fbpx
نظم

کنول کی کشتی /پروین طاہر

کنول کی کشتی

جہاں ہم پہلی بار ملے
وہاں دھان کے خوشبودار کھیت ,
پُراسرار بیریوں کے جُھنڈ
اور ایک رومانی ٹیلہ تھا
جس پر اُگے آک کے کاسنی پھول,
داب کی جھاڑیاں
اور ہمارے ننھے پاؤں کی دھمک تھی
کپاس کے بسنتی پھولوں
اور سفید پُھٹیوں کے گرد
بھنور منڈلاتے, دوپہریں اونگھتیں تھیں
تمباکو کے پودوں کی تیز باس
رہٹ کے آس پاس پھیل جاتی
اور بیل مستی میں دائرہ وارگھومتے رہتے
ہم تمازت بھری شاموں میں چھت کی منڈیر پر پاؤں لٹکائے گھروں سے اُٹھتے
مقدس دھوئیں کی خوشبو سونگھتے
تم میری مینڈھی سے کھلتے کھیلتے
نجانے کن جادوگروں, شہزادوں اور پریوں کی
کہانیاں سنانے لگتے
چاندنی چارسو پھیل جاتی
اور میں تمہاری کہانیوں کے جنگل میں
واپسی کا رستہ بھول جاتی
ایک دفعہ تو ایسی گم ہوئی
کہ تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا
اور ہم انجان سمتوں میں نکل گئے

دوسری دفعہ ہم آئتما توف کے
نیلے پیلے پہاڑوں
اور پوشکن کی شاعری میں ملے
ہم دونوں آئتما توف اور جمیلہ کے ساتھ
آواز ملاتے اور گاتے
"میرے پہاڑو نیلے پیلے پہاڑو”
ہم کُتب خانے کھنگالتے,
پڑھتے , بحثیں کرتے اور لڑتے
ہم خواب دیکھتے…. روشن خواب…….!
دنیا سے دُکھ اور غُربت کو مٹانے کے
دھرتی پر سات رنگ بچھانے کے
مگر تاریخ.. ..!!
کب کسی کی آشا پوری ہونے دیتی ہے
ہم انقلاب اور آزادی کے خیالوں میں اتنا کھو گئے
کہ ایک دوسرے کو بھول گئے
میرا ہاتھ پھر تمہارے ہاتھ سے چھوٹ گیا

تیسری بار ہم ایک دھندلے سےخواب میں ملے
کوئی منظر واضح نہ تھا
مگر دُھند بہت من موہک تھی
میں نے سات پوشاکیں بدلیں
اور سات دیویاں کا جنم روپ لیا
اور تم نے سات دیوتاؤں کا
کبھی تم تیر پھینکتے,
کبھی بنسی بجاتے ,
کبھی تانڈو ناچتےہوئے
اپنے جلوے بکھیرتے
کوہ میرو, مندرا کی چوٹی,
اور کبھی نیل کے ساحلوں پر
ایک دن میں کنول کی نوکا پر بیٹھی
تم سے ملنے آ رہی تھی کہ
پانی کا تیز ریلا ناؤ کو بہا کر
انجان ساحلوں پر پھینک آیا
جہاں تم نہیں تھے

اس بار ملے ہو تو
کُھلی آنکھ کے سامنے
یوگ آسن میں کسی اور کے نام کی
دھونی رمائے بیٹھے ہو !!

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے