابن اور پرفیومز کی لسٹ بنا رہی تھی ۔‘‘بانو نے ہتک کے مارے کاغذ کا گولا بنا کر دور اچھال دیا۔باہر تینوں بہنوں کی دبی دبی ہنسی کسی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح اس کے دماغ میں گھسی چلی جارہی تھی۔اٹھ کر شیشے میں جھانکا اور ہاتھوں کی کنگھی سے بالوں کو سنورا کر چہرے پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے شرمندگی کے اثرات جھاڑ رہی ہو۔
’’اماں میری بیٹی کے رخصت ہونے کے اگلے دن بانو کی شادی ہوگی دیکھنا،رشتہ تو سمجھو گھر میں ہی موجود ہے۔تم بس تیاریاں کرلو!‘‘ گاڑی کی آواز پر وہ باہر نکلی تو دروازے پر کھڑے ماموں کی باتیں سن کر وہ شرما کر اندر بھاگی۔اس کا وجود خوشی کے مارے بنا پنکھ کے اڑنے لگا۔من کیا بھاگتی ہوئے نانو کے گلے سے لگ جائے۔اس کے سارے قلق بھک کرکے اڑ گئے۔حتی کہ اس نے پنے بالوں کو آسودہ خاطری سے دیکھا جو لمبی چوٹی سے مٹھی بھر رہ گئے تھے۔جن کو دادی نے ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے واپسی پر بے شمار گالیوں،ٹھڈوں اور کوسنوں کے بعد بے درری سے کاٹ دیا تھا۔جنہیں اس نے بیری کے پتے گھوٹ گھوٹ کر بالوں میں لگا کر لمبا کیا تھا۔ایکاایکی اس کی نظر اپنے ہاتھوں کے زخموں پر پڑی ،وہ مہندی تو ہفتے بھر میں ہی اتر گئی جس کمبخت پر نانی کی نظر اسی وقت پڑی جب ڈاکٹر نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا۔
’’ناس پیٹی کس سے سیکھے ہیں یہ مرد پھنسانے والے لچھن !‘‘نانو نے سب کے سامنے بانو کی چوٹی پکڑ لی اور یوں گھسیٹتے ہوئے گھر آئی کہ اس کی ایک جوتی نالی میں گرگئی۔کئی دن تک وہ دوسری جوتی کا سوگ مناتی رہی۔نانی اپنے اکیلے پن کی وجہ سے میرا بیاہ نہیں ہونے دیتی جیسے سارے گلے آج دور ہوگئے۔
اس رات سپنوں میں شہزادہ گھوڑے کے بجائے ایک بڑی سی گاڑی پر آیا!
ماموں کی بڑی بیٹی کی شادی سے واپسی کے اگلے دن سے ہی بانو فرط و شاداں پیٹی میں پڑے جہیز کو دھوپ لگاتی رہی۔دل گلی میں بجتے ہر ہارن پر اچھل پڑتامگر وقت کسی جنگلی جانور کی طرح دنوں کو بھنبھور کر شکم میں اتارے چلا جارہا تھا۔رات بستر کی شکنیں گنتے گزر جاتی۔رفتہ رفتہ گنگناہٹ کا گلا بیٹھ گیا۔خاموشی اس وقت چٹخی، جب پہلی بار آئینے نے اسے آئینہ دکھایا۔مہین دوپٹے سے بانو کے بالوں کی سفیدی باہر نکل رہی تھی۔پھر ہونٹوں کا گلابی رنگ سیاہی مائل ہونے لگا۔عشقیہ ناول کے ہزاروں ہیجان آفرین جملے پڑھ کر بھی بانو کے جسم میں کوئی سنسنی تک نہ دوڑتی۔شہزادے کی راہ تکتے غزال آنکھیں خالی سوکھا کنواں بن گئیں۔سنگھار میز کی دوسری ٹانگ کو دیمک نے چاٹا تو شیشہ منہ کے بل جا گرا۔بالاخر جوانی کا بھوبھل سرد ہوگیا!
’’دیکھو تو بیٹا، ذرا چیک کرو،کیا ہوگیا ہے میری بچی کو۔۔۔‘‘ بھنچا ہوا دروازہ چرخ سے کھلا۔بانو جو دوپٹے سے بے نیاز کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔نانی کے ساتھ تھن تھنا چہرہ،موٹے موٹے ہونٹ، چوڑی ناک اور تنگ ماتھے والے اجنبی مرد کو دیکھ کر بوکھلا گئی۔
’’نانی میں نے اسے نہیں بلایا ،خدا قسم یہ ابھی کھڑکی کے نیچے اپنے گھوڑے کو باندھ کر میرے کمرے میں کود آیا!‘‘وہ خوف سے ہکلائی۔چہرہ یوں زرد پڑا جیسے کسی نے ہلدی ملا پانی اس کے چہرے پر مل دیا ہو۔نانی کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر جھریوں زدہ گالوں میں گم ہوگیا۔
’’نہ میری بچی یہ اوپری مکان کا نیا کرائے دار ہے۔بھلا مانس بچہ ہے تو مدد کے لیے ساتھ لے آئی۔اٹھ تجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔‘‘وہ آگے بڑھی اور بانو تیورا کر پیچھے ہٹی۔
’’میرے ہاتھ دیکھ لیں نانی، میں نے آج مہندی نہیں لگائی!‘‘یہ کہتے ہوئے رنگ فق ہوا۔ اس نے خالی ہتھیلی آگے کی جن پر مدھم سی کٹی پٹی لکیروں کا جال بچھا تھا۔کلائیوں پر نیلی رگیں نمایاں تھیں۔
نانی کے دل پر جیسے گھونسا پڑا۔انہوں نے ایکا ایکی اپنی آنکھیں پونچھیں اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔بانو کا چہرہ موت کی سپیدی لیے ہوئے تھا۔بے زار کھڑا نوجوان نا محسوس طریقے سے باہر کھسکا۔بانو کا چہرہ دھیرے دھیرے سفید پڑنے لگا۔۔۔بالکل لٹھے کی مانند!
ہاتھ پیر اینٹھنے لگے۔۔۔اور منہ سے جھاگ نکلنے لگی!!!