نغمہ ء بیابانی
نصیر احمد ناصر
ہوا روز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے
زمانے کی بوسیدگی سے
کوئی روح آزاد ہو کر
مجھے اوڑھ لیتی ہے
اپنے علاقے سے نکلا ہوا اجنبی میں،
مرا جسم بارانی رستوں ، زمینوں میں
خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح پھیلتا پھولتا
نیم شاداب کھیتوں کی بے آبیوں سے گذر کر
کسی تیز برساتی نالے میں گرتا ہے
سیرابیوں کی کہانی کئی موڑ مڑتی ہے
درپا کی طغیانیوں میں
کئی رس کی باتیں ہیں ، گھاتیں ہیں
جنگل میں بیلے ہیں، صدیوں پرانے کٹاؤ میں
گھاؤ ہیں، گہرے بہاؤ ہیں
اپنے بہاؤ میں خود ڈوبنے کی تمنا عجب ہے
ہوا جانتی ہے
ہوا جانتی ہے
مرے ساتھ یادوں کا میلہ ہے، عمروں کی وارفتگی ہے
جواں سال لمحوں کی رونق ہے
بوڑھے زمانوں کی افسردگی ہے
خوشی ہے ،غمی ہے
ارادوں سے بھر پور دن کی مشقت ہے
بے خواب شب کی سیاہی ہے
فطرت کی بے پایاں دولت ہے
سورج کا سونا ہے، تاروں کی چاندی ہے
نیلے تحیر سے لب ریز ، پھیلا ہوا آسماں ہے
افق کے کنارے پہ روٹی نما چاند ہے
لالٹینوں کی کم روشنی ہے
الاؤ ہیں
خانہ بدوشوں کے ڈیرے ہیں
ناقہ سواروں کی پر چھائیاں ہیں
ہوا جانتی ہے
ہوا جانتی ہے
میرے دل سے لپٹی ہوئی ایک وعدے کی رسی ہے
آنکھوں میں ٹوٹا ہوا ایک عہد محبت ہے
خوابوں کی مٹی ہے
بے موسمی بارشوں کی نمی ہے
مجھے کیا کمی ہے
ہوا جانتی ہے
پرانا میوزک سناتی ، اداسی کو ڈی کوڈ کرتی
ہوا وائلن کی طرح
مجھ سے میرے قدیمی دکھوں کی زباں بولتی ہے
ہوا روز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے!