بارش محض التوا ہے ! شاعر: ایچ بی بلوچ

بارش محض التوا ہے!
ایچ بی بلوچ
زندگی چھتری سے باہر
اور بارش پیشن گوئی سے طویل ہو گئی ہے!
بڑھئی دکان بند کرنے کے لیے
باہر جھانک کر
سمیٹے ہوئے سامان کو دوبارہ سمیٹتا ہے
اس کو کرنے کے لیئے کوئی اضافی کام نہیں بچا ہے
مارٹ کے سایہ دار چھپرے میں کھڑی لڑکی
اس کو دیکھ کر غمناک آنکھوں سے اسکارف کے اندر ہی مسکراتی ہے
شاید زندگی کے اندر اس لیے بھی اور کوئی کام نہیں بچا
اسے بھی باہر جانا ہے
مجھے لگا
میں کیوں کھڑا ہوں
میری آنکھوں میں وہ کیا ہے، جو بارش سے الگ ہو
میرے پاس کیا بچا ہے، جو بارش لے جائے گی
روح کا کون سا کونا خشک ہے، جو بارش بھگو دے گی
ڈائری کا کون سا ورق خالی ہے
جس پر درج نہیں کہ، پرندے، بادبان، بوسے اور چھاتیاں قدرتی آفات تھمنے کے انتظار میں دن نہیں ٹالتے!
آگاہی سے زائد بارش کے قطرے ہوں یا آنسو
وہ ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے!
انہیں کچل کر ان کی کلکاریاں سننی چاہئیں
جس طرح بچے دوڑ دوڑ کر بارش کے پانی کو گدلا
اور لوگ کرید کرید کر ہمارے آنسوؤں کو میلا کر دیتے ہیں
لیکن
کتنی مدت سے، ایک سفر ایڑی میں اٹکا ہوا ہے
کتنا عرصہ ہوا، باہر ہی نکل نہیں پایا
ارادوں کے ناخن بڑے ہوکر آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں
کسی نے دنوں کو ایک دوسرے کے بعد بے اختیار پیچھے لگا دیا ہے
راتیں ایک دوسرے سے ٹیک لگائے ان خوابوں پر ہنس رہی ہیں جو ہم نے ابھی دیکھنے ہیں!
بارش محض التوا ہے!
محض حیات کی صراحی نما گردن کی حق تلفی پر ناخن کاٹنے کا دورانیہ
مسلسل بھگدڑ میں
وجود کے کونے میں نظر انداز کی گئی شاموں سے سبکدوش ہونے کی مخصوص تعطیل
کافی ہاؤس میں
اجرت کرتے لڑکوں کے مل بیٹھنے کا بہانہ
اور ماضی کی چیزوں کو ترتیب دینے کے لیے قدرت کی طرف سے دیا گیا وقت
بارش رک چکی ہے
میں اب بھی وہیں ہوں
بارشیں صرف
ہمیں پناہ گاہوں میں روکے رکھنے کے لیے برستی ہیں!
اکیلی لڑکی سائے کی اوٹ سے نکل کر
اپنی اداسی چھجے پر بکھیرے، چل دی ہے
کتے کا ایک بونگڑا
اس کے پیچھے نادیدہ، اداس اور چھوٹی پناہ گاہ کے گھیرے میں جا رہا ہے
میں سوچتا ہوں
وہ دور جاتے اپنے ہیولے کے ساتھ
ایک پناہ سے نکلنے کے بعد اب کون سی پناہ گاہ میں جائے گی؟؟
جب کہ بارش تھم چکی ہے!