مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی المعرف شبنم رومانی (1928ء-1909ء)۔ 1948ء میں بریلی کالج سے بی کام کیا، 1949ء میں کوآپریٹوز کے اکاؤنٹنٹ اور پھر اسسٹنٹ سکریٹری رہے۔ اسی سال ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ نظمیں، افسانے، انشائیے بھی لکھے۔ 1970ء کی دہائی میں روزنامہ’’مشرق‘‘ میں پابندی سے ادبی کالم لکھتے رہے۔سہ ماہی مجلہ اقدار شائع کرتے رہے۔ ان کی تصانیف میں مثنوی سیر کراچی، جزیرہ (شاعری)، حرف نسبت (نعتیں)، ارمغان مجنوں، تہمت، دوسرا ہمالہ (شاعری)۔
بچوں کے لیے انھوں نے 1950ء کی دہائی میں لکھنا شروع کیا، جب کہ 1970ء کی دہائی میں پی ٹی وی کراچی مرکز نے بچوں کے لیے پروگرام "کھیل کھیل میں” شروع کیا تو، شبنم رومانی سے موضوعاتی نظمیں لکھوائیں۔ جن میں سے 26 نظمیں، "موزے چلغوزے” کے عنوان سے پہلی بار کراچی سے حکیم محمد سعید کی خصوصی دل چسپی کی وجہ سے، ہمدرد فاؤنڈیشن نے 1991ء میں پہلی بار شائع کیں۔ اسی کتاب سے ایک نظم جس پر کتاب کا عنوان موزے چلغوزے رکھا گیا ہے۔ وہ پیش خدمت ہے۔
موزے چلغوزے
بارش ناچی چھم چھم چھم
بستر میں جا دبکے ہم
موسم کی چادر ڈھلکی
برف گری ہلکی ہلکی
قلفی جیسے ہو گئے ہاتھ
آہا سردی کی کیا بات
تیر چلاتی آئی ہوا
خنجر سی لہرائی ہوا
ٹھنڈی ٹھنڈی لہر چلی
کمرے کمرے آگ جلی
تھر تھر تھر تھر کانپے رات
آہا سردی کی کیا بات
دیکھا سردی کا جلوہ
کھایا انڈوں کا حلوہ
کھنکی چائے کی پیالی
گائی مل کر قوالی
بی سردی کو ہو گئی مات
آہا سردی کی کیا بات
پیروں پر اونی موزے
جیبوں میں ہیں چلغوزے
بکھرے رنگ کہانی کے
قصے راجا رانی کے
جن بھی ہیں پریوں کے ساتھ
آہا سردی کی کیا بات
سانس ہے یا چبھتی سوئی
برف ہے یا دھنکی روئی
آہ بھری گلدستوں نے
چادر اوڑھی رستوں نے
دیکھو چاندی کے فٹ پاتھ
آہا سردی کی کیا بات