ایک بھولی نظم کے نام ایک نظم
میمونہ افضال
ایک بھولے رستے کو کھوج لینا بہت آسان ہے
رستہ تو سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے
ہر رستے کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں
وہ نشانیاں کھوجی جا سکتی ہیں
اور اب تو جی پی ایس آن کر کے کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں
مگر
ایک بھولی نظم بھولے رستے جیسی نہیں ہوتی
وہ تو بچپن کے بچھڑے کسی دوست جیسی ہوتی ہے
جس سے آخری دفعہ ہاتھ کب ملایا تھا
یہ تو کہیں کسی ڈائری میں لکھا ہوا،
کسی پرانی البم میں سنبھالا مل جاتا ہے
وہ اکھٹی ہنسی تو یاد رہ جاتی ہے
مگر
ساتھ مل کر جو باتیں کی تھیں وہ بھول جاتی ہیں
آنکھوں سے اس کے نقش محو ہو جاتے ہیں
مگر خوبصورتی کا احساس نہیں مٹتا
ایسے ہی، بالکل ایسے ہی
جب کوئی نظم بھول جائے تو اس کے لفظ محو ہو جاتے ہیں
عنوان بھی کھو جاتا ہے
ذہن کی کن بھول بھلیوں میں کھوئی تھی،
آخری بار کب اور کہاں ملی تھی
کچھ یاد نہیں رہتا
تم سو نظمیں لکھ بھی لو
اس نظم کا زیاں بھولتا نہیں
جیسے بچھڑا دوست پھر کبھی ملتا نہیں !!