ہمیں بھی اجل آ دبوچے گی اک دن!
سرمد سروش
ہمیں بھی اجل آ دبوچے گی اک دن!
مگر ہم کسی اجنبی راستے پر مریں گے
کہیں بے کلی کے سبک گام گھوڑوں کی پتلی کمر سے
ڈھلک کر گریں گے
ہمیں شہر کے تنگ و تاریک خانوں میں،
بستر کی راحت میں،
عورت کی صحبت سے سرشار،
کھانے کی ٹیبل پر، ٹی وی کے آگے
دفاتر میں کرسی پر بیٹھے ہوئے,
جان سے ہاتھ دھونے نہیں ہیں
چلو یاں سے آگے بڑھو
ہم کبھی شہر معتوب کی عیش و عشرت میں شامل نہیں تھے،
مبادہ ہمیں کل کوئی ان میں گنتی کرے!!
برف کے ان جلیدوں کو دیکھو
یہ کیسے بتاشے کے مانند گھلنے لگے
کتنی صدیوں کا پانی،
دقیقہ دقیقہ سمندر کے پاتال میں گر رہا ہے
یہ جاروب آبی انہیں بھی کسی دن بہا لائے گا.
یاں ابھرنے کی ہم کو اجازت نہیں تھی
یہاں ڈوب کر ہم نے مرنا نہیں ہے
چلو اپنے گھوڑوں کو مہمیز دو
ہم کسی اجنبی راہ پر،
بے کلی کے سبک گام گھوڑوں پہ بیٹھے ہوئے جان دیں گے ـ