یاد کرنے پر بھی یاد آتے نہیں
سیماب ظفر
اس گلی کو جانے والے راستے،
راستوں کے دونوں جانب گنگناتے، لہلہاتے، چھاؤں پھیلاتے درخت،
اور درختوں پر بنے تنکوں کے گھر،
ان گھروں میں چونچ کھولے منتظر بچے،
اور ان کے چہچہاتے گیت،
کچھ بھی یاد اب آتا نہیں۔۔۔۔۔۔
اک بہت اپنا سا چہرہ،
اور اس چہرے پہ لو دیتی ہوئی آنکھیں،
ان آنکھوں کی سنہری دھوپ سے چمکا ہوا موسم،
اور اس موسم میں کھلتا، کھلکھلاتا ایک دل،
اب یاد آتا ہی نہیں۔۔۔
کچھ رنگ میں بھیگی ہوئی شامیں،
فضا میں پھیلتی کافی کی خوشبو،
میز پر راشد کی نظمیں،
ایک جادوگر حسن اپنی ازل کی جستجو کا حال کہتا۔۔۔
اور دو افسوں زدہ، حیرت کی ماری، خامشی سے دیکھتی آنکھیں ۔۔۔
نہیں۔۔۔ اس ذہن کے پردے پہ اب ڈھونڈے سے بھی اک نقش تک ملتا نہیں گزرے دنوں کا۔۔۔
ہاں مگر اک دھند میں لپٹی ہوئی ساعت
اور اُن آنکھوں کے سینے پر دھرا بارِ ندامت۔۔۔!!
Follow Us