کنارے
ایک ایسا شہر
جس کے کنارے ہم نے کبھی نہیں ملنا تھا
ہمارے درمیان سانس لے رہا تھا
ایک پُل سے گزرتے
دل لگی کے جلادوں سے
میری ملاقات ہوئی
تم اس سَمے
خداؤں جیسی اداؤں کے لیے
کنیزوں کو عقوبت خانوں سے محبت کرنا
سِکھا رہے تھے
میرے تِیر، تمہاری تلواروں کی چمک میں
راستہ بھول کر
اِرد گرد درختوں میں جا لگے
جنہیں رات گئے کراہتے ہوۓ کئی بار سُنا گیا
تمہاری زبان
جو میرے تِیروں اور تمہاری تلواروں سے
کئی گُنا زیادہ کارگر تھی
بوقتِ صبحِ کاذب بے گناہ دِلوں کی بولیاں لگایا کرتی
ہم تم سے کبھی نہ جیت سکے
اور تم نے کبھی کسی ہار کو گلے نہ لگایا
ایک ناگہانی شب
جب تم نے متنازعہ خدا کا روپ دھار لیا
کنیزوں نے گھڑ سواروں سے ناجائز تعلقات بڑھا لیے
وقت نامی ایک باغی قبیلے نے بے محل تمہاری
تلوار پر زنگ بارے سوال اٹھا دیا
تم نے بدستور میری طرف
غصیلی نگاہ کی اور مرے تِیر
آخری غم کی ٹھوکر کھاۓ ہوۓ تنوں کی طرح
بنا چاہے مضمحل ہوگئے
اب نیزوں کی بارش میں بہہ جانے والے
تمام پُلوں کا ملبہ، شہر میں اکٹھا کیا جا رہا ہے
ایک ایسا شہر
جس کے کنارے ہم نے کبھی نہیں ملنا تھا