جاوید انور کو بچھڑے آج گیارہ برس بیت گئے۔ جاوید انور وقت کا دیا ہوا وہ گھاؤ ہے جو بھر نہیں پا رہا۔ وہ بڑا نظم نگار تھا, نہ بھی ہوتا تو وہ بڑا انسان اور بڑا دوست تو تھا ہی۔ جاوید کے لئے ایک نظم جو گیارہ سال پہلے لکھی گئی دوستوں کی نذر
۔
یک طرفہ راستے کا مسافر۔۔۔۔۔۔۔ ثاقب ندیم
کیسے یک طرفہ رستے نے
ڈھلتے دن میں تجھے پکارا
کونسی ایسی راہ تھی جس پہ
چل دینے سے
ایذرا پاؤنڈ کا گھر آتا تھا
تجھے پتا تھا
تجھے پتا تھا آخر اک دن
لے سالومے
باگیں کھینچتی رہ جائے گی
اور اک چپ سے
مارکیز کے سنکی خواب کے
سارے کونے بھر جائیں گے
ٹی ایس ایلیٹ کے سگریٹ سے
ویسٹ لینڈ میں دھواں بہت تھا
ارنسٹو نے بورخیس کا قلم چرایا
سراماگو نے در کھلتے ہی
اندھے پن کا ڈھونگ رچایا
یک طرفہ تھے سارے رستے
لیکن تجھ کو رحم نہ آیا
درد جگاتی شام کا غم ہے
سرخی مائل آنکھ بھی نم ہے
ایش ٹرے میں رکھاسگریٹ
یونہی رکھا رہ جاتا ہے
خالی کرسی خالی رہ رہ تھک جاتی ہے
جن رستوں پہ خواب سناتے, نظمیں کہتے جیون بیتا
جس فٹ پاتھ پہ باتیں کرتے رات بتائی
جن جھیلوں میں سورج ڈوبتے ہم نے دیکھے
جن رستوں پہ ڈگ بھرتے تھے
وہ پوچھیں تو کیا کہنا ہے