آگہی کے دیوتا
خیر زمان راشد
وہ بلندیاں جہاں رومی اور تبریز کی روحیں رقص کرتی ہیں۔
جن کا نسب جُودی اور طور سے ملتا ہے
جہاں پریاں شام کو اترتی ہیں تو رات پہ جوانی آجاتی ہے، ستارے شراب کے جام لیئے چاندنی کے تعاقب میں ہوتے ہیں
چاند یوں جھانکتا ہے
جیسے سیج پہ بیٹھی دلہن گھونگھٹ سرکاتی ہے
جہاں انگڑائیاں صبا کے ساتھ فراز سے نشیب کا قصد کرتی ہیں
پہاڑ ہمارے رازداں ہیں
ان میں اتری اداس شاموں کو ان کہساروں کے ساتھ ہم نے اپنی روح میں اتارا ہے
پہاڑ سورج کی کرنوں کو اپنی وادیوں میں اترنے کی جازت دیں تب
وادیوں پہ قوس قزح کا رقص دیکھنا نصیب ہوتا ہے
آفتاب سے پہاڑوں کا ازل سے معاشقہ ہے۔۔۔
یہ کہسار روشنی کی رفتار کا تعین کرتے ہیں
شام کو سورج کو الوداع کرتے سمے ان پہ زرد موسم کا راج ہوتا ہے
صبح کرنیں رقص کرتی پہاڑوں کی کمر میں ہاتھ ڈالے تمام کائنات کو حسنِ نظارہ دکھاتی ہیں۔
پہاڑ کم سواد اور کم نظر نہیں۔۔۔ موسم اتارتے اور
لہو کی پیاسی،
سینہ کوبی کرتی ہوائوں کے سامنے
اپنا سینہ سپر رکھتے ہیں ،
ہمالہ ان کا پیغمبر اور ایورسٹ اور قراقرم اس کی دیوداسیاں ہیں۔
وہ دیوتا
جو خدا سے مکالمہ کی فضا بناتےہیں
پیغمبروں کا مسکن اور فرشتوں کی قیام گاہیں۔
پہاڑ نہ ہوں تو پریاں رقص بھول جائیں اور عاشق عشق بغیر مرجائیں پہاڑ اپنی اداس شاموں میں برہا کے گیت گاتی گجری کی صداؤں کے قرنوں سے سامع، پیاسوں کے لیے نیلے شراب کے پیالے لیئے منتظر۔۔۔۔۔۔
دور کہیں دھندلی فضاؤں میں اپنا رنگ ونور بکھیرتی اپسرا
آ کہیں پہاڑوں میں اتر
ان وادیوں میں قیام کر
ان آبشاروں کے سنگ گنگنا
نیلم وجہلم کی جولانیاں دیکھ،
پہاڑوں جھرنوں اور مست پہاڑی ہرنوں کے گیت سن۔
آسمانوں سے اتری دھنوں کی لیریکس اپنی روح کا رزق بنا، فطرت کے راز نگاہ میں بھر
اور ذات کی ساری گھٹن نور کے ان طاقچوں میں رکھ دے۔۔
پہاڑوں میں مرنے کی آرزوئیں پرانی ہیں
پہاڑوں میں جینے کی آرزوئیں اس سے بھی قدیم
قدیم و جدید کے ہر زمانے میں پہاڑ سربلند اور پہاڑی
صوفی مزاج،
جن کے لیے ہری پربت اور مکڑا کو نروان کامنبع ہیں۔
"ہری پربت”
پہاڑوں کے پیغمبر کا یوسف
گیان کے نور سے منور
لاتثریب الیوم، کا نغمہ و صدا
لاماؤں اور بھکشوؤں کے لیے نروان کا پیالہ تھامے
آگہی کا جام لیئے
سربلند اور ایستادہ
اے ہمالہ لاماؤں اور بھکشوؤں کے مساکن کے دریچے کھول
خلا میں حبس
کشش کے دائرے میں گھٹن ہے
پہاڑوں کی قسمت میں وہ لمحے بھی موجود ہیں۔جب وہ سفید لباس پہن کر دیکھنے والی آنکھ کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں
سفید تیز اور اکھڑا ہوائیں سفید دودھیا پھولوں کو اٹھائے پھرتی ہیں
پہاڑ اپنی پشواز سنبھالے
سفید پگڑیوں کے شملے اور اونچے کر دیتے ہیں۔
جی ہاں تب
سب صدائیں۔۔۔
اور سانسوں کا زیروبم
کسی ان دیکھے خلا میں
کہیں گم ہوجاتا ہے
ہماری بصارتیں
شفق کے پہاڑوں کی چوٹیوں پہ
اترنے سمے کی نظارگی کی عادی ہیں
ہماری ذائقے نیلے آسماں تلے شباب کو دو آتشہ کرتی شراب کی لذت کی اسیر ہیں
ہم نظاروں کو کھوجتی آنکھیں لیئے
دیودار کی خوشبو
بلبل کے نغمے اور صبا کے الھڑ پنے کو اور کہاں دیکھ پائیں گے
ہم پہ بہکی شامیں اور مہکی سجیلی صبحیں مسلسل اتریں
اور ہم اکتائے نہیں
ایک ہی جام پہ ہونٹ رکھے بہکتے چلے گئے
فطرت
اپنے جوبن پہ تو صرف پہاڑوں پہ ہوتی ہے جب وہاں چشمے پھوٹتے ہیں
چاندنی اترتی ہے اور
برف انھیں دلہن بناتی ہے
بادلوں کے رتھ پہ سوار ہمالہ کی گپھاؤں میں سانس لیتی زندگی سن
تمہارے لہجے شفق رنگ
تمہارے انداز اور جوبن میں قیامت،
اس لیے ہے کہ
تم پہاڑوں کو محبوب رکھتی ہو
پہاڑوں کی الہیات میں کثرت و وحدت کے ہزار رنگ ہیں۔۔۔
تحمل دیکھیئے کہ صبا رفتار
بلندی دیکھئے کہ غرور کا نام تک نہیں انکساری دیکھیئے کہ ہر کم نگاہ کو بھی نظاروں تک کھلی رسائی
وسعت دل و نگاہ جانچیئے کہ انسان وجمادات پر مہرباں۔۔۔۔
پہاڑ اکتانے کب دیتے ہیں
ان کی عشوہ طرازیوں کے ہزار جال ہیں
ان کی سانسوں کی برکت سے
زندگی متحرک اور عشق کی ندی رواں ہے
پہاڑ
ایسی محبوبہ جو عاشق کو بے وفائی کی اجازت نہیں دیتی۔۔۔ نگاہ پھیرتے ہی بصارتیں اندھیروں کے حوالے کردی جاتی ہیں